تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے ایمان کی کمی بیشی پر استدلال کیا ہے کیونکہ اس میں پانچ چیزوں کو اسلام کی بنیاد قراردیا گیا ہے اور یہ پانچوں چیزیں ہرشخص میں نہیں پائی جاتیں، کوئی نماز نہیں پڑھتا، کوئی زکاۃ نہیں دیتا، کوئی حج کے معاملے میں کوتاہی کرتا ہے اور کسی سے روزوں کے متعلق تساہل ہوجاتا ہے۔ اس اعتبارسے مراتب ایمان میں بھی تفاوت آجاتا ہے۔ کسی کا اسلام ناقص ہے اور کسی میں یہ علامتیں پورے طور پر موجود ہوتی ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے دل میں لگن ہے۔ اگر ان اعمال کی پابندی نہیں ہے تو یہ اس کے نقصان دین کی علامت ہے۔ واضح رہے کہ محدثین کے ہاں اسلام اور ایمان ایک ہی حقیقت کےدو نام ہیں، گویا ان پانچ چیزوں پر ایمان کا اطلاق بھی ہوتا ہے اس لیے معلوم ہوا کہ ایمان مرکب ہے اور اس میں کمی بیشی ہوتی ہے۔
2۔ اس مقام پر ارکان خمسہ میں جہاد کا ذکر نہیں ہے، حالانکہ اس کی دین اسلام میں بہت اہمیت ہے؟ یہ اس لیے کہ جہاد فرض کفایہ ہے جو مخصوص حالات میں فرض عین قراردیا جاتا ہے، نیز اس حدیث میں کلمہ شہادت کے ساتھ دیگر انبیاء اور ملائکہ پر ایمان لانے کا ذکر بھی نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق ہی تمام انبیاء کی تصدیق ہے اور دیگر اصول ایمان کی بنیاد یہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو دل وجان سے تسلیم کیاجائے۔ (فتح الباري 29/1)
3۔ اس حدیث کا سبب ورود بھی ہے۔ وہ یہ کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے حکیم نامی ایک آدمی کے اعتراض پر اس حدیث کو بیان فرمایا۔ اس کی وضاحت بایں طور ہے کہ وہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے ابوعبدالرحمان! کیا وجہ ہے کہ آپ ایک سال حج پر جاتے ہیں تو دوسرے سال عمرہ کرتے ہیں لیکن آپ نے جہاد کو چھوڑرکھا ہے، حالانکہ آپ کو اس کی اہمیت کا بخوبی علم ہے؟ اس کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ اسلام کی بنیاد تو پانچ چیزوں پر ہے اور اس میں جہاد کا ذکر نہیں ہے۔ (صحيح البخاري، التفسیر، حدیث: 4514)
4۔ حدیث میں اگرچہ تصدیق قلب کا ذکر نہیں ہے، تاہم لفظ شہادت اس کو مستلزم ہے، کیونکہ شہادت اس قول کو کہا جاتا ہے جو قلب کے مطابق ہو۔ شہادت کے بعد چند اعمال کو ذکرفرمایا۔ ان میں سے نماز اور زکاۃ اللہ تعالیٰ کی صفت جلال پر متفرع ہیں جس کا تقاضا یہ ہے کہ انھیں انتہائی ادب سے ادا کیا جائے، معمولی سی کوتاہی سے یہ آبگینہ سبوتاژ ہوسکتا ہے، نیز حج اور روزہ اللہ تعالیٰ کی صفت جمال کے آئینہ دار ہیں۔ اس کا تقاضا ہے کہ انھیں فریفتگی اور دیوانہ وارادا کرے، نیز اس حیثیت کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ غیر سے اعراض کرتے ہوئے مقصود کی طرف کامل توجہ ہو۔ حج میں توبہ الی اللہ اور روزے میں اعراض عن الغیر ہے۔
5۔ اس روایت میں حج کو صوم و رمضان پر مقدم کیا گیا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کواصل قراردیتے ہوئے اپنی اس کتاب میں ابواب حج کو ابواب صیام سے پہلے ذکر فرمایا ہے جبکہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی بعض روایات میں صوم رمضان کو حج پر مقدم لائے ہیں۔ (صحیح مسلم، الایمان، حدیث 111(16)) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح مسلم کی مذکورہ روایت کو اصل قراردے کر صحیح بخاری کی روایت کو نقل بالمعنیٰ کہا ہے کیونکہ مسلم کی ایک روایت میں جب حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضرت سعد بن عبیدہ بیان کرتے ہیں تو اس میں صوم رمضان کو حج پر مقدم لایا گیا ہے۔ اس میں مزید وضاحت ہے کہ مجلس میں ایک آدمی نے ترتیب بدل کر جب یوں کہا کہ ’’حج وصوم رمضان‘‘ تو حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا نہیں، بلکہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ صیام رمضان، حج کے ذکر سے پہلے ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح سنا ہے۔ (صحیح مسلم، الایمان، حدیث: 111(16)) صحیح بخاری کی ایک روایت مین صیام رمضان کو حج سے پہلے لایا گیا ہے بلکہ اسے ادائے زکاۃ سے بھی پہلے ذکر کیا گیا ہے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث 4514) بخاری کی ایک روایت کے مطابق حنظلہ سے جب عبیداللہ بن موسیٰ بیان کرتے ہیں تو حج کو صوم رمضان سے پہلے لاتے ہیں لیکن صحیح مسلم کی روایت کے مطابق جب ان سے عبداللہ بن نمیر بیان کرتے ہیں تو صوم رمضان کو حج سے پہلے ذکر کرتے ہیں۔ (صحیح مسلم، الایمان، حدیث: 114(16)) جب صحیح مسلم کی روایت میں تصریح سماع ہے اور حنظلہ کی یہ روایت اس بنیادی روایت کے بھی موافق ہے تو صحیح بخاری کی روایت کو نقل بالمعنی کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔البتہ یہ جواب امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی جلالت شان کے خلاف ضرور ہے کیونکہ انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی اسی روایت کو بنیاد قراردے کر ابواب حج کو ابواب صیام سے پہلے بیان کیا ہے، نیزحضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے جب ان کے بیٹے زید بن عبداللہ بیان کرتے ہیں تو وہ بھی حج البیت کو صوم رمضان سے پہلے ذکر کرتے ہیں جیسا کہ صحیح مسلم، الایمان، حدیث 16 میں ہے۔ اس کے علاوہ حضرت سعد بن عبیدہ سے جب سعد بن طارق بیان کرتے ہیں تو وہ بھی حج کو صوم رمضان پر مقدم کرتے ہیں۔ (صحیح مسلم، الایمان، حدیث 112(16)) یہ بھی ممکن ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے دونوں طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہو لیکن حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس موقف کی تردید کی ہے۔ (فتح الباري: 71/1)