تشریح:
1۔ اسلام سے پہلے مستقبل میں قسمت آزمائی کے متعلق مختلف طریقے رائج تھے۔ مثلاً: ©تیروں اور پانسوں سے قسمت آزمائی اور کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔©قیافہ شناسی کو بھی بڑی اہمیت حاصل تھی۔ اسےبطور پیشہ اختیار کیا جاتا تھا۔ ©پرندوں کو اڑا کر پیش آنے والے امور کے متعلق فیصلہ کیا جاتا کہ وہ کس طرف جاتا ہے۔ ©اس سلسلے میں کاہنوں اور نجومیوں کا کام بھی عروج پر تھا۔ اسلام نے ان طریقوں کو غلط ٹھہرا کر امت مسلمہ کے لیے صرف استخارے کو جائز ٹھہرایا۔ اس میں انسان اپنی عاجزی اور بے بسی کا اظہار کرتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت اور علم و قوت کے ذریعے سے پیش آنے والے مسائل کے متعلق رہنمائی کا سوال کرتا ہے۔ اس کے آداب و شرائط اور فوائد بھی احادیث میں بیان ہوئے ہیں لیکن بعض اوقات انسان اس مسنون عمل کے بجائے خود ساختہ طریقے اختیار کر لیتا ہے۔ جن کا کتاب و سنت میں کوئی ثبوت نہیں۔ اس مسنون عمل کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے سے عقیدے کی اصلاح ہوتی ہے کیونکہ اس میں توحید الوہیت کا اظہار اور صرف اپنے اللہ پر توکل کرنا ہوتا ہے نیز استخارہ اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔
2۔استخارہ کن کاموں میں جائز اور کن میں ناجائز ہے اس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔ ©وہ معاملات جن پر عمل کرنا واجب اور ضروری ہے ایسے امور میں استخارہ کرنا جائز نہیں۔ ©جن امور سے بچنا ضروری ہے ان میں بھی استخارہ کرنا صحیح نہیں۔ ©جو کام شریعت کی نظر میں پسندیدہ ہیں ان میں استخارہ کرنا درست نہیں۔ ©جن امور کے کرنے یا نہ کرنے کا انسان کو اختیار دیا گیا ہےیعنی جو کام مباح اور جائز و حلال کےدائرے میں ایسے کاموں میں استخارہ درست اور فائدہ مند ہے۔
3۔شادی جیسے اہم معاملے میں بھی استخارہ کرنا چاہیے۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ایوب انصار ی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو استخارے کا حکم دیا تھا۔ (المستدرك للحاکم: 314/1)
4۔واضح رہے کہ استخارہ کرنے کے بعد خواب آنا ضروری نہیں کہ اس میں انسان کو وہ کام کرنے یا نہ کرنے کا اشارہ ملے بلکہ قلبی رجحان اور طبعی میلان جس طرح ہو جائے اس پر عمل کیا جائے استخارے میں انسان اللہ تعالیٰ کی قدرت کے حوالے سے اپنی بے بسی اور عاجزی کو اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرتا ہے۔ اے اللہ! تو ہی قدرت کاملہ کا سزا وار ہے میں تو بے بس اور لاچار ہوں تو اپنی قدرت کاملہ سے مجھے وہ چیز مہیا کر جسے میں حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ اس کے تمام اسباب ووسائل پیدا کر دے۔ تو ہی معاملات کے نتائج و انجام کو پوری طرح جاننے والا ہے۔ اے اللہ! تجھ پر ماضی حال اور مستقبل کا کوئی واقعہ مخفی نہیں ہے۔ تیرا علم ہر چیز پر حادی ہے جبکہ میں اس سلسلے میں بالکل تہی دست ہوں میں تو وہی کچھ جانتا ہوں جس سے تونے مجھے آگاہ کیا ہے۔
5۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کی صفت قدرت کو ثابت کیا ہے اور اس کی قدرت ہر مقدور کو شامل ہے۔ اس سے معتزلہ قدریہ کی تردید مقصود ہے جو اللہ تعالیٰ کی تقدیر کو نہیں مانتے بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کو اپنے خود ساختہ اصولوں میں مقید کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے آیت کریمہ میں اتنا حصہ ہی ذکر کیا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کا بیان ہے۔ جو چیز بھی ذاتی طور پر ممکن ہے وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے باہر نہیں۔ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے جس چیز کا ارادہ کر لیتا ہے اس کے متعلق ہونے کا فیصلہ کر دیتا ہے اس کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں اور نہ کسی کو اس کے فیصلے میں رخنہ اندازی کی ہمت ہی ہے۔