تشریح:
1۔عنوان میں ذکر کی گئی پہلی آیت کے مطابق زبانوں کا مختلف ہونا اللہ تعالیٰ کی ایک نشانی ہے، مختلف زمانوں میں ہر قسم کا کلام آ جاتا ہے۔ ان میں قرآن کریم کی تلاوت بھی ہے جو بندے کا فعل ہے اور اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہے۔ اسی طرح دوسری آیت میں اچھے کام کرنے کی تلقین ہے۔ ان میں قراءت ذکر الٰہی اوردعا کرنا بھی ہے۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ قراءت کرنا قاری کا فعل ہے، جو اس کا کسب اور اللہ تعالیٰ کا پیدا کیا ہواہے۔
2۔ذکر کی گئی احادیث میں قاری کی قراءت اوراس کے قیام کو اس کی طرف منسوب کیا گیا ہے جو اس کا فعل ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا محل استدلال یہی ہے کہ قاری کی زبان کا حرکت کرنا، اس کے ہونٹوں کا ہلنا، پھراس کا قراءت کرنا سب اس کا فعل اور کسب ہے جسے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے، البتہ جو کچھ پڑھا جا رہا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ دوسرے الفاظ میں اسے یوں تعبیر کیا جا سکتا ہے: (الصوت صوت القارئ والكلام كلام الباري) یعنی آواز تو قاری کی ہے اور اس کے ذریعے سے پڑھا جانے والا کلام اللہ رب العزت کا کلام ہے۔ ولله الحمد۔