تشریح:
(1) پہلی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمیشہ نماز جمعہ زوال آفتاب کے بعد ہی پڑھا کرتے تھے جبکہ دوسری حدیث سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ آپ نماز جمعہ صبح صبح پڑھ لیتے تھے لیکن احادیث میں تعارض پیدا کرنے کے بجائے ان میں تطبیق کی صورت پیدا کرنی چاہیے، چنانچہ تبکیر کے دو معنی ہیں: ایک کسی کام کو جلدی کرنا اور دوسرا کسی کام کو صبح صبح سر انجام دینا۔ اس مقام پر پہلا معنی مقصود ہے، یعنی اسے دوسرے کاموں سے پہلے جلدی ادا کر لیتے تھے اور قیلولہ نماز جمعہ کے بعد کرتے لیکن نماز ظہر میں پہلے قیلولہ کرتے، پھر نماز پڑھتے تھے، گویا امام بخاری ؒ نے پہلی روایت سے دوسری روایت کی تفسیر بیان کی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ ان احادیث کے درمیان کوئی تعارض نہیں۔ (فتح الباري:498/2)
(2) ایک روایت میں ہے کہ ہم لوگ دوپہر کا کھانا اور قیلولہ نماز جمعہ کے بعد کرتے تھے۔ (صحیح البخاري، الجمعة، حدیث:939) اس روایت سے بھی نماز جمعہ قبل از زوال پڑھنے پر استدلال کیا گیا ہے کیونکہ دوپہر کے کھانے اور قیلولہ کرنے کا وقت قبل از زوال ہے۔ اس کے متعلق حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ اس روایت سے قبل از زوال نماز پڑھنے کا استدلال صحیح نہیں کیونکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا کہنا ہے کہ ہم لوگ نماز سے قبل جمعہ کی تیاری کرتے، انتظار نماز، پھر ادائے نماز کی وجہ سے ہمارے روزانہ کے معمولات بدل جاتے تھے، یعنی قبل از زوال معلوم ہوتا ہے کیونکہ اپنی عادت کے مطابق وہ زوال سے پہلے کھانے کے بعد قیلولہ کرتے تھے لیکن جمعہ کے متعلق صحابی نے خبر دی ہے کہ ہم لوگ جمعہ کے لیے تیاری اور مصروفیت کی وجہ سے طعام اور قیلولہ مؤخر کر دیتے تھے، یعنی انہیں نماز جمعہ کے بعد سر انجام دیتے تھے۔ (فتح الباري:550/2) مختصر یہ ہے کہ جمعہ کے دن دوپہر کا کھانا اور قیلولہ نماز کے بعد کرنے کی صورت یہ نہ تھی کہ زوال سے پہلے نماز پڑھ لیتے اور اپنے روزانہ کے معمولات کے مطابق کھانا اور قیلولہ بھی اپنے وقت پر زوال سے پہلے کرتے تھے بلکہ اس کی صورت یہ تھی کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم صبح ہی سے نماز جمعہ کی تیاری میں لگ جاتے، مسجد میں جا کر نماز جمعہ کا انتظار کرتے اور اس سے فراغت کے بعد گھروں میں پہنچ کر کھانا کھاتے اور قیلولہ کرتے تھے جو روزانہ کے معمول سے مؤخر ہوتا تھا۔ واللہ أعلم