تشریح:
(1) یہ حدیث ایک طویل حدیث کا حصہ ہے جسے امام بخاری ؒ نے کتاب الزکاة، کتاب الجهاد اور کتاب الرقاق میں بیان کیا ہے۔ یہاں الفاظ ہیں ’’تشریف فرما ہوئے‘‘ جبکہ ایک روایت میں ہے کہ آپ منبر پر کھڑے ہوئے۔ (صحیح البخاري، الجھادوالسیر، حدیث:2842) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ امام بخاری ؒ نے مذکورہ حدیث سے یہ مسئلہ بایں طور پر استنباط کیا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا رسول اللہ ﷺ کے اردگرد ہمہ تن گوش ہو کر بیٹھنا اور آپ کے وعظ کو سماعت کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ سب آپ کی طرف متوجہ تھے۔ (تو معلوم ہوا کہ آپ بھی ان کی طرف متوجہ تھے۔) امام ترمذی ؒ فرماتے ہیں کہ اس کے متعلق صراحت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ سے کچھ بھی ثابت نہیں۔
(2) ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ خطبۂ جمعہ کے علاوہ کسی اور وعظ کا ذکر ہے کیونکہ خطبۂ جمعہ کے دوران میں آپ کا کھڑا ہونا ثابت ہے۔ جب خطبۂ جمعہ کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا اس قدر انہماک تھا تو خطبۂ جمعہ میں تو اس سے کہیں زیادہ ہو گا کیونکہ اس کے لیے خاموش ہونے اور اسے بغور سننے کا حکم ہے۔ (فتح الباري:517/2)
(3) ہماری مساجد میں تو صف بندی کے ساتھ ساتھ استقبال بھی ہو جاتا ہے، البتہ مسجد نبوی میں اس کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہاں محراب اور منبر میں کچھ فاصلہ ہے، درمیان میں کچھ صفیں ہیں وہاں استقبال امام کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ امام ان کے پیچھے ہوتا ہے۔ اگلی صفوں میں بیٹھنے والوں کو چاہیے کہ وہ امام کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھیں اگرچہ ایسی حالت میں قبلے کی طرف پیٹھ ہو جائے گی۔