تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بچوں پر غسل جمعہ واجب نہیں، اس بنا پر انہیں جمعہ کے لیے مسجد میں آنا بھی ضروری نہیں۔ یہ حدیث وجوب غسل پر واضح ہے لیکن عدم وجوب کے قائلین کہتے ہیں کہ اس حدیث میں وجوب کے لفظ سے مقصود صرف تاکید اور ترغیب ہے، یعنی اس حد تک تاکید ہے گویا واجب کی طرح ہے۔ (عمدة القاري:15/5)
(2) حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ اس حدیث سے غسل جمعہ کی فرضیت کے متعلق دلیل لی گئی ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ، حضرت عمار بن یاسر ؓ اور امام ابن منذر سے غسل جمعہ کا وجوب ہی نقل کیا گیا ہے۔ امام ابن حزم نے حضرت عمر ؓ اور دیگر کئی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے جمعہ کے لیے غسل کرنے کے وجوب کو بیان کیا، پھر اس کے متعلق متعدد آثار بھی نقل کیا ہیں، مثلاً: حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ فرماتے ہیں: میں نہیں سمجھتا کہ کوئی مسلمان غسل جمعہ چھوڑ دے گا۔ امام شافعی ؒ نے اس حدیث کی وضاحت بایں طور کی ہے کہ حدیث میں آنے والے لفظ "واجب" میں دو احتمال ہیں: ایک یہ کہ غسل جمعہ ضروری ہے۔ اس کے بغیر نماز جمعہ کے لیے طہارت نامکمل ہے۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ نظافت و صفائی اخلاق کے پیش نظر جمعہ کے لیے غسل کا اہتمام مستحب مؤکد ہے، فرض نہیں۔ امام شافعی نے حضرت عمر اور حضرت عثمان ؓ کے واقعہ سے استدلال کیا ہے کہ حضرت عثمان نے نماز کے لیے غسل کا اہتمام نہیں کیا اور حضرت عمر ؓ نے بھی انہیں دوبارہ غسل کے متعلق نہیں کہا۔ یہ قرینہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان حضرات کے نزدیک بھی غسل کا حکم اختیاری ہے۔ (فتح الباري:455/2) بلکہ دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا ان دونوں کی موافقت کرنا بھی اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ نماز جمعہ کے صحیح ہونے کے لیے غسل جمعہ شرط نہیں۔ بہرحال اس مسئلے میں دونوں ہی رائیں پائی جاتی ہیں۔ عدم وجوب کے قائلین بھی اسے سنت مؤکدہ اور وجوب ہی کے قریب سمجھتے ہیں۔ اس بنا پر دونوں موقف ایک دوسرے کے قریب ہی ہیں۔ بنا بریں وجوب کا موقف ہی راجح، مدلل اور احوط ہے۔ واللہ أعلم۔
(3) علامہ خطابی نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ نماز جمعہ غسل کے بغیر بھی ہو جاتی ہے۔ (فتح الباري:466/2) امت کے بڑے بڑے ائمہ اور نامور علماء غسل جمعہ کے عدم وجوب پر متفق ہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ نے مذکورہ حدیث کی وضاحت میں لکھا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ سے جمعہ کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا کہ غسل جمعہ واجب نہیں، البتہ زیادہ طہارت اور پاکیزگی غسل ہی میں ہے لیکن جو غسل نہیں کرتا اس پر کوئی حرج نہیں، کیونکہ اس پر واجب نہیں ہے۔ دراصل غسل جمعہ کی ابتدا اس وجہ سے ہوئی تھی کہ لوگ محنت مزدوری کر کے گزر اوقات کرتے تھے، اون سے تیار کردہ موٹے موٹے کپڑے پہنتے تھے اور اس وقت مسجد بھی تنگ تھی جب رسول اللہ ﷺ نے دیکھا کہ ان لوگوں کو ایک دوسرے سے تکلیف پہنچ رہی ہے اور پسینے کی وجہ سے بو محسوس ہو رہی ہے تو آپ نے انہیں غسل کا حکم دیا اور خوشبو وغیرہ کے استعمال کی بھی ہدایت فرمائی۔ حضرت ابن عباس ؓ نے مزید فرمایا کہ اس کے بعد وہ وقت جاتا رہا، لوگ مال دار ہو گئے محنت مزدوری کے محتاج نہ رہے، کپڑے بھی اون کے علاوہ دوسرے استعمال کرنے لگے، مسجد بھی وسیع ہو گئی اور پسینہ وغیرہ کی تکلیف بھی جاتی رہی اس بنا پر سبب کے ختم ہونے سے اس کا وجوب بھی ختم ہو گیا۔ (فتح الباري:467/2) اس سے معلوم ہوا کہ غسل کے واجب ہونے کی تاکید جمعہ کے بڑے اجتماع کے پیش نظر ہے کہ کسی کو اذیت نہ ہو اور یہ تاکید حالات کے پیش نظر وجوب تک بھی پہنچ سکتی ہے جبکہ پسینے کی وجہ سے ماحول بدبودار ہو رہا ہو، البتہ عام حالات میں صرف استحباب ہے جیسا کہ امت کے اکثر علماء نے اس موقف کو اختیار کیا ہے۔ واللہ أعلم۔