قسم الحديث (القائل): قدسی ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ التَّوْحِيدِ وَالرَدُّ عَلَی الجَهمِيَةِ وَغَيرٌهُم (بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَجِيدٌ فِي لَوْحٍ مَحْفُوظٍ} [البروج: 22]،)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: {وَالطُّورِ وَكِتَابٍ مَسْطُورٍ} [الطور: 1] قَالَ قَتَادَةُ: «مَكْتُوبٌ»، {يَسْطُرُونَ} [القلم: 1]: «يَخُطُّونَ»، {فِي أُمِّ الكِتَابِ} [الزخرف: 4]: «جُمْلَةِ الكِتَابِ وَأَصْلِهِ»، {مَا يَلْفِظُ} [ق: 18]: «مَا يَتَكَلَّمُ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا كُتِبَ عَلَيْهِ» وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: «يُكْتَبُ الخَيْرُ وَالشَّرُّ»، {يُحَرِّفُونَ} [النساء: 46]: «يُزِيلُونَ، وَلَيْسَ أَحَدٌ يُزِيلُ لَفْظَ كِتَابٍ مِنْ كُتُبِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَلَكِنَّهُمْ يُحَرِّفُونَهُ، يَتَأَوَّلُونَهُ عَلَى غَيْرِ تَأْوِيلِهِ» {دِرَاسَتُهُمْ} [الأنعام: 156]: «تِلاَوَتُهُمْ»، {وَاعِيَةٌ} [الحاقة: 12]: «حَافِظَةٌ»، {وَتَعِيَهَا} [الحاقة: 12]: «تَحْفَظُهَا»، {وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَذَا القُرْآنُ لِأُنْذِرَكُمْ بِهِ} [الأنعام: 19]، «يَعْنِي أَهْلَ مَكَّةَ» {وَمَنْ بَلَغَ} [الأنعام: 19]: «هَذَا القُرْآنُ فَهُوَ لَهُ نَذِيرٌ»

7553. و قَالَ لِي خَلِيفَةُ بْنُ خَيَّاطٍ حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ سَمِعْتُ أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي رَافِعٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَمَّا قَضَى اللَّهُ الْخَلْقَ كَتَبَ كِتَابًا عِنْدَهُ غَلَبَتْ أَوْ قَالَ سَبَقَتْ رَحْمَتِي غَضَبِي فَهُوَ عِنْدَهُ فَوْقَ الْعَرْشِ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

‏‏‏‏ ‏‏‏‏ اور (سورۃ الطور میں) فرمایا  اور طور پہاڑ کی قسم اور کتاب کی قسم جو مسطور ہے۔ قتادہ نے کہا «مسطور» کے معنی لکھی گئی اور اسی سے ہے«يسطرون» یعنی لکھتے ہیں۔ «في أم الكتاب» یعنی مجموعی اصل کتاب میں، یہ جو سورۃ ق میں فرمایا  «ما يلفظ من قول» اس کا معنی یہ ہے کہ جو بات وہ منہ سے نکالتا ہے اس کے نامہ اعمال میں لکھ دی جاتی ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا نیکی اور بدی یہ فرشتہ لکھتا ہے۔ «يحرفون» لفظوں کو اپنے ٹھکانوں سے ہٹا دیتے ہیں کیونکہ اللہ کی کتاب میں سے کوئی لفظ بالکل نکال ڈالنا یہ کسی سے نہیں ہو سکتا مگر اس میں تحریف کرتے ہیں یعنی ایسے معنی بیان کرتے ہیں جو اس کے اصلی معنی نہیں ہیں۔ «وان كنا عن دراستهم»میں «دراست» سے تلاوت مراد ہے۔ «واعية» جو سورۃ الحاقہ میں ہے یاد رکھنے والا۔ «وتعيها» یعنی یاد رکھے اور یہ جو (سورۃ یونس میں ہے) «وأوحي إلي هذا القرآن لأنذركم به» میں «كم» سے خطاب مکہ والوں کو ہے «ومن بلغ» سے دوسرے تمام جہاں کے لوگ ان سب کو یہ قرآن ڈرانے والا ہے۔

 

7553.

سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے جب مخلوق کو پیدا کیا تو اس نے اپنے پاس۔ عرش کے اوپر ایک کتاب لکھ کر رکھی۔ اس میں یہ بھی ہے کہ میری رحمت میرے غصے پر غالب ہے یا میرے غصے سے آگے بڑھ چکی ہے۔“