Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: To give a religious verdict while riding an animal or standing on anything else)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
84.
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ حجۃ الوداع کے موقع پر منیٰ میں ان لوگوں کے لیے کھڑے تھے جو آپ سے مسائل پوچھ رہے تھے۔ ایک شخص آیا اور کہنے لگا: مجھے خیال نہیں رہا، میں نے قربانی سے پہلے اپنا سر منڈوا لیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’اب ذبح کر لو کچھ مضائقہ نہیں۔‘‘ پھر ایک شخص آیا اور عرض کیا: لاعلمی سے میں نے رمی سے پہلے قربانی کر لی ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’اب رمی کر لو، کوئی حرج نہیں۔‘‘ (عبداللہ بن عمرو ؓ کہتے ہیں:) اس دن آپ سے جس بات کی بابت بھی پوچھا گیا جو کسی نے پہلے کر لی یا بعد میں، تو آپ نے فرمایا: ’’اب کر لو کچھ حرج نہیں۔‘‘
تشریح:
1۔ ایک حدیث میں ہے کہ جانوروں کی پشت سےمنبر کا کام نہ لو۔ (سنن ابي داؤد، الجھاد، حدیث: 2567) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بحالت سواری وعظ کہنا، فتویٰ دینادرست نہیں۔ دونوں روایات میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ اسے عادت نہیں بنانا چاہیے کہ خواہ مخواہ جانوروں کی پیٹھ پر بیٹھ کر تقریر کی جائے، اس سے بچنا افضل ہے، تاہم ضرورت کے وقت اس کاجواز ہے۔ اگرچہ فتویٰ دینے کے لیے مفتی کا کسی مقام پر اطمینان کے ساتھ بیٹھنا بہتر ہے اور احتیاط کا تقاضا بھی یہی ہے لیکن کھڑے کھڑے یا چلتے پھرتے کسی سائل کومسئلہ بتا دینا بھی جائز ہے، البتہ چلتے پھرتے یا سواری پر بیٹھے ہوئے درس وتدریس کا جواز کشید نہیں کیا جاسکتا کیونکہ تعلیم و تدریس کی شان فتویٰ وغیرہ سے بالکل الگ ہے۔ 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان ثابت کرنے کے لیے جو حدیث پیش کی ہے اس میں دابة(جانور) کا ذکر نہیں ہے۔ البتہ اس عنوان کی دوسری روایات میں یہ لفظ موجود ہے۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1738) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بکثرت ایسا کرتے ہیں کہ غیر مذکور الفاظ کومدنظر رکھتے ہوئے اس سے مسائل کا استخراج کرتے ہیں۔ 3۔ یوم نحر میں چار اعمال ہیں: رمی، ذبح، حلق اور طواف زیارت، خلاف ترتیب عمل کی صورت میں نہ کفارہ دینا ضروری ہے اور نہ اخروی نقصان اور گناہ ہی ہے۔ آخرحدیث میں راوی کا بیان ہے کہ تقدیم وتاخیر کے متعلق جس قدر بھی سوالات ہوئے سب کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی جواب دیا کہ جوعمل رہ گیا ہے، اسے اب بجا لاؤ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مکمل بحث کتاب الحج میں آئے گی۔ 4۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوان کے د و اجزاء ہیں۔(الف)۔وقوف علی الدابة۔ (ب)۔وقوف علی غیر دابة۔ اس حدیث سے دوسرا جز ثابت ہوگیا۔ اس سے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے مؤقف کا اثبات ہوتا ہے کہ علم کو وقار اور اطمینان سے پڑھانا چاہیے۔ اسی طرح راستہ چلتے ہوئے فتویٰ نہیں دینا چاہیے، لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مؤقف ہے کہ اتنی شرائط نہ لگائی جائیں کہ کوئی سائل ہنگامی مسئلہ دریافت ہی نہ کرسکے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
83
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
83
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
83
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
83
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ حجۃ الوداع کے موقع پر منیٰ میں ان لوگوں کے لیے کھڑے تھے جو آپ سے مسائل پوچھ رہے تھے۔ ایک شخص آیا اور کہنے لگا: مجھے خیال نہیں رہا، میں نے قربانی سے پہلے اپنا سر منڈوا لیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’اب ذبح کر لو کچھ مضائقہ نہیں۔‘‘ پھر ایک شخص آیا اور عرض کیا: لاعلمی سے میں نے رمی سے پہلے قربانی کر لی ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’اب رمی کر لو، کوئی حرج نہیں۔‘‘ (عبداللہ بن عمرو ؓ کہتے ہیں:) اس دن آپ سے جس بات کی بابت بھی پوچھا گیا جو کسی نے پہلے کر لی یا بعد میں، تو آپ نے فرمایا: ’’اب کر لو کچھ حرج نہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ ایک حدیث میں ہے کہ جانوروں کی پشت سےمنبر کا کام نہ لو۔ (سنن ابي داؤد، الجھاد، حدیث: 2567) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بحالت سواری وعظ کہنا، فتویٰ دینادرست نہیں۔ دونوں روایات میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ اسے عادت نہیں بنانا چاہیے کہ خواہ مخواہ جانوروں کی پیٹھ پر بیٹھ کر تقریر کی جائے، اس سے بچنا افضل ہے، تاہم ضرورت کے وقت اس کاجواز ہے۔ اگرچہ فتویٰ دینے کے لیے مفتی کا کسی مقام پر اطمینان کے ساتھ بیٹھنا بہتر ہے اور احتیاط کا تقاضا بھی یہی ہے لیکن کھڑے کھڑے یا چلتے پھرتے کسی سائل کومسئلہ بتا دینا بھی جائز ہے، البتہ چلتے پھرتے یا سواری پر بیٹھے ہوئے درس وتدریس کا جواز کشید نہیں کیا جاسکتا کیونکہ تعلیم و تدریس کی شان فتویٰ وغیرہ سے بالکل الگ ہے۔ 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان ثابت کرنے کے لیے جو حدیث پیش کی ہے اس میں دابة(جانور) کا ذکر نہیں ہے۔ البتہ اس عنوان کی دوسری روایات میں یہ لفظ موجود ہے۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1738) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بکثرت ایسا کرتے ہیں کہ غیر مذکور الفاظ کومدنظر رکھتے ہوئے اس سے مسائل کا استخراج کرتے ہیں۔ 3۔ یوم نحر میں چار اعمال ہیں: رمی، ذبح، حلق اور طواف زیارت، خلاف ترتیب عمل کی صورت میں نہ کفارہ دینا ضروری ہے اور نہ اخروی نقصان اور گناہ ہی ہے۔ آخرحدیث میں راوی کا بیان ہے کہ تقدیم وتاخیر کے متعلق جس قدر بھی سوالات ہوئے سب کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی جواب دیا کہ جوعمل رہ گیا ہے، اسے اب بجا لاؤ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مکمل بحث کتاب الحج میں آئے گی۔ 4۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوان کے د و اجزاء ہیں۔(الف)۔وقوف علی الدابة۔ (ب)۔وقوف علی غیر دابة۔ اس حدیث سے دوسرا جز ثابت ہوگیا۔ اس سے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے مؤقف کا اثبات ہوتا ہے کہ علم کو وقار اور اطمینان سے پڑھانا چاہیے۔ اسی طرح راستہ چلتے ہوئے فتویٰ نہیں دینا چاہیے، لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مؤقف ہے کہ اتنی شرائط نہ لگائی جائیں کہ کوئی سائل ہنگامی مسئلہ دریافت ہی نہ کرسکے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، ان سے مالک نے ابن شہاب کے واسطے سے بیان کیا، وہ عیسیٰ بن طلحہ بن عبیداللہ سے روایت کرتے ہیں، وہ عبداللہ بن عمرو بن العاص سے نقل کرتے ہیں کہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ ﷺ لوگوں کے مسائل دریافت کرنے کی وجہ سے منیٰ میں ٹھہر گئے۔ تو ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ میں نے بے خبری میں ذبح کرنے سے پہلے سر منڈا لیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: (اب) ذبح کر لے اور کچھ حرج نہیں۔ پھر دوسرا آدمی آیا، اس نے کہا کہ میں نے بے خبری میں رمی کرنے سے پہلے قربانی کر لی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: (اب) رمی کر لے۔ (اور پہلے کر دینے سے) کچھ حرج نہیں۔ ابن عمرو کہتے ہیں (اس دن) آپ ﷺ سے جس چیز کا سوال ہوا، جو کسی نے آگے اور پیچھے کر لی تھی۔ تو آپ ﷺ نے یہی فرمایا کہ اب کر لے اور کچھ حرج نہیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abdullah bin Amr bin Al 'Aas (RA): Allah's Apostle (ﷺ) stopped (for a while near the Jimar) at Mina during his last Hajj for the people and they were asking him questions. A man came and said, "I forgot and got my head shaved before slaughtering the Hadi (sacrificing animal)." The Prophet (ﷺ) said, "There is no harm, go and do the slaughtering now." Then another person came and said, "I forgot and slaughtered (the camel) before Rami (throwing of the pebbles) at the Jamra." The Prophet (ﷺ) said, "Do the Rami now and there is no harm." The narrator added: So on that day, when the Prophet (ﷺ) was asked about anything (as regards the ceremonies of Hajj) performed before or after its due time, his reply was: "Do it (now) and there is no harm."