تشریح:
1۔ابن ابی قحافہ سے مراد حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ انھوں نے دو ڈول نکالے۔ ڈول نکالنے کی تعبیر امور خلافت انجام دینے سے ہے۔ حدیث میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف منسوب کمزوری سے مراد مال غنیمت کی کمی ہے کیونکہ ان کے دور میں کچھ لوگ مرتد ہوگئے تھے۔ آپ انھیں دین اسلام کی طرف واپس لانے کے لیے ان کی سرکوبی میں لگے رہے۔ یہ عمل فتوحات اور ان کے نتیجے میں مال غنیمت سے کہیں بڑھ کر درجہ رکھتا ہے۔ چونکہ ارتداد کا عمل ان کے دور حکومت میں ہوا تھا، اس لے مذکورہ کمزوری کو ان کی طرف منسوب کیا گیا، پھر اسے معاف کر دیا گیا کیونکہ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں اسلام کی طرف واپس لانے میں پوری توانائیاں صرف کر دیں۔
2۔ان کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جس قدر طاقت اور مہارت سے ڈول کھینچے یہ بھی ان کے کامیاب دورحکومت کی طرف اشارہ ہے۔ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پانی کھینچا اسے اللہ تعالیٰ کی مشیت سے منسلک کیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت سے کوئی چیز بھی باہر نہیں۔ انسان کی اپنی چاہت بھی ہوتی ہے لیکن وہ بھی اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تحت ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور تم نہیں چاہتے مگر یہ کہ اللہ چاہے۔‘‘ (الدھر 30) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی اپنی چاہت ہی سب کچھ نہیں جب تک اللہ تعالیٰ کی چاہت شامل حال نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کی چاہت اندھیر نگری نہیں ہے بلکہ اس کی بنیاد اس کی حکمت اور وسیع علم ہے۔