تشریح:
1۔مسیلمہ کذاب نے یمامہ کے علاقے میں نبوت کا دعوی کیا اور یہ انتہائی شعبدہ باز انسان تھا۔ بہت سے لوگ اس سے متاثر ہو کر اس کے پیروکار ہو گئے۔ وہ بہت سے لوگوں کو ساتھ لے کر مدینہ طیبہ آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ اگر آپ مجھے اپنے بعد خلیفہ نامزد کر دیں تو میں اپنے ساتھیوں سمیت آپ پر ایمان لے آتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں اس وقت کھجور کی چھڑی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’خلافت تو بڑی چیز ہے میں تجھے چھڑی کا یہ ٹکڑا بھی دینے کے لیے تیار نہیں ہوں۔‘‘ (صحیح البخاري، حدیث4373) آخر کار مسیلمہ کذاب اپنے ساتھیوں کو لے کر واپس یمامہ چلا گیا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور خلافت میں اس کے خلاف لشکر کشی کی جس میں مسلمان غالب آئے اور اسے حضرت وحشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قتل کر کے جہنم پہنچا یا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 3620) اس حدیث میں ہے کہ اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تیرے متعلق اللہ تعالیٰ نے جو فیصلہ کر رکھا ہے تو اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔‘‘ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس جملے سے عنوان ثابت کیا ہے یعنی تیرے وجود سے پہلے اللہ تعالیٰ نے تیری بد بختی اور شقاوت کا جو فیصلہ کیا ہے تو اس سے سر موانحراف نہیں کرے گا۔ اس مقام پر امراللہ سے مراد اس کا کونی اور قدری امر ہے شرعی اور تکلیفی امر مراد نہیں ہے۔ (شرح کتاب التوحید للغنیمان 242/2) دراصل امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس عنوان اور پیش کردہ احادیث سے معتزلہ کی تردید کرنا چاہتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا امر جو اللہ تعالیٰ کے کلام سے عبارت ہے وہ اس کا پیدا کیا ہوا ہے اگر چہ اللہ تعالیٰ نے پیش کردہ آیت کریمہ میں اس امر اور قول سے خود کو موصوف کیا ہے تاہم یہ اسلوب اور انداز سرا سر مجاز ہے حقیقت پر مبنی نہیں جبکہ اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام جس سے ذات باری تعالیٰ متصف ہے وہ غیر مخلوق ہے تاہم اس کا تعلق مخلوق سے حادث ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادے پر موقوف ہے۔(عمدة القاري:856/18)