ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: کوہ طور کی قسم! اور لکھی ہوئی کتاب کی قسم! قتادہ نے کہا: (مسطور) کے معنیٰ مکتوب ،یعنی لکھی ہوئی ہے¤(یسطرون) وہ لکھتے ہیں۔ (فی ام الکتب) کے معنیٰ ہیں: مجموعی اور اصلی کتاب میں۔ (ما بلفظ میں قول) یعنی جو کچھ کلام کرے گا وہ لکھ لیا جائے گا۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: خیر اور شر لکھا جاتا ہے¤(یحرفون) اس کا مطلب ہے: وہ زائل کرتے ہیں۔ اللہ کی کتابوں میں سے کسی کتاب کا لفظ کوئی بھی زائل نہیں کرسکتا لیکن وہ اس کی خلاف واقعہ تاویلیں کرتے ہیں¤
(دراستھم) کے معنیٰ ہیں: ان کا تلاوت کرنا: (واعیۃ) کے معنیٰ ہیں: یاد رکھنے والے۔اسی طرح (تعیھا) اس کی حفاظت کرتی ہے¤ «وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَـٰذَا الْقُرْآنُ لِأُنْذِرَكُمْ بِهِ» ”اور میری طرف یہ قرآن وحی کیا گیا تاکہ میں اس کے ذریعے سے اہل مکہ کو خبردار کروں“ (ومن بلغ) سے مراد دوسرے تمام جہان کے لوگ ہیں۔ان سب کو یہ قرآن ڈرانے والا ہے¤
٭فائدہ: تحریف مے متعلق چار موقف حسب ذیل ہیں: ۔تمام کتب سابقہ کو یکسر بدل دیا گیا ہے لیکن اس اطلاق کو اکثر پر محمول کرنا چاہیے کیونکہ ان کی متعدد آیات ایسی ہیں جن میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔۔اکثر طور پر تحریف وتبدیلی واقع ہوئی ہے۔ اس کے متعلق متعدد دلائل ہیں۔پہلا قول بھی اسی پر محمول کرنا چاہیے۔ ان کتابوں میں بہت کم تحریف ہوئی ہے اور اکثر حصہ اپنی اصلیت پر باقی ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ”الجواب الصحیح“ میں اسی موقف کو اختیار کیا ہے۔تحریف الفاظ میں نہیں بلکہ معافی میں ہوئی ہے۔ الفاظ اپنی جگہ پر ہیں البتہ ان کی غلط تاویلات کی گئی ہیں۔ اس آخری موقف کو امام بخاری رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے جس کی صراحت نے مذکورہ عنوان میں کی ہے۔ ہماری نزدیک تورات وانجیل میں تحریف ،صرف معانی کی صورت ہی میں نہیں بلکہ اہل کتاب نے ان کے الفاظ بھی بدل ڈالے ہیں، واللہ اعلم
حدیث ترجمہ:
امام بخاری ؓ نے کہا مجھ سے خلیفہ بن خیاط نے بیان کیا۔ ہم سے معتمر نے بیان کیا، کہا میں نے اپنے والد سلیمان سے سنا، انہوں نے قتادہ سے، انہوں نے ابورافع سے، انہوں نے ابوہریرہ ؓ سے، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے، آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ جب خلقت کا پیدا کرنا ٹھہرا چکا (یا جب خلقت پیدا کر چکا) تو اس نے عرش کے اوپر اپنے پاس ایک کتاب لکھ کر رکھی اس میں یوں ہے میری رحمت میرے غصے پر غالب ہے یا میرے غصے سے آگے بڑھ چکی ہے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری نےاپنی کتاب باب خلق افعال العباد میں کہا کہ قرآن مجید یاد کیا جاتا ہے، لکھا جاتا ہے، زبانوں سے پڑھا جاتاہے۔ یہ قرآن اللہ کا کلام ہے جومخلوق نہیں ہے۔ مگر کاغذ سیاہی اورجلد یہ سب چیزیں مخلوق ہیں۔ مضمون باب میں کتب سابقہ کی تحریف کا ذکر ہےآج کل جو نسخے توراۃ وانجیل کے نام سے دنیا میں مشہور ہیں ان میں تحریف لفظی اورمعنوی ہردو طرح سےموجود ہے۔ اسی لیے اس پراجماع ہےکہ ان کتابوں کا مطالعہ اوراشتغال مضبوط الایمان لوگوں کےلیے جائز ہے جوان کارد کرنے اورجواب دینے کے لیے پڑھیں۔ آخر میں لوح محفوظ کا ذکر ہے۔ لوح محفوظ عرش کے پاس ہے۔ حدیث سے یہ بھی نکلتا ہے کہ صفات افعال جیسے رحم اورغضب وغیرہ یہ حادث ہیں ورنہ قدیم میں سابقیت اورمسبوقیت نہیں ہوسکتی۔