تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کا مقصود یہ ہے کہ جمعہ کے دن مسواک ضرور کی جائے۔ اگر اپنے پاس نہیں ہے تو کسی دوسرے کی مسواک کو اس کی اجازت سے استعمال کر لیا جائے۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ کسی دوسرے کی استعمال شدہ مسواک استعمال کرنے میں کوئی قباحت نہیں، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ تعاون کے طور پر کسی دوسرے کو مسواک نرم کر کے دی جا سکتی ہے۔ علامہ عینی ؒ نے لکھا ہے کہ امام بخاری ؒ کا مقصد تھوک کی طہارت بیان کرنا ہے لیکن اس کا محل کتاب الوضوء ہے۔
(2) ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے اپنے بھائی عبدالرحمٰن ؓ سے مسواک لے کر رسول اللہ ﷺ کو دی، لیکن بیماری سے نقاہت کی بنا پر مسواک کرنے میں آپ کو دشواری محسوس ہوئی۔ حضرت عائشہ ؓ نے عرض کیا کہ میں آپ کے لیے اسے نرم کر دیتی ہوں۔ پھر حضرت عائشہ ؓ نے مسواک کے سخت ریشوں کو اپنے دانتوں سے کاٹ کر پھینک دیا اور خود چبا کر انہیں نرم کیا، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اسے استعمال فرمایا۔ جب رسول اللہ ﷺ مسواک سے فارغ ہوئے تو آپ نے اپنے ہاتھ کی انگلی سے اوپر کی طرف اشارہ فرمایا۔ اس کے بعد اپنی جان، جان آفریں کے حوالے کر دی۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اس طرح اللہ تعالیٰ نے دنیا کے آخری دن اور آخرت کے پہلے دن میرے اور رسول اللہ ﷺ کے لعاب کو باہم اکٹھا رکھنے کا سبب پیدا کر دیا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4449)