تشریح:
1۔شارحین نے لکھا ہے کہ یہ حدیث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوان کے مطابق نہیں ہے حتی کہ علامہ کرمانی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث میں مذکورہ لفظ اذن سے قول مراد لیا ہے، حالانکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جیسے فقیہ سے یہ بات بہت بعید ہے۔ (عمدة القاري: 672/16)
2۔ہمارے نزدیک اس لفظ کے معنی ہیں: متوجہ ہو کر سننا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ توجہ سے اسی کلام کو سنا جا سکتا ہے جو حروف وآواز پر مشتمل ہو اور خوش الحانی سے بھی وہی کلام پڑھا جا سکتا ہے جو الفاظ واصوات پر مشتمل ہو۔ اللہ تعالیٰ کا کلام بھی حروف وآواز پر مشتمل ہے اور وہ حقیقی کلام سے متصف ہے۔ واللہ أعلم۔