حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، انہوں نے امام مالک ؓ علیہ سے، انہوں نے ابوبکر بن عبدالرحمن کے غلام سمی سے، انہوں نے ابوصالح سمان سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب امام ﴿غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾ کہے تو تم بھی آمین کہو کیوں کہ جس نے فرشتوں کے ساتھ آمین کہی اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔ سمی کے ساتھ اس حدیث کو محمد بن عمرو نے ابوسلمہ سے، انہوں نے ابوہریرہ ؓ سے، انہوں نے آنحضرت ﷺ سے روایت کیا۔ اور نعیم مجمر نے بھی ابوہریرہ ؓ سے، انہوں نے آنحضرت ﷺ سے۔
حدیث حاشیہ:
مقتدی امام کی آمین سن کر آمین کہیں گے، اسی سے مقتدیوں کے لیے آمین بالجہر کا اثبات ہوا۔ بنظر انصاف مطالعہ کرنے والوں کے لیے یہی کافی ہے۔ تعصب مسلکی کا دنیا میں کوئی علاج نہیں ہے۔
تشریح : جہری نمازو ںمیں سورۃ فاتحہ کے اختتام پر امام اور مقتدیوں کے لیے بلند آواز سے آمین کہنا یہ بھی ایک ایسی بحث ہے جس پر فریقین نے کتنے ہی صفحات سیاہ کر ڈالے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اس پر بڑے بڑے فسادات بھی ہو چکے ہیں۔ محترم برادران احناف نے کتنی مساجد سے آمین بالجہر کے عاملین کو نکال دیا۔ مارا پیٹا اور معاملہ سرکاری عدالتوں تک پہنچا ہے۔ یہی وجہ ہوئی کہ اس جنگ کو ختم کرنے کے لیے اہل حدیث حضرات نے اپنی مساجد الگ تعمیر کیں اور اس طرح یہ فساد کم ہوا۔ اگر غور کیا جائے تو عقلاً و نقلاً یہ جھگڑا ہرگز نہ ہونا چاہئے۔ لفظ آمین کے معنی یہ ہیں کہ اے خدا میں نے جو دعائیں تجھ سے کی ہیں ان کو قبول فرمالے۔ یہ لفظ یہود و نصاری میں بھی مستعمل رہا اور اسلام میں بھی اسے استعمال کیا گیا۔ جہری نمازوں میں اس کا زور سے کہنا کوئی امر قبیح نہیں تھا۔ مگر صد افسوس کہ بعض علماء سو نے رائی کا پہاڑ بنا دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں میں سرپھٹول ہوئی اور عرصہ کے لیے دلوں میں کاوش پیدا ہو گئی۔ سیدنا حضرت امام بخاری ؒ نے یہاں باب منعقد کرکے اوراس کے تحت احادیث لاکر اس بحث کا خاتمہ فرما دیا ہے۔ پھر بھی بہت سے لوگ تفصیلات کے شائق ہیں۔ لہٰذا ہم اس بارے میں ایک تفصیلی مقالہ پیش کر رہے ہیں جو متحدہ بھارت کے ایک زبردست فاضل استاذ الفضلاء راس الاتقیاء حضرت علامہ عبداللہ صاحب روپڑی ؒ کے زور قلم کا نتیجہ ہے۔ اس میں دلائل کے ساتھ ساتھ ان پر اعتراضات واردہ کے کافی شافی جوابات دیئے گئے ہیں۔ چنانچہ حضرت مولانا صاحب قدس سرہ فرماتے ہیں: بلند آواز سے آمین کہنے کے متعلق احادیث و آثار اور علماءاحناف کے فتاوے احادیث: حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں: کان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم إذا تلا غیر المغضوب علیهم ولا الضالین قال آمین حتی یسمع من یلیه من الصف الأول۔ (أبوداود، ص: 134 طبع دہلي) ( ترجمہ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غیر المغضوب علیہم ولا الضالین پڑھتے تو آمین کہتے۔ یہاں تک کہ جو پہلی صف میں آپ کے نزدیک تھے وہ سن لیتے۔ اس حدیث پر حنفیہ کی طرف سے دو اعتراض ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس حدیث کی اسناد میں بشر بن رافع الحارثی ابوالاسباط ایک راوی ہے۔ اس کے متعلق نصب الرایہ، جلد: اول ص: 371 میں علامہ زیلعی حنفی لکھتے ہیں: ''ضعفه البخاري و الترمذي والنسائي و أحمد و ابن معین وابن حبان'' اس کو امام بخاری، ترمذی، نسائی، احمد، ابن معین اور ابن حبان رحمہم اللہ نے ضعیف کہا ہے۔ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ ایک راوی ابوعبداللہ بن عم ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہے، جو بشر بن رافع کا استاد ہے، اس کے متعلق علامہ زیلعی رحمۃ للہ علیہ لکھتے ہیں: “ کہ اس کا حال معلوم نہیں اور بشر بن رافع کے سوا اس سے کسی نے روایت نہیں کی۔ یعنی یہ مجہول العین ہے، اس کی شخصیت کا پتہ نہیں۔ ” جواب اعتراض اول: خلاصہ تہذیب الکمال کے صفحہ41 میں بشر بن رافع کے متعلق لکھا ہے۔ و ثقه ابن معین و ابن عدي وقال البخاري لا یتابع علیه۔ یعنی ابن معین اور ابن عدی نے اس کو ثقہ کہا ہے اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے۔ اس کی موافقت نہیں کی جاتی۔ اس سے معلوم ہوا کہ کوئی ضعیف کہتا ہے اور کوئی ثقہ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ضعیف کہنے والوں نے ضعف کی وجہ بیان نہیں کی اور ایسی جرح کو جرح مبہم کہتے ہیں۔ اور اصول کا قاعدہ ہے: ’’ثقہ کہنے والوں کے مقابلے میں ایسی جرح کا اعتبار نہیں۔ ہاں اگر وجہ ضعف بیان کر دی جاتی تو ایسی جرح بے شک تعدیل پر مقدم ہوتی اور ایسی جرح کو جرح مفسر کہتے ہیں۔ ‘‘ پھر امام بخاری ؒ کا کہنا کہ اس کی موافقت نہیں کی جاتی۔ یہ بہت ہلکی جرح ہے۔ ایسے راوی کی حدیث حسن درجہ سے نہیں گرتی۔ غالباً اسی لیے ابوداؤد ؒ اور منذری نے اس پر سکوت کیا ہے اور اس سے دوسرے اعتراض کا جواب بھی نکل آیا ہے۔ کیوں کہ ابوداؤد جس حدیث پر سکوت کرتے ہیں، وہ ان کے نزدیک اچھی ہوتی ہے اور مجہول العین کی روایت ضعیف ہوتی ہے۔ پس ابوعبداللہ مجہو ل العین نہ ہوا، ورنہ وہ سکوت نہ کرتے۔ علاوہ اس کے علامہ زیلعی ؒ کو غلطی لگی ہے۔ یہ مجہول نہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ تقریب میں لکھتے ہیں۔ مقبول یعنی اس کی حدیث معتبر ہے۔ امام دار قطنی ؒ کہتے ہیں کہ اس حدیث کی اسناد حسن ہیں، مستدرک حاکم میں ہے کہ یہ حدیث بخاری مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔ امام بیہقی کہتے ہیں۔ حسن صحیح ہے۔ (نیل الأوطار، جلد: 2ص: 117، طبع مصر) تنبیہ: نصب الرایہ جلد اول/ ص: 371 کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ اس کی اسناد میں اسحاق بن ابراہیم بن العلاءزبیدی ضعیف ہے۔ مگر جو جرح مفسر ثابت نہیں ہوئی ا س لیے دار قطنی نے اس کو ''حسن'' کہا ہے اور حاکم نے صحیح اور بیہقی نے حسن صحیح اور میزان الاعتدال میں جو عوف طائی سے اس کا جھوٹا ہونا ذکر ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے تقریب میں اس کی تردید کی ہے اور خلاصہ تہذیب الکمال میں عوف طائی کے ان الفاظ کو نقل ہی نہیں کیا۔ حالانکہ وہ خلاصہ والے میزان الاعتدال سے لیتے ہیں۔ ( 2 ) حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں: عن أبي هریرة قال ترك الناس التامین کان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم إذا قال غیر المغضوب علیهم ولا الضالین قال آمین حتی یسمعها أهل الصف الأول فیرتج بها المسجد۔ ترجمہ: ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں، لوگوں نے آمین چھوڑ دی، رسول اللہ ﷺ جب غیر المغضوب علیہم ولا الضالین کہتے تو آمین کہتے۔ یہاں کہ پہلی صف سن لیتی۔ پس ( بہت آوازوں کے ملنے سے ) مسجد گونج جاتی۔ (ابن ماجة، ص: 62، طبع دہل) اس حدیث کی صحت بھی ویسی ہی ہے، جیسی پہلی حدیث کی۔ ملاحظہ ہو نیل الاوطار، جلد2، ص: 117، طبع مصر ) ( 3 ) عن أم الحصین أنها کانت تصلي خلف النبي صلی اللہ علیه وسلم في صف النساء فسمعته یقول الحمد للہ رب العلمین الرحمن الرحیم مالك یوم الدین حتی إذا بلغ غیر المغضوب علیهم ولاالضالین قال آمین۔ (مجمع الزوائد هیثمي، جلد: 2ص: 114، تخریج هدایة حافظ ابن حجر، ص: 78) ( ترجمہ ) ام الحصین رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پیچھے عورتوں کی صف میں نماز پڑھا کرتی تھیں ( وہ کہتی ہیں ) میں نے آپ کو یہ پڑھتے ہوئے سنا۔الحمد للہ رب العلمین الرحمن الرحیم مالك یوم الدین یہاں تک کہ غیر المغضوب علیهم ولاالضالین پر پہنچتے تو آمین کہتے۔ یہاں تک کہ میں سنتی اور میں عورتوںکی صف میں ہوتی۔ مذکورہ بالا حدیث میں ایک راوی اسماعیل بن مسلم مکی ہے۔ اس پر زیلعی ؒ نے اور حافظ ابن حجر ؒ نے تو سکوت کیا۔ مگر ہیثمی نے اس کو ضعیف کہا ہے۔ خیر اگر ضعیف ہو تو دوسری روایتیں مذکورہ بالا اور زیریں اس کو تقویت دیتی ہیں۔ تنبیہ: کبھی پہلی صف کا سننا اور کبھی پچھلی صفوں تک آپ کی آواز کا پہنچ جانا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کبھی آپ آمین فاتحہ کی آواز کے برابر کہتے اور کبھی معمولی آواز سے۔ ( 4 ) أخرجه أبوداود و الترمذي عن سفیان عن سلمة بن کهیل عن حجر بن عنبس عن وائل بن حجر واللفظ لأبي داود قال کان رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم إذا قرأ ولا الضالین قال آمین و رفع بها صوته انتهی و لفظ الترمذي و مدبها صوته و قال حدیث حسن۔ (تخریج هدایة زیلعي، جلد: اول / ص: 370) ( ترجمہ ) ابوداؤد اور ترمذی میں ہے، وائل بن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ولاالضالین پڑھتے تو بلند آواز سے آمین کہتے۔ یہ ابوداؤد کے لفظ ہیں۔ اور ترمذی کے یہ لفظ ہیں و مد بها صوته یعنی آمین کے ساتھ آواز کو کھینچتے اور ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔ تنبیہ: بعض لوگ مدبها صوته کے معنے کرتے ہیں کہ آمین کے وقت الف کو کھینچ کر پڑھتے لیکن ابوداؤد کے لفظ رفع بها صوته اور نمبر 5کی روایت جہر بآمین نے وضاحت کردی کہ مدبہا سے مراد آواز کی بلندی ہے اور عرب کاعام محاورہ ہے اور احادیث میں بھی بہت آیا ہے۔ چنانچہ ترمذی میں ابوبکر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ غفار، اسلم اور مزینہ تینوں قبیلے تمیم، اسد، غطفان اور بنی عامر صعصعہ سے بہترہیں۔ یمدبها صوته۔ یعنی بلند آواز سے کہتے اور بخاری میں براءسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ احزاب کے دن خندق کھودتے اور یہ کلمات کہتے: اللَّهُمَّ لَوْلَا أنْتَ ما اهْتَدَيْنَا... ولَا تَصَدَّقْنَا ولَا صَلَّيْنَا، فَأَنْزِلَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَا... وثَبِّتِ الأقْدَامَ إنْ لَاقَيْنَا، إنَّ الأُلَى قدْ بَغَوْا عَلَيْنَا... وإنْ أرَادُوا فِتْنَةً أبيْنَا قَالَ: ثُمَّ يَمُدُّ صَوْتَهُ بآخِرِهَا۔ ’’یا اللہ! اگر تیرا احسان نہ ہوتا تو نہ ہم ہدایت پاتے۔ نہ صدقہ خیرات کرتے نہ نماز پڑھتے پس اگر ہم دشمنوں سے ملیں تو ہمارے دلوں کو ڈھارس دے اور ہمارے قدموں کو مضبوط رکھ۔ یہ لوگ ہم پر دشمنوں کو چڑھا کر لے آئے۔ جب انہوں نے ہم سے مشرکانہ عقیدہ منوانا چاہا۔ ہم نے انکار کر دیا۔ براءکہتے ہیں اخیر کلمہ ( ابینا یعنی ہم نے انکار کر دیا ) کے ساتھ دوسرے کلمات کی نسبت آواز بلند کرتے۔ ‘‘ اور ابوداؤد وغیرہ میں ترجیع اذان کے متعلق ابومحذورہ کی حدیث ہے اس میں یہ الفاظ فمد من صوتك۔ یعنی اپنی آواز کو ( پہلے کی نسبت ) بلند کر۔ ( 5 ) أخرج أبوداود و الترمذي عن علي بن صالح و یقال العلاء بن صالح الأسدي عن سلمة بن کهیل عن حجر بن عنبس عن وائل بن حجر عن النبي صلی اللہ علیه وسلم أنه صلی فجهر بآمین۔ ( ترجمہ ) وائل بن حجر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں بلند آواز سے آمین کہی۔ تنبیہ: وائل بن حجر کی اس حدیث کے راوی شعبہ بھی ہیں، جو سلمہ بن کہیل کے شاگر د ہیں، انہوں نے اپنی روایت میں و خفض بها صوته۔ یعنی رسول اللہ ﷺ نے آہستہ آمین کہی۔ حنفیہ اسی کو لیتے ہیں اور سفیان ثوری ؒ نے جو اپنی روایت میں سلمہ بن کہیل سے و مدبها صوته یا رفع بها صوته۔ کہا ہے۔ اس کو ترک کر دیا ہے حالانکہ فتح القدیر شرح ہدایہ اور عنایۃ شرح ہدایہ، جلد: اول /ص: 219 پر رفع یدین کی بحث میں لکھا ہے کہ زیادہ فقیہ کی روایت کو ترجیح ہوتی ہے۔ اور سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ بالاتفاق شعبہ رحمۃ اللہ علیہ سے زیادہ فقیہ ہیں۔ اس بنا پر سفیان کی روایت کو ترجیح ہونا چاہئے۔ اور محدثین کا اصول ہے کہ زیادہ حافظہ والے کو ترجیح ہوتی ہے اور سفیان رحمۃ اللہ علیہ حافظہ میں بھی شعبہ رحمۃ اللہ علیہ سے زیادہ ہیں۔ اسی بنا پر حنفیہ نے کئی مقامات پر سفیان ؒ کو شعبہ ؒ کی روایت پر ترجیح دی ہے۔ ( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی، جلد: 1 ص: 210 و ص:211 ) پھر لطف کی بات یہ ہے کہ سلمہ بن کہیل کے دو شاگر د اور ہیں۔ ایک علاء بن صالح یہ ثقہ ہیں اور ان کو علی بن صالح بھی کہتے ہیں۔ دوسرے محمد بن سلمہ، یہ ضعیف ہیں۔ ان دونوں سے علاء کی روایت میں جہر بآمین ہے اور محمد بن سلمہ کی روایت میں رفع بها صوته ہے بلکہ خود شعبہ نے بھی ایک روایت میں سلمہ بن کہیل سے رفع بہا صوتہ روایت کیا ہے اور سند بھی اس کی صحیح ہے۔ ملاحظہ ہو نصب الرایہ، جلد: 1 ص: 369 اور تلخیص الحبیر، ص: 89 اور تحفۃ الاحوذی، جلد: 1ص: 211۔ مگر باوجود اس کے حنفیہ نے شعبہ ؒ کی روایت خفض بها صوته ہی کو لیا ہے، لیکن سارے حنفیہ ایک سے نہیں۔ کئی اس کمزوری کو محسوس کرکے آمین بالجہر کے قائل ہیں، چنانچہ اس کا ذکر آگے آتا ہے۔ إن شاءاللہ۔ ( 6 ) عن عبدالجبار بن وائل عن أبیه قال صلیت خلف رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فلما افتتح الصلوة کبر و رفع یدیه حتی حاذتا أذنیه ثم قرأ فاتحة الکتاب فلما فرغ منها قال آمین یرفع صوته۔ رواہ النسائي ( تخریج زیلعی، ج: 1 ص: 271 ) ( ترجمہ ) عبدالجبار بن وائل ؒ اپنے باپ وائل بن حجر ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی۔ جب نماز شروع کی تو تکبیر کہی اور ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ کانوں کے برابر ہوگئے۔ پھر فاتحہ پڑھی، پھر جب فاتحہ سے فارغ ہوئے تو بلند آواز سے آمین کہی۔ اس حدیث کو نسائی نے روایت کیا۔ نصب الرایہ، جلد : اول / ص: 371 کے حاشیہ میں امام نووی ؒ سے بحوالہ شرح المہذب للنووی لکھا ہے کہ ائمہ اس بات پر متفق ہیں کہ عبدالجبار نے اپنے والد سے نہیں سنا اور ایک جماعت نے کہا ہے کہ وہ اپنے باپ کی وفات کے چھ ماہ بعد پیدا ہوا ہے۔ پس یہ حدیث منقطع ہوئی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حجر بن عنبس نے بھی وائل بن حجر سے یہ حدیث روایت کی ہے اور اس نے وائل سے سنی ہے۔ اس لیے منقطع ہونے کا شبہ رفع ہو گیا۔ نیز کتب اسماءالرجال میں عبدالجبار کا استاذ زیادہ تر اس کا بھائی علقمہ لکھا ہے اس لیے غالب ظن ہے کہ اس نے یہ حدیث اپنے بھائی علقمہ سے سنی ہو۔ نصب الرایہ جلد: اول/ ص: 370 پر جو لکھا ہے کہ عقلمہ نے اپنے باپ سے نہیں سنا، وہ اپنے باپ کے وفات کے چھ ماہ بعد پیدا ہوا ہے۔ یہ نقل کرنے والوں کی غلطی ہے اور یہیں سے حافظ ابن حجر ؒ کو بھی غلطی لگی ہے۔ وہ بھی تقریب میں لکھتے ہیں کہ علقمہ بن وائل نے اپنے باپ سے نہیں سنا۔ حالانکہ وہ عبدالجبار ہے اور وہی اپنے باپ کی وفات کے چھ ماہ بعد پیدا ہوا ہے۔ چنانچہ ابھی گزرا ہے : ترمذي، باب المرأة استکرهت علی الزنا۔ میں تصریح کی ہے کہ علقمہ نے اپنے باپ سے سنا ہے، اور وہ عبدالجبار سے بڑا ہے اور عبدالجبار نے اپنے باپ سے نہیں سنا۔ اور مسلم، باب منع سب الدهر میں علقمہ کی حدیث جو اس نے اپنے باپ سے روایت کی ہے، لائے ہیں اور مسلم منقطع حدیث نہیں لاسکتے کیوں کہ وہ ضعیف ہوتی ہے۔ اور ابوداؤد، باب من حلف لیقتطع بها مالا۔ میں اس کی حدیث اس کے باپ سے لائے ہیں اور اس پر سکوت کیا ہے حالانکہ ان کی عادت ہے کہ وہ انقطاع وغیرہ بیان کرتے ہیں۔ بہر صورت علقمہ کے سماع میں شبہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خلاصہ تہذیب الکمال میں تقریب کی یہ عبارت کہ ’’ اس نے اپنے باپ سے نہیں سنا۔ ‘‘ ذکر نہیں کی۔ خلاصہ والے تقریب سے لیتے ہیں۔ پس جب علقمہ کا سماع ثابت ہو گیا اور ظن غالب ہے کہ عبدالجبار نے یہ حدیث علقمہ سے لی ہے۔ پس حدیث متصل ہو گئی اور حنفیہ کے نزدیک تو تابعی کی حدیث ویسے ہی متصل کے حکم میں ہوتی ہے۔ خواہ اپنے استاد کا نام لے یا نہ لے تو ان کو تو اس پر ضرور عمل کرنا چاہئے۔ ( 7 ) عن علي رضي اللہ عنه قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم إذا قال ولاالضالین قال آمین۔ (ابن ماجة، باب الجهر بآمین، ص: 62) ( ترجمہ ) حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سناکہ جب آپ ولا الضالین کہتے تو آمین کہتے۔ اس حدیث میں محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلی ایک راوی ہے اس کے متعلق مجمع الزوائد میں لکھا ہے ’’جمہور اس کو ضعیف کہتے ہیں اور ابوحاتم کہتے ہیں مقام اس کا صدق ہے۔ ‘‘ مجمع الزوائد میں جمہور کے ضعیف کہنے کی وجہ نہیں بتائی۔ تقریب التہذیب میں اس کی وضاحت کی ہے، چنانچہ لکھتے ہیں۔ صدوق سيئ الحفظ جدا۔ یعنی سچا ہے حافظہ بہت خراب ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ضعف کی وجہ حافظہ کی کمزوری ہے۔ ویسے سچاہے، جھوٹ نہیں بولتا۔ پس یہ حدیث بھی کسی قدر اچھی ہوئی اور دوسری حدیثوں کے ساتھ مل کر نہایت قوی ہوگئی۔ تحفۃ الاحوذی، جلداول / ص: 608 میں ہے: و أما حدیث علي ؓ فأخرجه الحاکم بلفظ قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم یقول آمین إذا قرأ غیر المغضوب علیهم ولا الضالین و أخرج أیضا عنأ أن النبي صلی اللہ علیه وسلم إذا قرأ ولا الضالین رفع صوته بآمین کذا في الإعلام الموقعین۔ ( ترجمہ ) مستدرک حاکم میں ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آمین کہتے سنا جب کہ آپ نے ( غیر المغضوب علیہم ولا الضالین ) پڑھا۔ نیز مستدرک حاکم میں حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب والا الضالین پڑھتے تو بلند آواز سے آمین کہتے۔ اعلام الموقعین میں اسی طرح ہے۔ ( 8 ) تحفۃ الاحوذی کے اسی صفحہ میں ہے: وَلِأَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ آخَرُ فِي الْجَهْرِ بِالتَّأْمِينِ رَوَاهُ النَّسَائِيُّ عَنْ نُعَيْمٍ الْمُجْمَرِ قَالَ صَلَّيْتُ وَرَاءَ أَبِي هُرَيْرَةَ فَقَرَأَ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ثُمَّ قَرَأَ بِأُمِّ الْقُرْآنِ حَتَّى إِذَا بَلَغَ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضالين فَقَالَ آمِينَ فَقَالَ النَّاسُ آمِينَ الْحَدِيثَ وَفِي آخِرِهِ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنِّي لَأَشْبَهُكُمْ صَلَاةً بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِسْنَادُهُ صَحِيحٌ۔ ( ترجمہ ) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے آمین بالجہر کے بارے میں ایک اورحدیث ہے جو نسائی میں ہے۔ نعیم بن مجمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی۔ انہوں نے پہلے بسم اللہ پڑھی، پھر فاتحہ پڑھی جب غیر المغضوب علیهم ولاالضالین۔ پر پہنچے، تو آمین کہی۔ پس لوگوں نے بھی آمین کہی۔ اس حدیث کے آخر میں ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے۔ بے شک میں نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تم سے زیادہ مشابہت رکھتا ہوں اور اس کی إسناد صحیح ہیں۔ ( 9 ) نصب الرایہ زیلعی جلد: اول/ ص: 371 میں ہے: و رواہ ابن حبان في صحیحه في النوع الرابع من القسم الخامس و لفظه کان رسول للہ صلی اللہ علیه وسلم إذا فرغ من قراءة أم القرآن رفع بها صوته و قال آمین۔ ( ترجمہ ) ابن حبان نے اپنی صحیح میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فاتحہ سے فارغ ہوتے تو بلند آواز سے آمین کہتے۔ ( زیلعی نے اس حدیث پر کوئی جرح نہیںکی ) ( 10 ) ابن ماجة باب الجهر بآمین ص63 میں ہے: عن عائشة عن النبي صلی اللہ علیه وسلم ما حسدتکم الیهود ما حسدتکم علی السلام و التأمین۔ ( ترجمہ ) حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہود جتنا سلام اور آمین سے حسد کرتے ہیں، اتنا کسی اور شے پر حسد نہیں کرتے۔ بلند آواز سے آمین کہنے میں جب بہت سی آوازیں مل جائیں تو اس میں اسلامی نمائش پائی جاتی۔ اس لیے یہود کو حسد آتا، ورنہ آہستہ میں حسد کے کچھ معنی ہی نہیں۔ کیوں کہ جب سنا ہی کچھ نہیں تو حسد کس بات پر۔ اس حدیث کی إسناد صحیح ہے جیسے منذری ؒ نے تصریح کی ہے اور ابن خزیمہ ؒ اس کو اپنی صحیح میں لائے ہیں اور امام احمد ؒ نے اپنی مسند میں اور بیہقی ؒ نے بھی اپنی سنن میں اس کو سند صحیح کے ساتھ روایت کیا ہے۔ تلك عشرة کاملة : یہ دس احادیث ہیں۔ ان کے علاوہ اور روایتیں بھی ہیں۔ مسک الختام شرح بلوغ المرام میں 17 ذکر کی ہیں اور آثار تو بے شمار ہیں۔ دو سو صحابہ رضی اللہ عنہم کا ذکر تو عطاءتابعی ؒ کے قول ہی میں گذرچکا ہے اور ابوہریرہ ؓ کے پیچھے بھی لوگ آمین کہتے تھے۔ چنانچہ نمبر 8 کی حدیث گزر چکی ہے بلکہ حنفیہ کے طریق پر اجماع ثابت ہے۔ حنفیہ کا مذہب ہے کہ کنویں میں گر کر کوئی مرجائے، تو سارا کنواں صاف کر دینا چاہئے۔ دلیل اس کی کنویں زمزم میں ایک حبشی گر کر مر گیا تو عبداللہ بن زبیر ؓ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں کنویں کا سارا پانی نکلوادیا اور کسی نے انکار نہیں کیا۔ پس یہ اجماع ہو گیا۔ ٹھیک اسی طرح آمین کا مسئلہ ہے عبداللہ بن زبیر ؓ نے مسجد مکہ میں صحابہ رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں آمین کہی اوران کے ساتھ لوگوں نے بھی کہی۔ یہاں تک کہ مسجد گونج اٹھی اور کسی نے اس پر انکار نہیں کیا۔ پس یہ بھی اجماع ہو گیا پھر حنفیہ کے پاس آہستہ آمین کے بارے میں ایک حدیث بھی نہیں۔ صرف شعبہ کی روایت ہے جس کا ضغف اوپر بیان ہو چکا ہے اور ہدایہ میں عبداللہ بن مسعود ؓ کے قول سے استدلال کیا ہے کہ امام چار چیزیں آہستہ کہے۔ سبحانك اللهم أعوذ بسم اللہ آمین۔ مگر اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ ملاحظہ ہو درایہ تخریج ہدایہ حافظ ابن حجر ؒ ، ص:71، اور نصب الرایہ تخریج ہدایہ زیلعی ؒ ، جلد: 1 ص: 325، اور فتح القدیر شرح ہدایہ، جلد: 1ص: 204، ص:207 وغیرہ ہاں ابراہیم نخعی تابعی کا یہ قول ہے کہ امام چار چیزیں آہستہ کہے۔ مگر مرفوع احادیث اور آثار صحابہ کے مقابل میں ایک تابعی کے قول کی کیا وقعت ہے۔ خاص کر جب خود اس سے اس کے خلاف روایت موجو دہے۔ چنانچہ اوپر گزر چکا ہے کہ وہ آیت کریمہ ولاتجهر بصلوة میں صلوة کے معنی دعا کرتے ہیں۔ اس بنا پر آمین ان کے نزدیک درمیانی آواز سے کہنی چاہئے نہ بہت چلا کر نہ بالکل آہستہ اور یہی اہلحدیث کا مذہب ہے۔ حنفیہ کے بقیہ دلائل: بعض حنفیہ نے اس مسئلہ میں کچھ اور آثار بھی پیش کئے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ بھی ذکر کر دیں۔ شاہ عبدالحق محدث دہلوی ؒ سفر السعادات میں لکھتے ہیں: از امیر المومنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ روایت کردہ اند کہ اخفاءکند امام چہار چیز را، تعوذ، بسم اللہ، آمین، سبحانك اللهم و بحمدك، و از ابن مسعود ؓ نیز مثل ایں آمدہ۔ وسیوطی ؒ در جمع الجوامع از ابی وائل روایت آوردہ کہ گفت بودند عمر و علی کہ جہر نمی کردند بسم اللہ الخ و نہ تعوذ و نہ آمین۔ (ابن جریر طحاوي) ( ترجمہ ) حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ امام چار چیز آہستہ کہے۔ أعوذ باللہ، بسم اللہ، آمین، سبحانك اللهم اور اسی کے مثل عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی آیا ہے اور سیوطی رحمۃ اللہ علیہ جمع الجوامع میں ابی وائل رحمۃ اللہ علیہ سے روایت لائے ہیں وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بسم اللہ، أعوذ اور آمین بلند آواز سے نہیں کہتے تھے۔ ابن جریر اور طحاوی نے اس کو روایت کیا ہے۔ اور ابن ماجہ طبع ہند کے ص 62 کے حاشیہ میں لکھا ہے: و روي عن عمر بن الخطاب قال یخفي الإمام أربعة أشیاء التعوذ و البسملة و آمین و سبحانك اللهم۔ و عن ابن مسعود مثله، و روی السیوطي في جمیع الجوامع عن أبي وائل قال کان عمر و علي رضی اللہ عنهم لا یجهران بالبسلملة ولا بالتعوذ ولا بآمین رواہ ابن جریر و الطحاوي و ابن شاہین۔ اس عربی عبارت کا ترجمہ بعینہ شرح سفر السعادۃ کی فارسی عبار ت کا ترجمہ ہے۔ حنفیہ کی ساری پونچی یہی ہے جو ان دونوں عبارتوں میں ہے ان دونوں عبارتوں ( عربی، فارسی ) میں حضرت عمر ؓ اورحضرت ابن مسعود ؓ کے قول کا تو کوئی حوالہ نہیں دیا کہ کس نے اس کو روایت کیا ہے اورحضرت عمر ؓ اور حضرت علی ؓ کا فعل کہ وہ أعوذ، بسم اللہ، آمین بلند آواز سے نہیں کہتے تھے۔ اس کے متعلق کہاہے کہ ابن جریر، طحاوی اورابن شاہین نے اس کو روایت کیا ہے، لیکن اس کی اسناد میں سعید بن مرزبان بقال ہے جس کے متعلق میزان الاعتدال میں لکھاہے کہ امام فلاس نے اسے ترک کر دیا ہے اور ابن معین کہتے ہیں کہ اس کی حدیث لکھنے کے قابل نہیں اور بخاری کہتے ہیں منکر الحدیث ہے اور ابان بن حیلہ کوفی کے ترجمہ میں میزان الاعتدال میں ابن القطان نے نقل کیا ہے بخاری کہتے ہیں جس کے حق میں میں منکر الحدیث کہہ دوں اس کی روایت لینی حلال نہیں۔ پس یہ روایت بالکل ردی ہو گئی۔ علاوہ اس کے ان کتابوں کے متعلق جن کی یہ روایت ہے شاہ ولی اللہ صاحب ؒ حجۃ اللہ البالغہ اور شاہ عبدالعزیز صاحب ؒ عجالۃ نافعہ میں لکھتے ہیں: ’’کہ ان کی روایتیں بغیر جانچ پڑتال کے نہیں لینی چاہئے۔ کیوں کہ یہ احتیاط نہیں کرتے، جھوٹی سچی، صحیح ضعیف سب انہوں نے خلط ملط کر دی ہیں۔ ‘‘ پس حنفیہ کا بغیر تصحیح کے ان کی روایتیں پیش کرنا دوہری غلطی ہے۔ خاص کر جب خود حضرت علی ؓ سے آمین بالجہر کی روایت آ گئی ہے جو نمبر 27پر گزر چکی ہے اور بسم اللہ بھی جہراً ان سے ثابت ہے چنانچہ سبل السلام اور دار قطنی میں مذکور ہے۔ (ملاحظہ ہو مسک الختام شرح بلوغ المرام ص: 230) علاوہ اس کے مرفوع احادیث کے مقابلہ میں کسی کا قول و فعل کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ خواہ کوئی بڑا ہو یا چھوٹا۔ مسلمان کی شان یہ ہونی چاہئے۔
مصور کھینچ وہ نقشہ جس میں یہ صفائی ہو ادھر حکم پیغمبر ہو ادھر گردن جھکائی ہو
مزید ثبوت اور علماءاحناف کی شہادت: بعض اختلافی مسائل میں جانبین کے پاس دلائل کا کچھ نہ کچھ سہارا ہوتاہے مگر یہاں تو دوسرے پلڑے میں کچھ بھی نہیں اور جو کچھ ہے اس کا اندازہ قارئین کرام کو ہو چکا ہوگا۔ اب اس کی مزید وضاحت علماءاحناف کے فیصلوں سے ملاحظہ فرمائیں:
امام ابن الہمام ؒ : احناف کے جد امجد ہیں۔ حنفی مذہب کی مشہور کتاب شامی ( رد المختار ) کی جلد : 4، /ص: 388 میں لکھا ہے۔ کمال ابن الهمام بلغ رتبة الاجتهاد یعنی امام ابن الہمام مرتبہ اجتہاد کو پہنچ گئے وہ اپنی کتاب فتح القدیر میں لکھتے ہیں: و لو کان إلي في هذا شيئ لوفقت بأن روایة الخفض یراد بها عدم القرع العنیف و روایة الجهر بمعنی قولها في زیر الصوت و ذیله۔ (فتح القدیر، ج: 117/1 ) ( ترجمہ) اگر فیصلہ میرے سپرد ہوتا تو میں یوں موافقت کرتا کہ آہستہ کہنے کی حدیث سے یہ مراد ہے کہ چلا کر نہ کہے اور جہر کی حدیث سے درمیانی آواز ہے۔ امام ابن امیر الحاج ؒ : یہ امام ابن الہمام ؒ کے ارشد تلامذہ میں سے ہیں۔ یہ اپنے استاد کے فیصلہ پر صاد فرماتے ہیں چنانچہ اپنی کتاب حلیہ میں لکھتے ہیں: و رجع مشایخنا بما لا یعری عن شيئ لمتأمله فلا جرم إن قال شیخنا ابن الهمام و لو کان إلي شيئ الخ۔ (تعلیق الممجد علی موطأ الإمام المحمد، ص: 9-10) ( ترجمہ ) ہمارے مشائخ نے جن دلائل سے اپنے مذہب کو ترجیح دی ہے وہ تامل سے خالی نہیں اس لیے ہمارے شیخ ابن الہمام رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا اگر فیصلہ میرے سپرد ہوتا الخ۔
شاہ عبدالحق محدث دہلوی ؒ : جن کی فارسی عبارت شرح سفر السعادت کے حوالہ سے ابھی گزری ہے۔ یہ شاہ ولی اللہ صاحب ؒ سے بہت پہلے ہوئے ہیں۔ انہوں نے حنفی مذہب کے ترک کا ارادہ کیا لیکن علماء مکہ نے مشورہ دیا کہ جلدی نہ کرو۔ حنفی مذہب کے دلائل پر غور کرو۔ چنانچہ اس کے بعد انہوں نے ''فتح سر المنان'' لکھی۔ اس میں حنفی مذہب کے دلائل جمع کئے۔ مسئلہ آمین کے متعلق یہی عبارت لکھی جو امام ابن الہمام ؒ نے لکھی اور امام ابن الہمام والا ہی فیصلہ کیا۔
مولانا عبدالحئی صاحب لکھنؤی ؒ : حنفی مذہب کے مشہور بزرگ گزرے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: والإنصاف أن الجهر قوي من حیث الدلیل۔ (تعلیق الممجد علی موطأ الإمام المحمد، ص:105) ( ترجمہ ) یعنی انصاف یہ ہے کہ دلیل کی رو سے آمین بالجہر قوی ہے۔
مولانا سراج احمد صاحب ؒ : یہ بھی حنفی مذہب کے مشور بزرگ ہیں۔ شرح ترمذی میں لکھتے ہیں: أحادیث الجهر بالتامین أکثر وأصح۔ (ترجمہ ) یعنی بلند آواز سے آمین کہنے کی احادیث کثیر ہیں اور زیادہ صحیح ہیں۔ ان کے علاوہ مولانا عبدالعلی بحر العلوم لکھنؤی حنفی رحمۃ اللہ علیہ بھی ''أرکان الإسلام '' میں یہی لکھتے ہیں کہ ’’آمین آہستہ کہنے کی بابت کچھ ثابت نہیں ہوا۔ ‘‘ اور دیگر علماءبھی اسی طرح لکھتے ہیں مگر ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔ کیوں کہ جب آہستہ کہنے کا کوئی ثبوت ہی نہیں تو بہت بھر مار سے فائدہ ہی کیا۔ تسلی و اطمینان کے لیے جو کچھ لکھا گیا۔ خدا اس پر عمل کرنے کی توفیق بخشے اور ضد و تعصب سے محفوظ رکھے۔ آمین (مقالہ آمین و رفع یدین حضرت حافظ عبداللہ صاحب روپڑی نور اللہ قبرہ و برد مضجعہ، آمین) آج کل کے شارحین بخاری جن کا تعلق دیوبند سے ہے۔ ایسے اختلافی امور پر جو بے تکی رائے زنی فرما رہے ہیں وہ سخت حیرت انگیز ہیں مثلاً امام بخاری ؒ نے پچھلے باب میں حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ اور ان کے ساتھیوں کا فعل نقل فرمایا کہ وہ اس قدر بلند آواز سے آمین کہا کرتے تھے کہ مسجد گونج اٹھتی تھی۔ اس سے شارحین فرما رہے ہیں: ’’ غالباً یہ اس زمانہ کا واقعہ ہے کہ جب آپ فجر میں عبدالملک پر قنوت پڑھتے تھے۔ عبدالملک بھی ابن زبیر رضی اللہ عنہ پر قنوت پڑھتا تھا اور جس طرح کے حالات اس زمانہ میں تھے اس میں مبالغہ اور بے احتیاطی عموماً ہو جایا کرتی ہے۔ ‘‘ ( تفہیم البخاری، پ: 3، ص: 135) اس بے تکی رائے زنی پر اہل انصاف خود نظر ڈال سکیں گے کہ یہ کہاں تک درست ہے۔ اول تو عبداللہ بن زبیر کا آمین بالجہر کہنا خاص نماز فجر میں کسی روایت میں مذکور نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس واقعہ کا تعلق مغرب یا عشاءسے بھی ہو۔ پھر الحمدشریف کے خاتمہ پر آمین بالجہر کا عبدالملک پر قنوت پڑھنے سے کیا تعلق، قنوت کا محل دوسرا ہے، پھر مبالغہ اور بے احتیاطی کو حضرت عبداللہ بن زبیر جیسے جلیل القدر صحابی کی طرف منسوب کرنا ایک بڑی جرات ہے اور اسی قسم کی بے تکی باتیں کی جاتی ہیں۔ اللہ پاک ایسے علماءکرام کو نیک ہدایت دے کہ وہ امر حق کو تسلیم کرنے کے لیے دل کھول کر تیار ہوں اور بے جا تاویلات سے کام لے کر آج کے تعلیم یافتہ روشن خیال لوگوں کو ہنسنے کا موقع نہ دیں۔ اللھم وقفنا لما تحب و ترضی آمین۔