تشریح:
(1) چونکہ نماز جمعہ سے پہلے جمعہ کی تیاری کے لیے لوگوں کو معاش، کسب رزق اور خریدوفروخت سے روک دیا گیا تھا، جمعہ کے بعد اس کی اجازت دی گئی جیسا کہ آیت بالا میں وضاحت ہے۔
(2) بعض اہل ظاہر نے اس اجازت کو وجوب پر محمول کیا ہے اور کہا ہے کہ جمعہ کے بعد کاروبار اور خریدوفروخت کر کے رزق تلاش کرنا ضروری ہے۔ امام بخاری ؒ نے مذکورہ عنوان اور پیش کردہ حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ مذکورہ آیت میں جو امر کے صیغے ہیں وہ وجوب کے لیے نہیں بلکہ اباحت کے لیے ہیں کیونکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے نماز جمعہ کے بعد اپنے آپ کو خریدوفروخت اور کاروبار میں مصروف نہیں کیا بلکہ انہوں نے اپنے اپنے معمولات نقل کیے ہیں کہ خریدوفروخت کے بجائے وہ کھانا کھاتے اور ذکر کثیر کرنے کے بجائے وہ قیلولہ کرتے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ آیت کریمہ میں مذکورہ امر اباحت کے لیے ہے، اس پر امت کا اتفاق ہے۔ (فتح الباري:549/2) اس حدیث پر مصنف ابن ابی شیبہ میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا گیا ہے: ’’اس شخص کی دلیل جو نماز جمعہ دن کے پہلے حصے میں جائز قرار دیتا ہے۔‘‘ اور اس حدیث سے ثابت کیا گیا ہے کہ نماز جمعہ قبل از زوال جائز ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس حدیث سے یہ موقف ثابت نہیں ہوتا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم جمعہ کی تیاری اور اس کی مصروفیت کی وجہ سے دوپہر کا کھانا اور قیلولہ مؤخر کر دیتے تھے۔ اس کی وضاحت پہلے بھی ہو چکی ہے۔ (فتح الباري:550/2)