تشریح:
(1) اس حدیث سے جلسۂ استراحت کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے جس کی صورت ایک طریق میں ان الفاظ کے ساتھ بیان ہوئی ہے: رسول اللہ ﷺ اللہ أکبر کہتے ہوئے (دوسرے سجدے سے) اٹھتے اور اپنا بایاں پاؤں موڑتے ہوئے اس پر بیٹھتے پھر (دوسری رکعت کے لیے) کھڑے ہوتے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:730)
(2) جلسۂ استراحت سے اٹھتے وقت دونوں ہاتھ زمین پر ٹیک کر اٹھنا چاہیے جیسا کہ اگلی حدیث میں وضاحت ہے۔
(3) بعض حضرات جلسۂ استراحت کو واجب کہتے ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے مسیئ الصلاة کو اس کا حکم دیا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے۔ (صحیح البخاري، الاستئذان، حدیث:6251) مذکورہ حدیث کے راوی حضرت مالک بن حویرث ؓ کو اعمال صلاۃ بتانے کے بعد آپ ﷺ نے آخر میں فرمایا تھا: ’’نماز اس طرح پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:631)
(4) امام ترمذی ؒ نے دوسرے سجدے سے فراغت کے بعد اٹھنے کا طریقہ بتانے کے لیے ایک مستقل عنوان قائم کیا ہے۔ اس کے لیے انہوں نے حضرت مالک بن حویرث ؓ سے مروی مذکورہ حدیث صحیح بخاری ذکر کی، پھر فرمایا کہ اسی پر بعض اہل علم، امام اسحاق بن راہویہ اور ہمارے اصحاب کا عمل ہے۔ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث:287) پھر امام ترمذی ؒ نے ایک دوسرا باب قائم کیا ہے اور حدیث ابو ہریرہ ؓ بیان کی ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ دوسرے سجدے سے فراغت کے بعد جلسۂ استراحت کیے بغیر اپنے پاؤں کے پنجوں پر کھڑے ہوتے تھے اور اس پر لکھا ہے کہ اس پر بھی بعض اہل علم کا عمل ہے لیکن اس حدیث کے متعلق فرمایا کہ اس میں ایک راوی خالد بن ایاس ہے جو محدثین کے ہاں ضعیف ہے۔ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث:288) علامہ البانی ؒ نے بھی اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔ (إرواءالغلیل، حدیث:362)
(5) بعض حضرات جلسۂ استراحت کی بابت اختلاف کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر رسول اللہ ﷺ کی عادت ہمیشہ جلسۂ استراحت کرنے کی ہوتی تو ہر شخص اسے بیان کرتا جو طریقۂ نماز بیان کرتا ہے۔ اس کا جواب حافظ ابن حجر ؒ نے بایں الفاظ دیا ہے کہ متفق علیہ سنتوں کو ہر ایک نے مکمل طور پر بیان نہیں کیا بلکہ ان کے مجموعے کو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے لیا گیا ہے، اس لیے اس اعتراض کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ (فتح الباري:391/2) عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ نماز میں سجدۂ تلاوت سے اٹھ کر امام اور مقتدی جلسۂ استراحت کے لیے نہیں بیٹھتے بلکہ سجدے سے سیدھے قیام کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں، حالانکہ اس مسئلے کے متعلق وارد احادیث کے عموم کا یہی تقاضا ہے کہ سجدۂ تلاوت کرنے کے بعد بھی جلسۂ استراحت کیا جائے۔ واللہ أعلم۔
(6) مخالفینِ جلسۂ استراحت صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے کچھ آثار بھی پیش کرتے ہیں لیکن مرفوع احادیث کے مقابلے میں ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ واللہ أعلم۔
(7) اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کمزوری یا بیماری کی وجہ سے جلسۂ استراحت کیا تھا۔ اسی طرح یہ قیاس بھی درست نہیں کہ نماز کا موضوع استراحت نہیں۔ یہ قیاس نص کے مقابلے میں ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔