تشریح:
1۔ان دونوں روایات میں بظاہر تضاد ہے۔ ایک میں ہے کہ مخلوق کو پیدا کرنے کے بعد نوشتہ لکھا اور دوسری میں ہےکہ مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے اسے تحریر کیا۔ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ قضی الخلق کا مطلب ہے کہ اس نے پہلے خلقت کا پیدا کرنا ٹھان لیا۔ اگر اس سے مراد یہ ہو کہ وہ پیدا کر چکاتھا تو موافقت کی صورت یہ ہوگی کہ خلقت کی تخلیق سےپہلے تحریر لکھنے سے مراد کتاب لکھنے کا ارادہ کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ ازل میں کر چکا تھا۔ اور خلقت کی تخلیق سے پہلے وہ ارادہ موجود تھا۔ واللہ أعلم۔
2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث سے ثابت کیا ہے کہ قرآن کریم لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا نام مصاحف میں لکھا ہوتا ہے۔ قرآن اللہ اتعالیٰ کا کلام ہے اور کلام متکلم کی ایسی صفت ہے جو اس کے ساتھ قائم ہے اس سے الگ نہیں ہوتی۔ کلام کا مطلب قطعاً یہ نہیں ہے کہ وہ ذات سے الگ ہو کر کسی دوسری چیز میں حلول کر گئی ہے مخلوق میں سے جب کوئی کلام کرتا ہے تو وہ بھی ذات سے الگ نہیں ہوتی اور کسی دوسری چیز میں حلول نہیں کرتی۔چہ جائیکہ کلام الٰہی کے متعلق یہ تصور کیا جائے کہ وہ ذات باری تعالیٰ سے الگ ہو کر کسی دوسری چیز میں حلول ہوئی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’وہ بہت خطرناک بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے جو کچھ وہ کہتے ہیں سراسر جھوٹ ہے۔‘‘ (الکهف:18۔5) اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ خطرناک بات ان کے منہ سے نکلتی ہے لیکن اس کے باوجود ان کی ذات سے الگ نہیں ہوتی۔
3۔پیش کردہ احادیث سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کچھ ایسی فعلی صفات بھی ہیں جو اصل کے اعتبار سے قدیم ہوتی ہے لیکن مخلوق سے تعلق حادث ہوتا ہے جیسا کہ غضب اور رحمت ہے حدیث میں سبقت سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا تعلق اس کے غضب کے تعلق سے مقدم ہے۔ اگر یہ معنی نہ کیے جائیں تو رحمت کا غضب سے سبقت لے جانا متصور نہیں ہوتا کیونکہ غضب صفت قدیمہ ہے اور قدیم وہ ہوتا ہے جو مسبوق بالعدم نہ ہو اور نہ کوئی اس کے آگے ہی ہو اسی طرح کلام الٰہی قدیم ہے لیکن اس کا لوح محفوظ سے تعلق حادث ہے۔ واللہ أعلم۔