تشریح:
1۔اس عنوان کی غرض اللہ تعالیٰ کے اسماء کو ثابت کرنا ہے جو اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں۔ یہ نام اس توحید کا حصہ ہیں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا اوراپنی اُمت کو اسے اختیار کرنے کی دعوت دی۔ اللہ تعالیٰ کے جتنے بھی نام ہیں وہ اس کی جلالت وعظمت پردلالت کرتے ہیں اسی لیے انھیں (الْحُسْنَى) کہا جاتا ہے، مثلاً:©۔ العلیم: اس ذات کو کہتے ہیں جس کا علم تمام کائنات کا احاطہ کیے ہوئے اور زمین وآسمان میں ایک ذرہ بھی اس سے اوجھل نہ ہو۔ ©۔ القدیر: اس ہستی کو کہا جاتا ہے جو ایسی زبردست طاقت کی مالک ہو جسے کوئی عاجز نہ کرسکے۔ ©۔ الرحیم: کا لفظ اللہ تعالیٰ کی اس عظیم الشان رحمت پردلالت کرتا ہے جو ہرچیز سے وسیع ہے۔
4۔یہ حدیث اللہ تعالیٰ کے اسماء کو نناوے میں منحصر کرنے کی دلیل نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نام اس تعداد سے کہیں زیادہ ہیں۔اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے نناوے نام ایسے ہیں جنھیں یاد کرلینے سے جنت کا پروانہ مل جاتا ہے جیسا کہ کوئی شخص کہے:میرے پاس سو کتابیں ہیں جو میں نے غریب طلباء میں تقسیم کرنی ہیں، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اس کے پاس سوسے زیادہ کتابیں نہیں ہیں۔ ان میں سے کچھ نام ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو آگاہ کیا ہے اور بعض ایسے ہیں جنھیں علم غیب میں رکھاہے کیونکہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(اللَّهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ وَابْنُ عَبْدِكَ وَابْنُ أَمَتِكَ نَاصِيَتِي بِيَدِكَ مَاضٍ فِيَّ حُكْمُكَ عَدْلٌ فِيَّ قَضَاؤُكَ أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ أَوْ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِيعَ قَلْبِي وَنُورَ صَدْرِي وَجِلَاءَ حُزْنِي وَذَهَابَ هَمِّي) ’’جوشخص کسی مصیبت یا پریشانی میں مبتلا ہو تو وہ درج ذیل دعا پڑھے، اللہ تعالیٰ اس کے رنج والم دور کر دے گا اور اس کے بدلے اسے خوشی عطا فرمائےگا: " اے اللہ! بے شک میں تیرا بندہ ہوں۔ تیرے بندے کا فرزند ہوں۔ تیری بندی کا لخت جگر ہوں۔ میری پریشانی تیرے ہاتھ میں ہے۔ تیرا حکم مجھ پر جاری ہے۔ میرے متعلق تیرا فیصلہ عدل وانصاف پر مبنی ہے۔ میں تجھ سے تیرے ہر اس نام کے طفیل سوال کرتا ہوں جوتونے اپنے لیے رکھا ہے یا وہ اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھایا ہے یا اسے تونے اپنی کتاب میں اُتارا ہے یا اسے اپنے پاس علم غیب میں ہی رکھ لیا ہے۔ توقرآن کو میرے دل کی بہار، میرے غم کا مداوا اور میری پریشانی کا علاج بنا دے۔‘‘ (مسندأحمد: 391/1)
5۔اس حدیث میں صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کچھ نام ایسے ہیں جو اس نے اپنی مخلوق کو سکھائے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جنھیں اپنے پاس علم غیب میں رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نناوے ناموں کی تعداد بیان کرنے کے متعلق کوئی حدیث ثابت نہیں، جامع ترمذی میں ایک روایت میں نناوے (99) نام بیان ہوئے ہیں۔ (جامع الترمذي، الدعوات، حدیث: 3507) لیکن یہ روایت ولید بن مسلم کی تدلیس کی بنا پر ضعیف ہے، البتہ بعض علماء نے اجتہاد سے کتاب وسنت سے نناوے نام بیان کیے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ وہی نام ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت کیا ہے۔ یہ نام اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق تکییف وتمثیل اور تحریف وتعطیل کے بغیر ثابت کیے جائیں۔ ان کے متعلق کوئی تاویل کرنے کی بجائے انھیں مبنی برحقیقت تسلیم کیا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہ سب کچھ سننے والا دیکھنے والا ہے۔‘‘ (الشوریٰ: 11) اللہ تعالیٰ کے یہ نام حسن کے بلند ترین اور اعلیٰ ترین مقام پر پہنچے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ذاتی نام کے علاوہ باقی نام مشتق ہیں جو اس کی صفات پر دلالت کرتے ہیں، مثلاً:عزیز۔عزت پر اور حکیم، حکمت پر، اللہ تعالیٰ کے ناموں میں کوئی نام جامد نہیں اسی لیے "الدھر" اللہ تعالیٰ کا نام نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ناموں کی تفصیل حسب ذیل ہے: هـُـوَ اللهُ الْذِي لا إِلــَهَ إِلا هـُـوَ الـرَّحْــمَــنُ الـرَّحِــيـمُ الــمَــلِــكُ الــقـُـدُّوسُ الــسَّــلامُ الــمُـؤمِــنُ الـمُـهَــيْــمِـنُ الـعـَـزيــزُ الـجَــبَّــارُ الـمُـتَـكَـبِّـرُ الـخَـالِــقُ الــبَـاريءُ الــمُـصَـوِّرُ الــغـَـفـَّـارُ الــقـَهَّّـارُ الـوَهـَّـابُ الــرَزَّاقُ الـفـَـتـَّاحُ الـعَـلِــيـمُ الـقـَابـِضُ الـبَـاسِــط ُ الخـَافِـضُ الـرَّافِــعُ الــمُـعِــزُّ الــمُــذِلُ الـسَّـمِـيعُ الـبـصِــيــرُ الـحَـكـَـمُ الــعَــدْلُ الـلَّـطِـيـفُ الخَـبـِيـرُ الـحَـلِـيـمُ الـعـَظِـيـمُ الـغـَـفـُـورُ الـشَّـكُـورُ الـعَـلِـيُّ الـكـَبـِـيـرُ الحـَفِــيـظ ُ الـمُـقـِـيـتُ الحَـسِــيـبُ الـجَــلِـيـلُ الـكَـريـمُ الـرَّقِــيـبُ الـمُجـِـيـبُ الـوَاسِـعُ الـحَـكِــيـمُ الــوَدُودُ الــمَـجـِـيـدُ الــبَـاعِــثُ الـشَـهـِـيـدُ الــحَــقُّ الـوَكـِـيـلُ الــقـَويُّ الــمَــتِــيــنُ الـوَلـِيُّ الـحَــمِــيـدُ الـمحْـصِـي الــمُـبْـدِيءُ الــمُـعِــيـدُ الــمُـحْــيـِي الــمُــمِــيـتُ الــحَــيُّ الــقـَـيُّـومُ الـوَاجـِـدُ الــمَـاجـِـدُ الــوَاحِــدُ الــصَّــمَــدُ الـــقـَـادِر الـمُقـْـتَـدِرُ الــمُــقــَدِّمُ الـمُـؤَخِــرُ الأوَّلُ الآخِــــرُ الــظـَّاهِــرُ الـبـَاطِــنُ الـوَالـِـي الـمُـتَـعَـالي الـــبــِـرُّ الــتـَّوابُ الـمُـنْــتـَـقــِمُ الــعَــفـُـوُّ الــرَؤوفُ مَــالِـــكُ الــمُــلـْــكِ ذُو الــجَــلال ِ والإكـْــرَام ِ الـمُـقـْسِـط ُ الـجـَامِـعُ الــغـَـنـِيُّ الـمُـغـْـنِـي الــمَـانـِـعُ الـــضَّــارُّ الــنـَافِــعُ الـــنـُّـورُ الــهـَـادِي الــبـَـدِيـْـعُ الــبَـاقـِـي الـــوَارِثُ الـرَّشِـــيــدُ الـصــَّبُــورُ. واضح رہے کہ بعض نام صرف اللہ تعالیٰ کے لیے مخصوص ہیں مخلوق کے لیے ان کا استعمال صحیح نہیں، مثلاً رحمٰن، رزاق، الصمد اور خالق وغیرہ اور بعض نام ایسے ہیں جن کا مخلوق پر بھی اطلاق ہوتا ہے، مثلاً رؤف رحیم اللہ تعالیٰ کے لیے بھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی ان کا استعمال ہوا ہے۔ (التوبة: 128) اسی طرح سمیع وبصیر اللہ تعالیٰ کے لیے بھی ہیں اور انسان کے لیے بھی بولے جاتے ہیں۔ (الدھر: 2) یہ صرف لفظی اشتراک ہے۔ معنوی اعتبار سے خالق، مخلوق کے مشابہ نہیں اور نہ مخلوق اپنے خالق کے مشابہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے ناموں کے ساتھ موسوم اور اس نے اپنا کوئی نام ایسا نہیں رکھا جس کے ساتھ وہ پہلے سے موسوم نہ ہو، اسی طرح اپنی صفات کے ساتھ ہمیشہ سے ہمیشہ تک موصوف ہے۔ اس کی بعض صفات ذاتی ہیں جوازل سے ابد تک اس کے ساتھ قائم ہیں، مثلاً: الوجہ، الید، السمع، البصر وغیرہ اور بعض صفات فعلی ہیں جو مشیت اور ارادے سے متعلق ہیں جیسے الخلق، الرزق، النزول وغیرہ۔ ان صفات کی نوعیت قدیم لیکن ان کا نفاذ جدید ہے۔ واللہ المستعان۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کے آخر میں مناسبت کی بنا پر ایک قرآنی لفظ کی لغوی تشریح فرمائی ہے۔ اس سے بعض شارحین نے یہ نکتہ کشید کیا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی مراد ان اسمائے حسنیٰ کو زبانی یاد کرنا ہے، حالانکہ زبانی طور پر بعض اوقات منافقین بھی انھیں پڑھتے ہیں جیسا کہ خوارج کے متعلق حدیث میں ہے کہ وہ قرآن کی تلاوت کریں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ ہمارے نزدیک احصاء کی دو صورتیں ہیں: ©۔ عملی:۔ اسمائے حُسنیٰ کے معانی کے مطابق انسان خود کو ڈھالے، مثلاً: الرحیم ، رحم کرنے والا، الکریم سخاوت کرنے والا، العَفُوّ معاف کرنے والا، انسان کو چاہیے کہ وہ دوسرں پر رحم کرے، سخاوت کرے اور درگزر سے کام لے۔ ©۔ قولی: انھیں یاد کرے، ورد کے طور پر پڑھے، ان کے طفیل اللہ تعالیٰ سے سوال کرے۔ اس میں مومن کے علاوہ دوسرے بھی شریک ہیں، تاہم اہل ایمان، ان کے مطابق عقیدہ رکھنے اورعمل کرنے میں دوسروں سے ممتاز ہیں۔ (فتح الباري: 462/13)