تشریح:
(1) حدیث میں مقتدی کے آمین کہنے کا ذکر تو ہے لیکن بآواز بلند کہنے کا نہیں، اس کے متعلق علامہ ابن منیر ؒ لکھتے ہیں: حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ اس حدیث میں مقتدی کو آمین کہنے کا حکم ہے اور جب مطلق طور پر قول کے ذریعے سے خطاب ہوتو جہری ہی پر محمول ہوگا اور جب آہستہ کہلانا مقصود ہوتو آہستہ کہنے کی قید اضافی طور پر بڑھائی جاتی ہے۔ (فتح الباري:345/2)
(2) حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ باب اور حدیث کی مطابقت اس طرح بھی ثابت ہوتی ہے کہ مقتدی امام کی اقتدا کا پابند ہے اور یہ ثابت ہوگیا کہ امام بآواز آمین کہنے کا پابند ہے، اس لیے مقتدی کے لیے بھی لازمی ٹھہراکہ وہ اپنے امام کی اقتدا میں بآواز بلند آمین کہے۔ اس پر اعتراض ہوسکتا ہے کہ اس اعتبار سے تو مقتدی کو سورۂ فاتحہ بھی اونچی آواز میں پڑھنی چاہیے لیکن امام کے پیچھے آواز بلند فاتحہ پڑھنے کی ممانعت ہے، اس لیے یہ اعتراض درست نہیں۔ مزید اس موقف کی تائید حضرت عطاء کے اثر سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت عبداللہ بن زبیر کے مقتدی بآواز بلند آمین کہا کرتے تھے۔ ایک روایت میں حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ میں نے اس مسجد میں دوسو سے زیادہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو دیکھا کہ جب امام (وَلَا الضَّالِّينَ) کہتا تو ان کے آمین کہنے کی گونج مجھے سنائی دیتی۔ (فتح الباري:345/2) علامہ سندھی ؒ فرماتے ہیں کہ فقولوا آمين کا حکم امام اور مقتدی دونوں کے لیے ہے۔ دراصل اس طرح کہنا چاہیے تھا کہ امام بھی آمین کہے اور تم بھی آمین کہو، لیکن چونکہ رسول اللہ ﷺ خود امام تھے، اس لیے عبارت کو مختصر طور پر اس طرح کہہ دیا کہ تم آمین کہو۔ (حاشیةالسندي:142/1)
(3) کتب حدیث میں متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے آثار مروی ہیں جو مقتدی کے لیے آمین بالجہر پر دلالت کرتے ہیں۔ چند ایک حوالہ حسب ذیل ہے:حضرت نافع روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمر ؓ امام کے ساتھ نماز پڑھتے تو جب فاتحہ پڑھنے کے بعد لوگ آمین کہتے تو آپ بھی آمین کہتے اور اسے سنت قرار دیتے۔ (صحیح ابن خزیمة :287/2حدیث:572) نیز امام بیہقی کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر ؓ امام ہوتے یا مقتدی دونوں صورتوں میں بلند آواز سے آمین کہتے تھے۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:59/2) اس سلسلے میں امام بخاری ؒ کی بیان کردہ تعلیق پہلے گزر چکی ہے۔ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کے متعلق بھی پہلے بیان ہوچکا ہے۔ ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے عطاء بن ابی رباح سے سوال کیا: آیا حضرت ابن زبیر سورۂ فاتحہ کے اختتام پر آمین کہتے تھے؟تو انھوں نے کہا: ہاں، اور جو ان کے پیچھے نماز پڑھتے تھے وہ بھی آمین کہتے تھے یہاں تک کہ مسجد گونج اٹھتی تھی۔ (المصنف لعبدالرزاق:2/97،96) اس کے علاوہ حضرت عکرمہ مولیٰ ابن عباس کہتے ہیں کہ میں نے لوگوں کو اس حال میں پایا کہ جب امام ﴿غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾) کہتا تو ان کے آمین کہنے سے مساجد گونج اٹھتی تھیں۔ (المصنف لابن أبي شیبة:189/2) ان آثار کے مقابلے میں کسی صحابی سے صحیح اور حسن سند کے ساتھ آہستہ آواز میں آمین کہنا ثابت نہیں۔
(4) امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں دومتابعات بھی ذکر کی ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:محمد بن عمرو کی متابعت کو امام احمد،دارمی، ابن خزیمہ اور امام بیہقی ؒ نے اپنی اپنی متصل اسناد سے بیان کیا ہے جبکہ دوسری نعیم مجمر کی متابعت کو امام نسائی اور ابن خزیمہ ؒ نے موصولاًروایت کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: نعیم مجمر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو ہریرہ ؓ کے پیچھے نماز پڑھی تو آپ نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم اور سورۂ فاتحہ پڑھی۔ جب آپ (وَلَا الضَّالِّينَ) پر پہنچے تو آمین کہی اور آپ کے پیچھے لوگوں نے بھی آمین کہی۔ آخر میں آپ نے فرمایا:مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! میں تم سب سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کی نماز سے مشابہ ہوں۔ (فتح الباري:346/2)
(5) جس روایت میں آہستہ آمین کہنے کا ذکر آیا ہے وہ محدثین کے قائم کردہ معیار صحت پر پوری نہیں اترتی، اس لیے وہ قابل حجت نہیں۔ اگر اسے صحیح تسلیم کرلیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سری نمازوں میں آمین آہستہ کہی جائے تاکہ دیگر روایات کے ساتھ اس کا ٹکراؤنہ ہو۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ رسول اللہ ﷺ ابتدائی طور پر بغرض تعلیم بآواز بلند آمین کہا کرتے تھے اس کے بعد یہ حکم منسوخ ہوگیا۔یہ موقف عقل ونقل کے اعتبار سے درست نہیں کیونکہ اونچی آواز سے آمین کہنا حضرت وائل بن حجر ؓ سے بھی مروی ہے جو رسول اللہ ﷺ کی آخری عمر میں اسلام لائے تھے،اس لیے ان سے مروی حدیث کو ابتدائی زمانے پر محمول کرنا ممکن نہیں۔ والله أعلم۔