صحیح بخاری
2. کتاب: ایمان کے بیان میں
2. تمہاری دعا سے مراد تمہارا ایمان ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:"(اے پیغمبر!) کہہ دیجئے:اگر تمہاری دعا نہ ہوتی تومیرا رب تمہاری مطلق پروانہ کرتا۔"اورعربی لغت میں دعا کے معنی ایمان بھی ہیں
تمہاری دعا سے مراد تمہارا ایمان ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:"(اے پیغمبر!) کہہ دیجئے:اگر تمہاری دعا نہ ہوتی تومیرا رب تمہاری مطلق پروانہ کرتا۔"اورعربی لغت میں دعا کے معنی ایمان بھی ہیں
)
Sahi-Bukhari:
Belief
(Chapter: Your invocation means your faith)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
8.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: اس بات کی شہادت کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور یہ کہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا، حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔‘‘
تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے ایمان کی کمی بیشی پر استدلال کیا ہے کیونکہ اس میں پانچ چیزوں کو اسلام کی بنیاد قراردیا گیا ہے اور یہ پانچوں چیزیں ہرشخص میں نہیں پائی جاتیں، کوئی نماز نہیں پڑھتا، کوئی زکاۃ نہیں دیتا، کوئی حج کے معاملے میں کوتاہی کرتا ہے اور کسی سے روزوں کے متعلق تساہل ہوجاتا ہے۔ اس اعتبارسے مراتب ایمان میں بھی تفاوت آجاتا ہے۔ کسی کا اسلام ناقص ہے اور کسی میں یہ علامتیں پورے طور پر موجود ہوتی ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے دل میں لگن ہے۔ اگر ان اعمال کی پابندی نہیں ہے تو یہ اس کے نقصان دین کی علامت ہے۔ واضح رہے کہ محدثین کے ہاں اسلام اور ایمان ایک ہی حقیقت کےدو نام ہیں، گویا ان پانچ چیزوں پر ایمان کا اطلاق بھی ہوتا ہے اس لیے معلوم ہوا کہ ایمان مرکب ہے اور اس میں کمی بیشی ہوتی ہے۔ 2۔ اس مقام پر ارکان خمسہ میں جہاد کا ذکر نہیں ہے، حالانکہ اس کی دین اسلام میں بہت اہمیت ہے؟ یہ اس لیے کہ جہاد فرض کفایہ ہے جو مخصوص حالات میں فرض عین قراردیا جاتا ہے، نیز اس حدیث میں کلمہ شہادت کے ساتھ دیگر انبیاء اور ملائکہ پر ایمان لانے کا ذکر بھی نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق ہی تمام انبیاء کی تصدیق ہے اور دیگر اصول ایمان کی بنیاد یہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو دل وجان سے تسلیم کیاجائے۔ (فتح الباري 29/1) 3۔ اس حدیث کا سبب ورود بھی ہے۔ وہ یہ کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے حکیم نامی ایک آدمی کے اعتراض پر اس حدیث کو بیان فرمایا۔ اس کی وضاحت بایں طور ہے کہ وہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے ابوعبدالرحمان! کیا وجہ ہے کہ آپ ایک سال حج پر جاتے ہیں تو دوسرے سال عمرہ کرتے ہیں لیکن آپ نے جہاد کو چھوڑرکھا ہے، حالانکہ آپ کو اس کی اہمیت کا بخوبی علم ہے؟ اس کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ اسلام کی بنیاد تو پانچ چیزوں پر ہے اور اس میں جہاد کا ذکر نہیں ہے۔ (صحيح البخاري، التفسیر، حدیث: 4514) 4۔ حدیث میں اگرچہ تصدیق قلب کا ذکر نہیں ہے، تاہم لفظ شہادت اس کو مستلزم ہے، کیونکہ شہادت اس قول کو کہا جاتا ہے جو قلب کے مطابق ہو۔ شہادت کے بعد چند اعمال کو ذکرفرمایا۔ ان میں سے نماز اور زکاۃ اللہ تعالیٰ کی صفت جلال پر متفرع ہیں جس کا تقاضا یہ ہے کہ انھیں انتہائی ادب سے ادا کیا جائے، معمولی سی کوتاہی سے یہ آبگینہ سبوتاژ ہوسکتا ہے، نیز حج اور روزہ اللہ تعالیٰ کی صفت جمال کے آئینہ دار ہیں۔ اس کا تقاضا ہے کہ انھیں فریفتگی اور دیوانہ وارادا کرے، نیز اس حیثیت کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ غیر سے اعراض کرتے ہوئے مقصود کی طرف کامل توجہ ہو۔ حج میں توبہ الی اللہ اور روزے میں اعراض عن الغیر ہے۔ 5۔ اس روایت میں حج کو صوم و رمضان پر مقدم کیا گیا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کواصل قراردیتے ہوئے اپنی اس کتاب میں ابواب حج کو ابواب صیام سے پہلے ذکر فرمایا ہے جبکہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی بعض روایات میں صوم رمضان کو حج پر مقدم لائے ہیں۔ (صحیح مسلم، الایمان، حدیث 111(16)) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح مسلم کی مذکورہ روایت کو اصل قراردے کر صحیح بخاری کی روایت کو نقل بالمعنیٰ کہا ہے کیونکہ مسلم کی ایک روایت میں جب حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضرت سعد بن عبیدہ بیان کرتے ہیں تو اس میں صوم رمضان کو حج پر مقدم لایا گیا ہے۔ اس میں مزید وضاحت ہے کہ مجلس میں ایک آدمی نے ترتیب بدل کر جب یوں کہا کہ ’’حج وصوم رمضان‘‘ تو حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا نہیں، بلکہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ صیام رمضان، حج کے ذکر سے پہلے ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح سنا ہے۔ (صحیح مسلم، الایمان، حدیث: 111(16)) صحیح بخاری کی ایک روایت مین صیام رمضان کو حج سے پہلے لایا گیا ہے بلکہ اسے ادائے زکاۃ سے بھی پہلے ذکر کیا گیا ہے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث 4514) بخاری کی ایک روایت کے مطابق حنظلہ سے جب عبیداللہ بن موسیٰ بیان کرتے ہیں تو حج کو صوم رمضان سے پہلے لاتے ہیں لیکن صحیح مسلم کی روایت کے مطابق جب ان سے عبداللہ بن نمیر بیان کرتے ہیں تو صوم رمضان کو حج سے پہلے ذکر کرتے ہیں۔ (صحیح مسلم، الایمان، حدیث: 114(16)) جب صحیح مسلم کی روایت میں تصریح سماع ہے اور حنظلہ کی یہ روایت اس بنیادی روایت کے بھی موافق ہے تو صحیح بخاری کی روایت کو نقل بالمعنی کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔البتہ یہ جواب امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی جلالت شان کے خلاف ضرور ہے کیونکہ انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی اسی روایت کو بنیاد قراردے کر ابواب حج کو ابواب صیام سے پہلے بیان کیا ہے، نیزحضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے جب ان کے بیٹے زید بن عبداللہ بیان کرتے ہیں تو وہ بھی حج البیت کو صوم رمضان سے پہلے ذکر کرتے ہیں جیسا کہ صحیح مسلم، الایمان، حدیث 16 میں ہے۔ اس کے علاوہ حضرت سعد بن عبیدہ سے جب سعد بن طارق بیان کرتے ہیں تو وہ بھی حج کو صوم رمضان پر مقدم کرتے ہیں۔ (صحیح مسلم، الایمان، حدیث 112(16)) یہ بھی ممکن ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے دونوں طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہو لیکن حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس موقف کی تردید کی ہے۔ (فتح الباري: 71/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
8
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
8
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
8
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
8
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وحی کی عظمت وصداقت ثابت کرنے کے بعد ضروری خیال کیا کہ اب اساس دین یعنی ایمان کی وضاحت کی جائے جو عبادات کی صحت وقبولیت کے لیے مدار اور اخروی نجات کے لیے شرط اول ہے۔ چنانچہ کتاب الایمان میں ایمان ہی سے متعلقہ احادیث ہوں گی۔لفظ ایمان امن سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی امن واطمینان ہیں، اسی لغوی معنی کے پیش نظر مومن اسے کہاجاتا ہے جس سے لوگ اپنی جان ومال کے متعلق سکون و اطمینان محسوس کریں۔حدیث میں ہے۔(۔۔۔۔۔مَنْ أَمِنَهُ الْمُؤْمِنُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ )( مسند احمد 2/206۔)"(مومن وہ ہے)جس سے دوسرے مومن اپنی جان و مال کے متعلق بے خوف ہوں۔"اسی طرح یہ تصدق کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ)( المومنون:23۔38۔)"ہم اس کی تصدیق کرنے والے نہیں ہیں۔" کسی کی بات پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسےاپنی تکذیب کی طرف سے مطمئن کرتے ہیں اور اس کی ا مانت ودیانت پر اپنے اعتماد ووثوق کا اظہار کرتے ہیں۔ایمان کی شرعی تعریف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بھی اپنے رب کی طرف سے اصول وراکان اور احکام ومسائل لے کر آئے ہیں ان کی تصدیق کی جائے اور ان کی سچائی کو دل میں بٹھایا جائے۔، پھر زبان سے اس کی تصدیق کا اظہار اور اپنے دیگر اعضاء سے اس کا عملی ثبوت مہیا کیا جائے۔ گویا اس کے لیے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ دل سے تصدیق زبان سے اقرار اور دیگراعضاء سے التزام عمل ومتابعت یہود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت و تصدیق تھی اور منافقین میں بظاہر التزام عمل و متابعت بھی موجود تھا اس کے باوجود مومن نہیں ہیں، لہٰذا تصدیق میں کوتاہی کا مرتکب منافق اور اقرار سے پہلو تہی کفر کا باعث ہے جبکہ عملی کوتا ہی کا مرتکب فاسق ہے۔ اگر انکار کی وجہ سے بدعملی کا شکار ہے تو بھی اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ایسے حالات میں تصدیق واقرار کا کوئی فائدہ نہیں۔سلف صالحین کا نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ ایمان کے متعلق جو آیات واحادیث وارد ہیں ان کی اتباع کو کافی خیال کیا جائے۔ان مباحث کلامیہ کی طرف قطعی التفات نہ کیا جائے جو متاخرین کے"دست ہنر شناس"کا کرشمہ ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ چونکہ سر رشتہ محدثین سے منسلک ہیں، اس لیے انھوں نے ایمان سے متعلق وارد شدہ قرآنی آیات اور احادیث و آثار کے پیش نظر اس موقف کواختیار کیا ہے کہ ایمان بسیط نہیں بلکہ تصدیق قلبی اقرار لسانی اور عمل بدنی سے مرکب ہے۔ تکون کے یہ تینوں زاویے اس قدر لازم ملزوم اور باہم مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو الگ کر دیا جائے تو ایسا حقیقی ایمان باقی نہیں رہتا جس سے اخروی نجات کا حصول ممکن ہو۔ اس کے بعض اجزاء اساسی اور بنیادی ہیں جنھیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ارکان اسلام کے نام سے تعبیر کر کے انہیں اولیت دی ہے اور کچھ اجزاء کمال ہیں جنھیں "امور ایمان" کا عنوان دے کر آخر میں بیان کیا ہے قارئین کرام اس تفصیل کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب الایمان کا مطالعہ کریں۔
تمہید باب
صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں اس مقام پر باب کا لفظ نہیں ہے۔امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ باب کا لفظ یہاں فاش غلطی ہے کیونکہ اس کا سیاق وسباق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔شارح بخاری کرمانی فرماتے ہیں کہ میں نے بچشم خود وہ نسخہ دیکھا ہے جو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردخاص فربری کے سامنے پڑھا گیا تھا،اس میں لفظ باب کا اضافہ نہیں ہے۔( شرح الکرمانی 76/1۔) اس بنا پر یہ الفاظ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سابقہ قول ہی منسلک ہیں۔انھوں نے (دُعَاؤُكُمْ) کےمعنی (أَيْمَانُكُمْ) کیے ہیں جسے امام طبری رحمۃ اللہ علیہ نے موصولاً بیان کیا ہے۔( تفسیر الطبری 66/19۔) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اس آیت میں ایمان کو دعا سے تعبیر کیاگیا ہے۔چونکہ دعا ایک عمل ہے اس لیے اعمال ایمان کا جز قرار پائے،نیز دعا میں کمی بیشی بھی ہوتی ہے ،اس لیے ایمان میں بھی کمی بیشی ممکن ہے۔( فتح الباری 69/1۔) (وَهُوَ المَقصُودُ) بعض نے اس آیت کے معنی بایں طور کیے ہیں کہ اگرانبیائے کرام کا لوگوں کو ایمان کی دعوت دینا مد نظر نہ ہوتا تو اللہ تمہاری مطلق پروانہ کرتا۔چونکہ تم نے اس دعوت کو جھٹلادیا ہے۔لہذا اس کی سزا تمھیں لازماً بھگتنی ہوگی۔اس آیت کامفہوم بایں طور پر بھی بیان کیا گیا ہے کہ تمہارا مقصد تخلیق اللہ کی عبادت ہے۔اگریہ نہ ہوتو اللہ کو تمہاری کوئی پرواہ نہ ہو،یعنی اللہ کے ہاں انسان کی قدر وقیمت اس کے اللہ پر ایمان لانے اور اس کی عبادت کرنے کی وجہ سے ہے۔بہرحال ان تمام آیات واحادیث سے یہ ثابت ہوگیا کہ ایمان ترقی بھی کرتا ہے اور کم بھی ہوتا ہے۔اور اس میں کمی بیشی کا دارومدار اعمال پر ہے،اس لیے جو لوگ اس میں کمی بیشی کے قائل نہیں ہیں،ان کا موقف صحیح نہیں ہے ،نیز مرجیہ اہل بدعت کا اعمال کو ایمان کے سلسلے میں بے تعلق اور غیر موثر کہنا بھی درست نہیں ہے۔
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: اس بات کی شہادت کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور یہ کہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا، حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے ایمان کی کمی بیشی پر استدلال کیا ہے کیونکہ اس میں پانچ چیزوں کو اسلام کی بنیاد قراردیا گیا ہے اور یہ پانچوں چیزیں ہرشخص میں نہیں پائی جاتیں، کوئی نماز نہیں پڑھتا، کوئی زکاۃ نہیں دیتا، کوئی حج کے معاملے میں کوتاہی کرتا ہے اور کسی سے روزوں کے متعلق تساہل ہوجاتا ہے۔ اس اعتبارسے مراتب ایمان میں بھی تفاوت آجاتا ہے۔ کسی کا اسلام ناقص ہے اور کسی میں یہ علامتیں پورے طور پر موجود ہوتی ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے دل میں لگن ہے۔ اگر ان اعمال کی پابندی نہیں ہے تو یہ اس کے نقصان دین کی علامت ہے۔ واضح رہے کہ محدثین کے ہاں اسلام اور ایمان ایک ہی حقیقت کےدو نام ہیں، گویا ان پانچ چیزوں پر ایمان کا اطلاق بھی ہوتا ہے اس لیے معلوم ہوا کہ ایمان مرکب ہے اور اس میں کمی بیشی ہوتی ہے۔ 2۔ اس مقام پر ارکان خمسہ میں جہاد کا ذکر نہیں ہے، حالانکہ اس کی دین اسلام میں بہت اہمیت ہے؟ یہ اس لیے کہ جہاد فرض کفایہ ہے جو مخصوص حالات میں فرض عین قراردیا جاتا ہے، نیز اس حدیث میں کلمہ شہادت کے ساتھ دیگر انبیاء اور ملائکہ پر ایمان لانے کا ذکر بھی نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق ہی تمام انبیاء کی تصدیق ہے اور دیگر اصول ایمان کی بنیاد یہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو دل وجان سے تسلیم کیاجائے۔ (فتح الباري 29/1) 3۔ اس حدیث کا سبب ورود بھی ہے۔ وہ یہ کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے حکیم نامی ایک آدمی کے اعتراض پر اس حدیث کو بیان فرمایا۔ اس کی وضاحت بایں طور ہے کہ وہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے ابوعبدالرحمان! کیا وجہ ہے کہ آپ ایک سال حج پر جاتے ہیں تو دوسرے سال عمرہ کرتے ہیں لیکن آپ نے جہاد کو چھوڑرکھا ہے، حالانکہ آپ کو اس کی اہمیت کا بخوبی علم ہے؟ اس کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ اسلام کی بنیاد تو پانچ چیزوں پر ہے اور اس میں جہاد کا ذکر نہیں ہے۔ (صحيح البخاري، التفسیر، حدیث: 4514) 4۔ حدیث میں اگرچہ تصدیق قلب کا ذکر نہیں ہے، تاہم لفظ شہادت اس کو مستلزم ہے، کیونکہ شہادت اس قول کو کہا جاتا ہے جو قلب کے مطابق ہو۔ شہادت کے بعد چند اعمال کو ذکرفرمایا۔ ان میں سے نماز اور زکاۃ اللہ تعالیٰ کی صفت جلال پر متفرع ہیں جس کا تقاضا یہ ہے کہ انھیں انتہائی ادب سے ادا کیا جائے، معمولی سی کوتاہی سے یہ آبگینہ سبوتاژ ہوسکتا ہے، نیز حج اور روزہ اللہ تعالیٰ کی صفت جمال کے آئینہ دار ہیں۔ اس کا تقاضا ہے کہ انھیں فریفتگی اور دیوانہ وارادا کرے، نیز اس حیثیت کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ غیر سے اعراض کرتے ہوئے مقصود کی طرف کامل توجہ ہو۔ حج میں توبہ الی اللہ اور روزے میں اعراض عن الغیر ہے۔ 5۔ اس روایت میں حج کو صوم و رمضان پر مقدم کیا گیا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کواصل قراردیتے ہوئے اپنی اس کتاب میں ابواب حج کو ابواب صیام سے پہلے ذکر فرمایا ہے جبکہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی بعض روایات میں صوم رمضان کو حج پر مقدم لائے ہیں۔ (صحیح مسلم، الایمان، حدیث 111(16)) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح مسلم کی مذکورہ روایت کو اصل قراردے کر صحیح بخاری کی روایت کو نقل بالمعنیٰ کہا ہے کیونکہ مسلم کی ایک روایت میں جب حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضرت سعد بن عبیدہ بیان کرتے ہیں تو اس میں صوم رمضان کو حج پر مقدم لایا گیا ہے۔ اس میں مزید وضاحت ہے کہ مجلس میں ایک آدمی نے ترتیب بدل کر جب یوں کہا کہ ’’حج وصوم رمضان‘‘ تو حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا نہیں، بلکہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ صیام رمضان، حج کے ذکر سے پہلے ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح سنا ہے۔ (صحیح مسلم، الایمان، حدیث: 111(16)) صحیح بخاری کی ایک روایت مین صیام رمضان کو حج سے پہلے لایا گیا ہے بلکہ اسے ادائے زکاۃ سے بھی پہلے ذکر کیا گیا ہے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث 4514) بخاری کی ایک روایت کے مطابق حنظلہ سے جب عبیداللہ بن موسیٰ بیان کرتے ہیں تو حج کو صوم رمضان سے پہلے لاتے ہیں لیکن صحیح مسلم کی روایت کے مطابق جب ان سے عبداللہ بن نمیر بیان کرتے ہیں تو صوم رمضان کو حج سے پہلے ذکر کرتے ہیں۔ (صحیح مسلم، الایمان، حدیث: 114(16)) جب صحیح مسلم کی روایت میں تصریح سماع ہے اور حنظلہ کی یہ روایت اس بنیادی روایت کے بھی موافق ہے تو صحیح بخاری کی روایت کو نقل بالمعنی کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔البتہ یہ جواب امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی جلالت شان کے خلاف ضرور ہے کیونکہ انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی اسی روایت کو بنیاد قراردے کر ابواب حج کو ابواب صیام سے پہلے بیان کیا ہے، نیزحضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے جب ان کے بیٹے زید بن عبداللہ بیان کرتے ہیں تو وہ بھی حج البیت کو صوم رمضان سے پہلے ذکر کرتے ہیں جیسا کہ صحیح مسلم، الایمان، حدیث 16 میں ہے۔ اس کے علاوہ حضرت سعد بن عبیدہ سے جب سعد بن طارق بیان کرتے ہیں تو وہ بھی حج کو صوم رمضان پر مقدم کرتے ہیں۔ (صحیح مسلم، الایمان، حدیث 112(16)) یہ بھی ممکن ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے دونوں طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہو لیکن حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس موقف کی تردید کی ہے۔ (فتح الباري: 71/1)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے یہ حدیث بیان کی۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں اس کی بابت حنظلہ بن ابی سفیان نے خبر دی۔ انھوں نے عکرمہ بن خالد سے روایت کی انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم کی گئی ہے۔ اول گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک حضرت محمد ﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرفوع حدیث کو یہاں اس مقصد کے تحت بیان فرمایا کہ ایمان میں کمی وبیشی ہوتی ہے اور جملہ اعمال صالحہ وارکان اسلام ایمان میں داخل ہیں۔ حضرت امام کے دعاوی بایں طور ثابت ہیں کہ یہاں اسلام میں پانچ ارکان کو بنیاد بتلایا گیا اور یہ پانچوں چیزیں بیک وقت ہرایک مسلمان مرد وعورت میں جمع نہیں ہوتی ہیں۔ اسی اعتبار سے مراتب ایمان میں فرق آ جاتا ہے عورتوں کو ناقص العقل والدین اسی لیے فرمایا گیا کہ وہ ایک ماہ میں چند ایام بغیرنماز کے گزارتی ہیں۔ رمضان میں چند روزے وقت پر نہیں رکھ پاتیں۔ اسی طرح کتنے مسلمان نمازی بھی ہیں جن کے حق میں ﴿وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ قَامُوا كُسَالَىٰ﴾(النساء: 142) کہا گیا ہے کہ وہ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں توبہت ہی کاہلی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ پس ایمان کی کمی وبیشی ثابت ہے۔ اس حدیث میں اسلام کی بنیادی چیزوں کو بتلایا گیا ہے۔ جن میں اوّلین بنیاد توحید و رسالت کی شہادت ہے اور قصراسلام کے لیے یہی اصل ستون ہے جس پر پوری عمارت قائم ہے۔ اس کی حیثیت قطب کی ہے جس پر خیمہ اسلام قائم ہے باقی نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ بمنزلہ اوتاد کے ہیں۔ جن سے خیمے کی رسیاں باندھ کر اس کو مضبوط ومستحکم بنایا جاتا ہے، ان سب کے مجموعہ کا نام خیمہ ہے جس میں درمیانی اصل ستون ودیگر رسیاں واوتاد چھت سب ہی شامل ہیں۔ ہوبہو یہی مثال اسلام کی ہے۔ جس میں کلمہ شہادت قطب ہے۔ باقی اوتاد وارکان ہیں جن کے مجموعہ کا نام اسلام ہے۔ اس حدیث میں ذکر حج کو ذکرصوم رمضان پر مقدم کیا گیا ہے۔ مسلم شریف میں ایک دوسرے طریق سے صوم رمضان حج پر مقدم کیا گیا ہے۔ یہی روایت حضرت سعید بن عبیدہ نے حضرت ابن عمرؓ سے ذکر کی ہے، اس میں بھی صوم رمضان کا ذکر حج سے پہلے ہے اور انھیں حنظلہ سے امام مسلم نے ذکر صوم کو حج پر مقدم کیا ہے۔ گویا حنظلہ سے دونوں طریق منقول ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ نے آنحضرت ﷺ سے دونوں طرح سنا ہے۔ کسی موقع پر آپ نے حج کا ذکر پہلے فرمایا اور کسی موقع پر صوم رمضان کا ذکر مقدم کیا۔ اسی طرح مسلم شریف کی روایت کے مطابق وہ بیان بھی صحیح ہے جس میں ذکر ہے کہ حضرت ابن عمر ؓنے جب والحج و صوم رمضان فرمایا تو راوی نے آپ کو ٹوکا اور صوم رمضان والحج کے لفظوں میں آپ کو لقمہ دیا۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ هکذا سمعت رسول الله ﷺ یعنی میں نے رسول کریم ﷺ سے ’’والحج و صوم رمضان‘‘ سنا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مسلم شریف والے بیان کو اصل قرار دیا ہے اور بخاری شریف کی اس روایت کو بالمعنی قراردیا ہے۔ لیکن خود امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی جامع تصنیف میں ابواب حج کو ابواب صوم پر مقدم کیا ہے۔ اس ترتیب سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک یہی روایت اصل ہے جس میں صوم رمضان سے حج کا ذکر مقدم کیا گیا ہے۔ صیام رمضان کی فرضیت 2ھ میں نازل ہوئی اور حج 6ھ میں فرض قراردیا گیا۔ جو بدنی ومالی ہردو قسم کی عبادات کا مجموعہ ہے۔ اقرار توحید و رسالت کے بعد پہلا رکن نماز اور دوسرا رکن زکوٰۃ قرار پایا جوعلیحدہ علیحدہ بدنی و مالی عبادات ہیں، پھر ان کا مجموعہ حج قرار پایا، ان منازل کے بعد روزہ قرار پایا جس کی شان یہ ہے۔ «الصِّيَامُ لِي، وَأَنَا أَجْزِي بِهِ»(بخاری، کتاب الصوم) یعنی روزہ خاص میرے لیے ہے اور اس کی جزا میں ہی دے سکتا ہوں۔ فرشتوں کو تاب نہیں کہ اس کے اجروثواب کو وہ قلم بند کر سکیں۔ اس لحاظ سے روزے کا ذکر آخر میں لایا گیا۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے غالباً ایسے ہی پاکیزہ مقاصد کے پیش نظر ابواب صیام کو نماز، حج کے بعد قلم بند فرمایا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے ان ارکان خمسہ کو اپنی اپنی جگہ پر ایسا مقام حاصل ہے جس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ سب کی تفصیلات اگر قلم کی جائیں توایک دفتر تیارہوجائے۔ یہ سب مراتب باہم ارتباط تام رکھتے ہیں۔ ہاں زکوٰۃ و حج ایسے ارکان ہیں جن سے غیرمستطیع مسلمان مستثنیٰ ہوجاتے ہیں۔ جو ﴿ لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ ﴾ کے تحت اصول قرآنی کے تحت ہیں۔ حضرت علامہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہاں ارکان خمسہ میں جہاد کا ذکر اس لیے نہیں آیا کہ وہ فرض کفایہ ہے جو بعض مخصوص احوال کے ساتھ متعین ہے۔ نیز کلمہ شہادت کے ساتھ دیگر انبیاء وملائکہ پر ایمان لانے کا ذکر اس لیے نہیں ہوا کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺکی تصدیق ہی ان سب کی تصدیق ہے۔"فیستلزم جمیع ماذکر من المعتقدات اقامت صلوٰة ." سے ٹھہرٹھہر کرنماز ادا کرنا اور مداومت ومحافظت مراد ہے۔ ایتاء زکوٰۃ سے مخصوص طریق پر مال کا ایک حصہ نکال دینا مقصود ہے۔ علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "ومن لطائف أسناد هذا الحدیث جمعه للتحدیث والأخبار والعنعنة و کل رجاله مکیون إلا عبیداللّٰه فإنه کوفي وهو من الرباعیات و أخرج متنه المؤلف أیضا فی التفسیر ومسلم فی الإیمان خماسی الأسناد." یعنی اس حدیث کی سند کے لطائف میں سے یہ ہے کہ اس میں روایت حدیث کے مختلف طریقے تحدیث واخبار و عنعنہ سب جمع ہوگئے ہیں۔ (جن کی تفصیلات مقدمہ بخاری میں ہم بیان کریں گے۔ ان شاءاللہ) اور اس کے جملہ راوی سوائے عبیداللہ کے مکی ہیں، یہ کوفی ہیں اور یہ رباعیات میں سے ہے (اس کے صرف چارراوی ہیں جو امام بخاری اور آنحضرت کے درمیان واقع ہوئے ہیں) اس روایت کے متن کو حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب التفسیر میں بھی ذکر فرمایا ہے اور امام مسلم رحمہ اللہ نے کتاب الایمان میں اسے ذکرکیا ہے۔ مگروہاں سند میں پانچ راوی ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) said: Islam is based on (the following) five (principles): 1. To testify that none has the right to be worshipped but Allah and Muhammad (ﷺ) is Allah's Apostle. 2. To offer the (compulsory congregational) prayers dutifully and perfectly. 3. To pay Zakat (i.e. obligatory charity). 4. To perform Hajj. (i.e. Pilgrimage to Makkah) 5. To observe fast during the month of Ramadan.