تشریح:
(1) روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ کلمات کہنے والے خود راوئ حدیث حضرت رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ تھے، نیز اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تسمیع وظیفۂ اعتدال، یعنی قومے کا وظیفہ ہے جبکہ حدیث ابو ہریرہ ؓ میں اسے وظیفۂ انتقال بتایا گیا ہے اور معروف بھی یہی ہے۔ تطبیق کی یہ صورت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے رکوع سے سر اٹھانا شروع کیا تو سمع الله لمن حمده کہنے کی ابتدا کی اور حالت قومہ میں اس کی تکمیل ہوئی۔ (فتح الباري:2/ 369، 370)
(2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں غیر ماثور اذکار کا اضافہ جائز ہے بشرطیکہ مسنون اذکار کے مخالف نہ ہوں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اسی موقف کو اختیار کیا ہے۔ (فتح الباري:2/ 371) لیکن صحیح بات یہ ہے کہ ان حالات میں ایسا کرنا درست نہیں، البتہ زمانۂ نبوت میں ایسا کرنا جائز تھا کیونکہ نزول وحی کا زمانہ تھا اور باطل، حق کی صورت میں قائم نہیں رہ سکتا تھا لیکن انقطاع وحی کے بعد جبکہ شریعت مکمل ہو چکی ہے عبادات میں ایسے الفاظ کی زیادتی جو شریعت سے ثابت نہ ہو، محل نظر ہے۔