تشریح:
(1) مذکورہ حدیث دو حصوں پر مشتمل ہے: پہلا تو وہی جسے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے غزوۂ خیبر کے حوالے سے بیان کیا ہے اور دوسرا حصہ جس کے متعلق امام بخاری ؒ کو تردد ہے کہ یہ موصول ہے یا مرسل، جس میں ہنڈیا کا ذکر ہے۔ گویا یہ دو احادیث ہیں۔ پہلی حدیث اور دوسری حدیث کے درمیان تقریبا سات سال کا وقفہ ہے کیونکہ غزوۂ خیبر سات ہجری کو ہوا تھا اور دوسرا ہنڈیا کا واقعہ ہجرت کے پہلے سال پیش آیا جس کی تفصیل صحیح مسلم میں بیان ہوئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو حضرت ابو ایوب ؓ کے گھر قیام فرمایا اور حضرت ابو ایوب آپ ﷺ کے کھانے وغیرہ کا بندوبست کرتے تھے۔ جب رسول اللہ ﷺ کھانے سے فارغ ہوتے اور بقیہ کھانا واپس بھیجتے تو ابو ایوب ؓ رسول اللہ ﷺ کی انگلیوں کے نشانات تلاش کر کے وہاں سے کھانا کھاتے۔ ایک دفعہ انہوں نے کھانے میں رسول اللہ ﷺ کی انگلیوں کے نشانات نہ دیکھے تو پتہ چلا کہ آپ نے کھانا نہیں کھایا ہے کیونکہ اس میں لہسن ڈالا گیا تھا۔ حضرت ابو ایوب ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ یہ حرام ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ حرام تو نہیں لیکن میں اسے ناپسند کرتا ہوں کیونکہ اس طرح کی چیزیں فرشتوں سے مناجات میں رکاوٹ کا باعث ہیں۔ اس تفصیل سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے جن سے مناجات کا ذکر کیا ہے، اس سے مراد فرشتے ہیں جیسا کہ صحیح ابن خزیمہ اور صحیح ابن حبان میں اس کی صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ یہ کھانا تم خود تناول کرو کیونکہ میں تمہاری طرح نہیں ہوں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں یہ کھانا تناول کرنے سے میرے ساتھیوں (فرشتوں) کو تکلیف ہو۔ (صحیح ابن خزیمة:88/3، وصحیح ابن حبان:4؍ 524، 525)
(2) امام بخاری ؒ کے شیخ سعید بن عفیر نے ہنڈیا کا لفظ بیان کیا ہے جبکہ آپ کے دوسرے شیخ احمد بن صالح نے لفظ بدرروایت کیا ہے جس کے معنی طباق ہیں جو امام بخاری ؒ نے خود بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، الاعتصام بالکتاب والسنة، حدیث:7359) وہاں بھی امام بخاری ؒ نے اس تردد کا اظہار کیا ہے لیکن لیث اور ابو صفوان نے سرے سے اس حدیث (جس میں ہنڈیا کا ذکر ہے) ہی کو بیان نہیں کیا۔ لیث کی روایت کو امام ذہلی نے زہریات میں بیان کیا ہے جبکہ ابو صفوان کی روایت خود امام بخارى ؒ نے متصل سند سے روایت کی ہے۔ (صحیح البخاري، الأطعمة، حدیث:5452) امام بیہقی ؒ نے اس تردد کے متعلق فرمایا ہے کہ متصل حدیث میں اگر کسی لفظ کے مدرج ہونے کی صراحت ہو تو اسے مرسل کا نام دیا جا سکتا ہے بصورت دیگر ہم پوری روایت کو متصل ہی کا درجہ دیں گے۔ (فتح الباري:442/2) واللہ أعلم۔
(3) لفظ قدر سے معلوم ہوتا ہے کہ کھانے میں جو لہسن ڈالا گیا تھا اسے پکایا گیا تھا لیکن اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ نے اسے تناول نہیں فرمایا اور نہ کھانے کی وجہ بھی بیان کی۔ دراصل لہسن کو جتنا بھی پکا لیا جائے اس میں ناگوار سی ہوا رہتی ہے، تاہم امت کو پکا کر استعمال کرنے کی اجازت ہے جبکہ رسول اللہ ﷺ پکا ہوا ہونے کے باوجود اس سے پرہیز کرتے تھے جیسا کہ اس حدیث پر امام ابن خزیمہ نے بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ’’رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت تھی کہ آپ پکا ہوا لہسن بھی استعمال نہیں کرتے تھے۔‘‘ امام قرطبی ؒ نے فرمایا ہے کہ لہسن کو اس قدر نہیں پکایا گیا تھا کہ اس سے ناگوار سی ہوا ختم ہو گئی ہو، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اسے واپس کر دیا۔ (فتح الباري:442/2)