تشریح:
1۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے دور میں کئی ایک فتنوں نے جنم لیا۔ ان میں سے ایک فتنہ خلق قرآن کا تھا۔ کچھ لوگوں کا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کا قرآن مخلوق ہے۔ اس کے برعکس رد عمل کے طور پر بعض حضرات نے یہ موقف اختیار کیا کہ قرآن ہی غیر مخلوق نہیں بلکہ قرآن تلاوت کرتے وقت قاری کی آواز اور حروف بھی غیر مخلوق ہیں حتی کہ اس حد تک مبالغہ کیا گیا کہ کتابت قرآن کے بعد جو سیاہی اور کاغذ استعمال ہوا ہے وہ بھی غیر مخلوق ہے۔ محدثین کرام رحمۃ اللہ علیہ نے یہ موقف اختیار کیا کہ قاری کی آواز اور ادا ہونے والے حروف تو مخلوق ہیں البتہ تلاوت کیا جانے والا کلام غیر مخلوق ہے کیونکہ تلاوت بندے کا فعل اور اس کا کسب ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ ہے پھر اسی بنیاد پر مسئلہ خلق افعال العباد پیدا ہوا۔
2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے متعلق مستقل ایک رسالہ لکھا ہے جس میں دلائل و براہین سے ثابت کیا گیا کہ بندوں کے افعال ان کا کسب ہیں البتہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ ہیں وہ افعال اچھے ہوں یا برے۔ بہرحال انھیں پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے جبکہ معتزلہ اور جہمیہ نے یہ موقف اختیار کیا کہ بندہ اپنے افعال کا خود خالق ہے حالانکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا تمھیں اور جو تم عمل کرتے ہو۔‘‘ (الصافات:37۔96) لہذا یہ عقیدہ رکھنا کہ بندہ اپنے افعال کا خود خالق ہے اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں ہم سر ٹھہرانے کے مترادف ہے۔ یہ شرکیہ عقیدہ ہے۔ اگر انسان کی موت اسی عقیدے پر ہوئی تو ایسے مشرک پر اللہ تعالیٰ نے جنت کو حرام کیا ہے قرآن مجید میں شرک کی قباحت و شناعت (گندگی) بیان ہوئی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ان آیات کا انتخاب کیا ہے جن میں شرک کی سنگینی کو بیان کیا گیا ہے پیش کردہ حدیث میں یہ اشارہ ہے کہ بندہ اپنے فعل کا خالق نہیں۔ یہ عقیدہ رکھنا کہ بندہ اپنے افعال کا خالق ہے شرک پر مبنی عقیدہ ہے۔ وہ ایسا ہے گویا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کا شریک بنایا اور اس کے متعلق سخت وعید ہے۔ احادیث میں شرک کو اکبر الکبائر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس بنا پر یہ عقیدہ رکھنا حرام ہے کہ بندہ اپنے افعال کا خود خالق ہے۔