تشریح:
1۔پوری حدیث اس طرح ہے کہ جب بندہ مجھے اپنے نفس میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے نفس میں یاد کرتا ہوں۔اگر وہ مجھے بھری محفل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اس سے بہتر محفل میں یاد کرتا ہوں۔ (صحیح البخاري، التوحید، حدیث: 7405) حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر بندہ میرے متعلق یہ گمان رکھتا ہے کہ میں اس کے گناہ معاف کر کے اس کے ساتھ اپنے فضل وکرم کا معاملہ کروں گا تو میں اس کے گناہ معاف کر کے اس پر اپنا فضل وکرم کرتے ہوئے رحمت وبرکت سے نوازتا ہوں، اگر اس کے برعکس میرے متعلق یہ گمان رکھتا ہے کہ میں اسے سزا دوں تو میں اسے سزا سے دو چار کر دیتا ہوں۔
2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام قرآن مجید کے علاوہ بھی ہے، چنانچہ تمام احادیث قدسیہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہیں کیونکہ ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قول کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف فرمائی اور اللہ تعالیٰ کا کلام غیر مخلوق اور اس کی صفت ہے جواس کی مشیت سے متعلق ہے۔ واللہ أعلم۔