تشریح:
1۔اس حدیث کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ابلاغ دو قسم کا تھا: ایک توخاص جو قرآنی آیات نازل ہوتیں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو سناتے اور ان پر عمل کرنے کی تلقین کرتے۔ دوسری قسم یہ تھی کہ وہ باتیں جن کا استنباط آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن سے کرتے اور اسے لوگوں کے سامنے بیان کرتے، بعض اوقات اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کی تصدیق اپنی کتاب میں اتارتا تاکہ کوئی انسان ان کی صداقت میں شک وشبہ نہ کرے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں ہے۔
2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ابلاغ میں ہمیں اس عقیدے کا سراغ نہیں ملتا کہ بندہ اپنے افعال کا خود خالق ہے۔ قرآن وحدیث کے مطابق یہ عقیدہ شرک پر مبنی ہے کیونکہ خالق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور صفت خلق میں کسی کو شریک کرنا اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑا جرم ہے جسے شریعت نے اکبر الکبائر قرار دیا ہے۔ اگر اس عقیدے سے توبہ کے بغیر موت آئی تو ایسے انسان کا ٹھکانا جہنم ہے جس میں ہمیشہ کے لیے رہنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے عقائد سے محفوظ رکھے۔ آمین یا رب العالمین۔