تشریح:
(1) اس سے پہلی حدیث میں قبل از وقت ذبح کی گئی قربانی کو کھانے کا ذکر نہیں تھا جبکہ اس روایت میں اس سے ناشتہ کرنے کی صراحت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے صرف قربانی کے متعلق فرمایا کہ یہ غیر معتبر ہے، کیونکہ یہ قبل از وقت کی گئی ہے لیکن اسے تناول کرنے پر کسی قسم کا اعتراض نہیں کیا۔ اسی خاموشی سے امام بخاری ؒ نے یہ مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ عید الاضحیٰ کے دن کھانے پینے کے متعلق کوئی پابندی نہیں ہے، اگرچہ حضرت ابو بردہ بن نیار ؓ سے یہ عمل محض عدم علم کی بنا پر ہوا لیکن آپ نے اسے برقرار رکھا، البتہ قابل اصلاح عمل کی اصلاح فرما دی کہ قربانی دوبارہ کی جائے۔
(2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دین کسی کے پاکیزہ جذبات کا نام نہیں بلکہ اس کے لیے منزل من اللہ ہونا ضروری ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ عنوان کا ثبوت اس طرح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صرف قربانی دوبارہ ذبح کرنے کا حکم دیا جو اس بات کے جائز ہونے کا ثبوت ہے کہ ذبح شدہ جانور کو پکا کر کھایا جا سکتا ہے۔ لوگ عید سے پہلے کھانا جائز نہیں سمجھتے تھے، آپ نے نماز سے پہلے کھانے پر سکوت فرما کر گویا اس کے جواز کو برقرار رکھا۔ علامہ عینی ؒ نے امام بخاری ؒ کے استدلال کی بایں الفاظ وضاحت کی ہے کہ حضرت ابو بردہ بن نیار نے رسول اللہ ﷺ کے حضور عرض کیا کہ عید کا دن کھانے پینے کا دن ہے، نیز انہوں نے کہا کہ میں نے قبل از نماز ناشتہ بھی کر لیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس عمل پر اسے کوئی ملامت نہیں فرمائی۔ اس سے پتہ چلا کہ نماز سے پہلے کھانا یا ناشتہ کرنا قابل ملامت نہیں ہے۔ (عمدة القاري:188/5)