تشریح:
بندہ مسلم کو چاہیے کہ وہ دعا پورے وثوق اور یقین سے مانگے۔ اس عقیدے کے ساتھ دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ اسے ضرور قبول کرے گا۔ جلدی یا دیر ممکن ہے لیکن اندھیر نہیں دعا اپنا رنگ ضرور دکھاتی ہے۔ دعا کو اللہ تعالیٰ کی مشیت سے معلق نہ کیا جائے۔ یعنی یوں نہ کہا جائے کہ اگر تو چاہتا ہے تو قبول کر لے۔ ایسا کرنے سے یہ وہم ہو سکتا ہے کہ مشیت کے بغیر اس کا عطا کرنا ممکن ہے حالانکہ مشیت کے بغیر تو جبر ہی ہے اور اللہ تعالیٰ پر کوئی جبر نہیں کر سکتا۔ مشیت کا استعمال وہاں ہوتا ہے جسے کسی کام پر مجبور کیا جا سکتا ہو اور اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے۔ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دعا کرتے وقت یوں نہ کہا جائے اے اللہ! اگر تو چاہے تو مجھے معاف کر دے اگر تو چاہے تو مجھ پر رحم فرما دے۔ انسان کو چاہیے کہ پورے عزم وثوق کے ساتھ دعا کرے اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے۔ اسے کوئی بھی کسی کام پر مجبور نہیں کر سکتا ۔‘‘ (صحیح مسلم، الذکر والدعاء، حدیث:6813۔(2679) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس طرح کی مشروط دعا اس لیے نا پسند ہے کہ اس میں دعا کرنے والے کی اپنی مطلوبہ چیز بلکہ خود اللہ تعالیٰ سے بے پروائی کی بو آتی ہے۔ (فتح الباري:557/13)