قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ التَّوْحِيدِ وَالرَدُّ عَلَی الجَهمِيَةِ وَغَيرٌهُم (بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: (يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالاَتِهِ))

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ الزُّهْرِيُّ: «مِنَ اللَّهِ الرِّسَالَةُ، وَعَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ البَلاَغُ، وَعَلَيْنَا التَّسْلِيمُ» وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {لِيَعْلَمَ أَنْ قَدْ أَبْلَغُوا رِسَالاَتِ رَبِّهِمْ} [الجن: 28]، وَقَالَ تَعَالَى: (أُبْلِغُكُمْ رِسَالاَتِ رَبِّي) وَقَالَ كَعْبُ بْنُ مَالِكٍ: " حِينَ تَخَلَّفَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ: {فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالمُؤْمِنُونَ} [التوبة: 105] وَقَالَتْ عَائِشَةُ: " إِذَا [ص:155] أَعْجَبَكَ حُسْنُ عَمَلِ امْرِئٍ فَقُلْ: {اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالمُؤْمِنُونَ} [التوبة: 105]: وَلاَ يَسْتَخِفَّنَّكَ أَحَدٌ " وَقَالَ مَعْمَرٌ: {ذَلِكَ الكِتَابُ} [البقرة: 2] «هَذَا القُرْآنُ» {هُدًى لِلْمُتَّقِينَ} [البقرة: 2]: «بَيَانٌ وَدِلاَلَةٌ»، كَقَوْلِهِ تَعَالَى: {ذَلِكُمْ حُكْمُ اللَّهِ} [الممتحنة: 10]: «هَذَا حُكْمُ اللَّهِ» {لاَ رَيْبَ} [البقرة: 2]: «لاَ شَكَّ»، {تِلْكَ آيَاتُ} [البقرة: 252]: يَعْنِي هَذِهِ أَعْلاَمُ القُرْآنِ، وَمِثْلُهُ: {حَتَّى إِذَا كُنْتُمْ فِي الفُلْكِ وَجَرَيْنَ بِهِمْ} [يونس: 22]: «يَعْنِي بِكُمْ» وَقَالَ أَنَسٌ: بَعَثَ النَّبِيُّ ﷺ خَالَهُ حَرَامًا إِلَى قَوْمِهِ، وَقَالَ: أَتُؤْمِنُونِي أُبَلِّغُ رِسَالَةَ رَسُولِ اللَّهِﷺ؟ فَجَعَلَ يُحَدِّثُهُمْ

7532. حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِيلَ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ قَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ الذَّنْبِ أَكْبَرُ عِنْدَ اللَّهِ قَالَ أَنْ تَدْعُوَ لِلَّهِ نِدًّا وَهُوَ خَلَقَكَ قَالَ ثُمَّ أَيْ قَالَ ثُمَّ أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَكَ مَخَافَةَ أَنْ يَطْعَمَ مَعَكَ قَالَ ثُمَّ أَيْ قَالَ أَنْ تُزَانِيَ حَلِيلَةَ جَارِكَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَصْدِيقَهَا وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ الْآيَةَ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

      اور زہری نے کہا اللہ کی طرف سے پیغام بھیجنا اور اس کے رسول پر اللہ کا پیغام پہنچانا اور ہمارے اوپر اس کا تسلیم کرنا ہے۔ اور (سورۃ الجن) میں فرمایا «ليعلم أن قد أبلغوا رسالات ربهم‏» اس لیے کہ وہ پیغمبر جان لے کہ فرشتوں نے اپنے مالک کا پیغام پہنچا دیا۔ اور (سورۃ الاعراف) میں (نوح علیہ السلام اور ہود ؑ کی زبانوں سے) فرمایا«أبلغكم رسالات ربي‏» میں تم کو اپنے مالک کے پیغامات پہنچاتا ہوں۔ اور کعب بن مالک جب نبی کریم ﷺکو چھوڑ کر غزوہ تبوک میں پیچھے رہ گئے تھے انہوں نے کہا عنقریب اللہ اور اس کا رسول تمہارے کام دیکھ لے گا اور عائشہ ؓ  نے کہا جب تجھ کو کسی کا کام اچھا لگے تو یوں کہہ کہ عمل کئے جاؤ اللہ اور اس کا رسول اور مسلمان تمہارا کام دیکھ لیں گے، کسی کا نیک عمل تجھ کو دھوکا میں نہ ڈالے۔ اور معمر نے کہا (سورۃ البقرہ میں) یہ جو فرمایا «ذلك الكتاب‏» تو کتاب سے مراد قرآن ہے۔ «هدى للمتقين‏»وہ ہدایت کرنے والا ہے یعنی سچا راستہ بتانے والا ہے پرہیزگاروں کو۔ جیسے (سورۃ الممتحنہ) میں فرمایا «ذلكم حكم الله‏» یہ اللہ کا حکم ہے اس میں کوئی شک نہیں یعنی بلا شک یہ اللہ کی اتاری ہوئی آیات ہیں یعنی قرآن کی نشانیاں (مطلب یہ ہے کہ دونوں آیات میں «ذلك» سے «هذا» مراد ہے) اس کی مثال یہ ہے کہ جیسے (سورۃ یونس میں) «وجرين بهم» سے «وجرين بكم» مراد ہے اور انس نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے ان کے ماموں حرام بن ملحان کو ان کی قوم بنی عامر کی طرف بھیجا۔ حرام نے ان سے کہا کیا تم مجھ کو امان دو گے کہ میں نبی کریم ﷺکا پیغام تم کو پہنچا دوں اور ان سے باتیں کرنے لگے۔تشریح:اس باب سے غرض امام بخاری کی یہ ہے کہ اللہ کا پیغام یعنی قرآن مجید غیر محلوق ہے لیکن اس کا پہنچانا اس کا سنانا رسول اللہﷺ کا فعل ہے اسی لے اللہ نے اسی کے خلاف کے لئے فان لم تفعل میں فعل کا صیغہ استعمال کیا فرمایا قرآن مجید کا غیر مخلوق ہونا امت کا متفقہ عقیدہ ہے عائشہؓ کا قول ان لوگوں سے متعلق ہے جو بظاہر قرآن کے بڑے قاری اور نمازی تھے مگر عثمان ؓ کے باغی ہوکر ان کے قتل پر مستعد ہوئے عائشہؓ کے کلام کا مطلب یہی ہے کہ کسی کی ایک آدھ اچھی بات دیکھ کر یہ اعتقاد نہ کر لینا چاہیے کہ وہ آدمی ہے بلکہ اخلاق اور عمل کے لحاظ سے اس کی اچھی طرح سے جانچ کر لینی چاہئیے

7532.

سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، ایک آدمی نے پوچھا: اللہ کے رسول! کون سا جرم اللہ کے ہاں سب سے بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”یہ کہ تو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیاہے۔“ اس نے پوچھا:پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: ”یہ کہ تو اپنے بچوں کو اس ڈر سے مار ڈالے کہ وہ تیرے ساتھ کھانا کھائیں گے۔“ اس نے کہا: پھر کون سا؟ آپ نےفرمایا: ”یہ کہ تو اپنے ہمسائے کی بیوی سے زنا کرے۔“ اللہ تعالیٰ نے اس تصدیق (ان الفاظ میں) نازل فرمائی: ”(اللہ کے بندے وہ ہیں) جو اللہ کے ساتھ کسی اور الہٰ کو نہیں پکارتے اور نہ اللہ کی حرام کردہ کسی کو ناحق قتل ہی کرتے ہیں اور نہ زنا ہی کرتے ہیں اور جو شخص ایسے کام کرے گا وہ ان کی سزا پاکے رہے گا۔ اس کو دو گنا عذاب دیا جائے گا۔“