تشریح:
(1) اگر عید گاہ کی چار دیواری وغیرہ نہ ہو تو اس کی شناخت کے لیے کسی قسم کی علامت مقرر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اگرچہ جو ’’نشان‘‘ کثیر بن صلت کی حویلی کے پاس تھا وہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں نہ تھا لیکن امام بخاری ؒ نے حدیث کے ظاہری الفاظ سے عنوان کو ثابت کیا ہے۔ آپ نے اس تحقیق کو ضروری خیال نہیں کیا کہ وہ نشان عہد نبوی میں موجود تھا یا نہیں۔
(2) واضح رہے کہ کثیر بن صلت کے گھر کے پاس ایک اونچا سا نشان تھا جس سے اس جگہ کی پہچان ہوتی تھی اور ان کا گھر عیدگاہ کے قبلے کی طرف تھا جو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک کے کافی عرصہ بعد تعمیر کیا تھا۔ اس دور میں اس کی کافی شہرت ہو چکی تھی، اس لیے عیدگاہ کا تعارف ان کے گھر کے پاس ہونے سے کرایا جاتا تھا۔ اس کا نام قلیل بن صلت تھا، حضرت عمر ؓ نے اس کا نام کثیر رکھا۔ اس نے مروان بن حکم کے لیے کچھ اینٹوں اور مٹی سے وہاں ایک منبر بھی تعمیر کیا تھا۔ (فتح الباري:579/2) حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ چونکہ مجاہد قسم کے آدمی تھے، اس لیے انہوں نے شرح تراجم بخاری میں اپنے مزاج کے مطابق اس حدیث کی تشریح کی ہے، فرماتے ہیں: صحیح روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں عیدگاہ کے اندر کوئی جھنڈا وغیرہ نصب نہیں تھا، اس لیے حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جہاں ہمارے زمانے میں جھنڈا گاڑا جاتا ہے، وہاں رسول اللہ ﷺ نماز عید پڑھا کرتے تھے۔ چونکہ ظاہر حدیث سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں وہاں جھنڈا نصب ہوتا تھا، اس لیے مصنف (امام بخاری رحمہ اللہ) نے انہی الفاظ سے عنوان قائم کیا ہے۔ میرے نزدیک واضح بات یہ ہے کہ مصنف عیدگاہ میں جھنڈا نصب کرنے کا جواز ثابت کرنا چاہتے ہیں۔