تشریح:
(1) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس عنوان کا ماقبل سے تعلق ہے کیونکہ اس سے پہلے باب میں صبح ہی سے نماز جمعہ کے لیے حاضری کی فضیلت بیان ہوئی تھی اور اس عنوان میں ان حضرات کی تردید ہے جو ترک تبکیر پر اہل مدینہ کا اجماع بتاتے ہیں کیونکہ اس حدیث کے مطابق حضرت عمر ؓ نے مدینہ طیبہ کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے اجتماع میں ترک تبکیر پر انکار کیا ہے۔ اگر حضرت عمر ؓ کے نزدیک جمعہ کی فضیلت اور اس کی عظمت و اہمیت نہ ہوتی تو وہ دیر سے آنے پر اس طرح خطبہ چھوڑ کر مجمع عام میں برملا انکار نہ فرماتے۔ جب جمعہ کے لیے صبح جلدی آنے کی فضیلت ثابت ہوتی ہے تو اس سے جمعہ کی فضیلت بھی ثابت ہوتی ہے۔ و ھو المقصود۔
(2) واضح رہے کہ حسب تصریح محدثین دیر سے آنے والے بزرگ حضرت ذوالنورین سیدنا عثمان بن عفان ؓ تھے۔ (فتح الباري:476/2)
(3) اس عنوان میں امام بخاری ؒ نے امام مالک کی تردید کی ہے۔ ان کے نزدیک زوال آفتاب کے بعد جلدی آنے کی فضیلت بیان ہوئی، کیونکہ حدیث میں لفظ تہجیر بیان ہوا ہے جس کے معنی زوال آفتاب کے بعد نکلنا ہیں جبکہ جمہور محدثین کے نزدیک تبكير، یعنی جمعہ کے دن صبح سویرے آنا باعث فضیلت ہے۔ امام احمد بن حنبل ؒ نے امام مالک کے موقف کو رسول اللہ ﷺ کی حدیث کے خلاف قرار دیا ہے۔ علامہ ابن قیم ؒ نے اپنی مایۂ ناز تصنیف "زاد المعاد" میں اس بحث کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ (زاد المعاد:399/1۔407)