تشریح:
(1) جمعہ کے دن خوشبو استعمال کرنے کے متعلق صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں اختلاف تھا۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ اس کے متعلق وجوب کے قائل تھے جیسا کہ سفیان بن عیینہ نے اپنی جامع میں ان کے متعلق بیان کیا ہے لیکن ائمۂ اربعہ اور اصحاب ظواہر میں اب اس کے متعلق کوئی اختلاف نہیں۔ سب استحباب کے قائل ہیں۔ اس کے متعلق تاکید ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ جمعہ کے دن خوشبو استعمال کرو اگرچہ عورت ہی کی کیوں نہ ہو، حالانکہ مردوں کے لیے عورتوں کی خوشبو استعمال کرنا ناپسندیدہ عمل ہے لیکن اس کے باوجود جمعہ کے دن اگر خوشبو نہ مل سکے تو بامر مجبوری کاروائی کے طور پر عورت کی خوشبو استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ (فتح الباري:2/ 467۔468)
(2) حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ عید کا دن ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے مقرر کیا ہے، لہٰذا تم میں سے جو شخص جمعہ کے لیے آئے وہ غسل کر کے آئے اور اگر خوشبو میسر ہو تو اسے استعمال کرے اس کے علاوہ مسواک کرنے کا بھی اہتمام کرے۔‘‘ (السنن الکبریٰ للبیھقي:243/3) حضرت ابو ایوب انصاری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو جمعہ کے دن غسل کرے اور اگر اس کے پاس خوشبو موجود ہو تو اسے استعمال کرے، اپنے بہترین کپڑے زیب تن کرے، اطمینان کے ساتھ مسجد میں آئے، پھر اگر موقع ملے تو نفل پڑھ لے، حاضرین میں سے کسی کو تکلیف نہ دے، پھر جب امام صاحب تشریف لائیں تو خاموش رہے تاآنکہ نماز ادا کر لے تو اس کا یہ سارا عمل اس جمعہ سے آئندہ جمعہ تک گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔‘‘ (مسند أحمد:420/5)
(3) حدیث کے آخر میں امام بخاری ؒ نے وضاحت کی ہے کہ روایت میں ابوبکر نامی راوی محمد بن منکدر کے بھائی ہیں۔ ان کے نام کی صراحت کہیں سے دستیاب نہیں ہو سکی بلکہ ان کی کنیت ہی ان کا نام ہے۔ مختصر یہ ہے کہ ان دونوں بھائیوں کی کنیت ابوبکر ہے لیکن ان کے مابین فرق ہے کہ ایک کے متعلق نام کی صراحت ہے جبکہ دوسرے کی کنیت ہی اس کا نام ہے، نیز ایک بھائی محمد بن منکدر کی ایک دوسری کنیت ابو عبداللہ بھی مشہور ہے۔ الغرض ابوبکر بن منکدر بھی معروف آدمی ہیں۔ ان سے متعدد راویوں نے روایت لی ہے۔ (عمدة القاري:16/5)