تشریح:
(1) شمولیت صف سے پہلے رکوع کرنے والے کے متعلق امام بخاری ؒ نے جزم کے ساتھ کوئی حکم نہیں لگایا کہ اس کی یہ رکعت درست ہوگی یا نہیں؟ کیونکہ اس کے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے۔ جن فقہاء کے نزدیک یہ رکعت صحیح ہے ان کا موقف ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تیز دوڑنے اور قبل از شمولیتِ صف رکوع کرنے سے ضرور منع فرمایا ہے لیکن ایسا کرنا حرام نہیں، اگر نہی تحریمی ہوتی تو آپ ابو بکرہ ؓ کو مذکورہ رکعت دوبارہ پڑھنے کا حکم دیتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ معلوم ہوا کہ ان کی وہ رکعت درست تھی۔ اور جن حضرات کے نزدیک ایسی رکعت صحیح نہیں ان کا موقف ہے کہ پہلے ایسا کرنا جائز تھا اور رکعت بھی درست تھی لیکن اس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے لا تَعُد کے الفاظ سے نہی فرمادی، اس لیے وہ کام کرنا جس سے آپ نے منع کر دیا ہے کسی صورت میں درست نہیں۔ صحابئ مذکورہ کا فعل چونکہ نہی سے پہلے سرزد ہوچکا تھا، اس لیے آپ نے اسے اعادے کا حکم نہیں دیا۔ یہ آخری موقف زیادہ راجح اور احوط معلوم ہوتا ہے اور امام بخاری کا میلان بھی اسی طرف ہے کیونکہ امام بخاری کے نزدیک جس رکعت میں سورۂ فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ رکعت درست نہیں۔ حالت مذکورہ میں ادا کی گئی رکعت بھی سورۂ فاتحہ کے بغیر ہے، لہٰذا وہ بھی درست نہ ہوگی، اس کے علاوہ مندرجہ ذیل حدیث سے بھی اس موقف کی تائید ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ صف کے پیچھے کھڑا پڑھ رہا تھا، آپ نے اسے دوبارہ پڑھنے کا حکم دیا۔ امام بخاری اور ابن خزیمہ ؒ نے اس روایت کو درست قرار دیا ہے اور صحیح ابن خزیمہ میں مندرجہ ذیل الفاظ کا اضافہ ہے: صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنے والے کی کوئی نماز نہیں ہوتی۔ (فتح الباري:347/2) ان روایات میں صف کے پیچھے منفرد کی نماز کو غیر درست قرار دیا گیا ہے، لہٰذا قبل از شمولیت صف رکوع کرنے والے نے رکعت کا جو حصہ صف کے پیچھے اکیلے ادا کیا وہ درست نہ ہوگا جس سے رکعت ادھوری رہ جائے گی، اس بنا پر غیر درست قرار پائے گا۔ والله أعلم۔
(2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دیر سے جماعت میں شامل ہونے والے کو چاہیے کہ وہ جس حالت میں امام کوپائے اسی حالت کو اختیار کرکے امام کے ساتھ شامل ہو جائے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:’’نماز کے لیے آرام اور سکون کے ساتھ آؤ،جتنا حصہ مل جائے پڑھ لو اور جو رہ جائے وہ بعد میں پورا کرلو۔‘‘ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:572)
(3) امام بخاری ؒ نے اپنے رسالے ''جزء القراءة'' میں اس موضوع پر تفصیل سے گفتگو کی ہے کہ صرف رکوع پالینے سے رکعت نہیں ہوتی کیونکہ ایسا کرنے سے وہ رکن فوت ہوجاتے ہیں، یعنی قیام اور فاتحہ، یہ دونوں کتاب وسنت کے مطابق فرض ہیں۔ اس موقف پر مندرجہ ذیل احادیث کی روشنی میں اعتراض کیا گیا ہے:٭حضرت ابوبکرہ ؓ کی روایت کے آخر میں لا تَعُد کے الفاظ ہیں۔ ان سے استدلال کیا جاتا ہے کہ تو اپنی نماز کو نہ لوٹا، کیونکہ اس نے امام کے ساتھ رکوع پالیا تھا۔٭حدیث میں ہے کہ جس نے رکوع پالیا اس نے نماز کو پالیا۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ مدرک رکوع، مدرک رکعت ہے۔ ٭جب تم نماز کے لیے آؤ اور ہم بحالت سجدہ میں ہوں تو تم بھی سجدہ کرو اور اسے کچھ بھی شمار نہ کرو اور جس نے رکعت کو پا لیا اس نے نماز کو پا لیا۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:89/2) اس روایت میں رکعت سے مراد رکوع ہے۔٭جب تم نماز کو آؤ اور امام رکوع کررہا ہوتو تم بھی رکوع کرو اور اگر سجدے کی حالت میں ہوتو تم بھی سجدہ کرو۔ اور تم سجدے کو شمار نہ کرنہ کرو جب اس کے ساتھ رکوع نہ ہو۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:89/2) ٭جس نے امام کو اپنی کمر سیدھا کرنے سے پہلے رکوع کی حالت میں پالیا اس نے نماز کو پا لیا۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:89/2) ان روایات کا تقاضا ہے کہ رکوع پا لینے سے رکعت ہوجاتی ہے۔٭عمل صحابہ بھی اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ امام کے ساتھ رکوع پالینا رکعت کوپا لینا ہے، مثلاً: حضرت عبداللہ بن مسعود۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:90/2) حضرت عبداللہ بن عمر۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:90/2) حضرت زید بن ثابت۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:90/2) حضرت ابو بکر صدیق ؓ (السنن الکبرٰی للبیھقي:90/2) اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم۔ (إرواءالغلیل:264/2) یہ تمام آثار اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ رکوع پالینے والے سے قراءت فاتحہ ساقط ہوجائے گی اور اس کی رکعت بھی صحیح ہوگی۔ جیسا کہ علامہ البانی ؒ نے لکھا ہے ۔ (ارواءالغلیل:264/2) ان روایات وآثار کا جواب حسب ذیل ہے:٭حضرت ابوبکرہ کی روایت سے مدرک رکوع کی رکعت کا ہونا اور نہ ہونا دونوں ہی ثابت نہیں ہوتے۔ روایت کے اعتبار سے اس حدیث کے جو الفاظ ثابت ہیں وہ لَا تَعُد ہی ہیں جن کے معنی ہیں کہ دوبارہ ایسا نہ کرنا جس کی وضاحت ہم پہلے کر چکے ہیں اور جو الفاظ اعتراض میں بیان ہوتے ہیں کہ اعادہ نہ کر، نماز نہ لوٹا، تو روایت کے اعتبار سے یہ الفاظ ثابت نہیں، اس بنا پر جس حدیث میں ہے کہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی وہ محکم ہے اور مذکورہ ابوبکرہ کی روایت سے متعارض نہیں، کیونکہ محکم اور محتمل میں تعارض نہیں ہوتا، اس لیے رکوع میں شامل ہونے والے کی رکعت کو کیونکر شمار کیا جائے۔٭جس نے رکوع پا لیا، اس نے نماز کو پا لیا، اس مفہوم پر مشتمل جتنی بھی روایات ہیں وہ محل نظر ہیں کیونکہ محدثین کے قائم کردہ معیار صحت پر پوری نہیں اترتیں۔ علامہ البانی نے ایک روایت بایں الفاظ نقل فرمائی ہے کہ جس نے رکوع پا لیا اس نے رکعت کو پا لیا۔ (ارواءالغلیل:2/260) لیکن یہ الفاظ بالکل بے اصل ہیں جیسا کہ علامہ البانی نے خود وضاحت کردی ہے۔٭اس تیسری روایت میں ہے کہ جس نے رکعت کو پا لیا اس نے نماز کو پا لیا۔ یہ روایت بھی ضعیف ہے۔ جیسا کہ خود امام بیہقی ؒ نے اس کی طرف اشارہ فرمایا ہےکیونکہ اس کی سند میں یحییٰ بن ابی سلیمان المدینی راوی"منکر الحدیث" ہے۔ جیسا کہ امام بخاری ؒ نے اس کے متعلق تبصرہ کیا ہے۔ (ارواءالغلیل:262/2) اس کے علاوہ اس میں رکعت سے مراد رکوع نہیں کیونکہ رکعت بمعنی رکوع مجاز ہے اور مجازی معنی اس وقت معتبر ہوتا ہے۔ جب حقیقی معنی دشوار اور مشکل ہو۔ پھر اس روایت کے راوی حضرت ابو ہریرہ ؓ ہیں، خود ان کا فتویٰ یہ ہے کہ مدرک رکوع مدرک رکعت نہیں، کیونکہ وہ فرماتے ہیں کہ تیری رکعت اس وقت تک جائز نہیں ہوگی جب تک تو امام کو حالت قیام میں نہ پا لے۔ (جزءالقراءة، حدیث:131)٭چوتھی روایت میں بھی لفظ ’’رجل“آیا ہے اور یہ آدمی مجہول ہے۔ ابھی تک اس کا صحابی ہونا ثابت نہیں ہوسکا۔اگر وہ تابعی ہے تو اس کے حالات کا علم نہیں۔ اگر صحیح بھی مان لیا جائے تو زیادہ سے زیادہ یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سجدہ کے قابل اعتبار ہونے کے لیے رکوع ضروری ہے، اس کے بغیر سجود کی کوئی حیثیت نہیں۔ ٭پانچویں روایت کے معنی یہ نہیں کہ جس نے امام کو اپنی کمر سیدھی کرنے سے پہلے رکوع کی حالت میں پا لیا، اس نے نماز کو پا لیا کیونکہ روایت کے الفاظ میں رکعت ہے رکوع نہیں، پھر کمر سیدھا کرنے کے الفاظ بھی روایت کا حصہ نہیں بلکہ مدرج ہیں۔ شاید یہ امام زہری کے الفاظ ہیں جنھیں یحییٰ بن حمید نے حدیث کا حصہ بنایا ہے اور اس کی وضاحت نہیں کی۔ (ارواءالغلیل:2/262) امام بیہقی نے بھی اس کی وضاحت کی ہے۔ ٭جن روایات سے صحابۂ کرام کے عمل کو پیش کیا گیا ہے وہ ان کا عمل ہونے کی حیثیت سے شریعت کو ثابت نہیں کرتا اور خاص طور پر اس وقت جب ان کا عمل رسول اللہ ﷺ کی حدیث سے معارض ہو۔ اجتہاد کی بنا پر ایسا ہونا ممکن ہے۔ ہمارے لیے سب سے پہلے رسول اکرم ﷺ کے حکم پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اور اس مقام پر معارضت موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔‘‘ اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے قیام کو طویل کردیتے تھے تاکہ وہ رکعت پا لیں لیکن آپ نے کبھی رکوع کو طویل نہیں کیا تاکہ وہ اس میں شامل ہوکر اسے رکعت شمار کرلیں۔ والله أعلم۔