باب: جو شخص عصر کی ایک رکعت سورج ڈوبنے سے پہلے پہلے پڑھ سکا تو اس کی نماز ادا ہو گئی۔
)
Sahi-Bukhari:
Times of the Prayers
(Chapter: Whoever got (or was able to offer) only one Rak'a of the 'Asr prayer before sunset)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
565.
حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں: ’’مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کی مثال اس آدمی جیسی ہے جس نے کچھ لوگوں کو مزدوری پر رکھا کہ وہ رات رک کام کریں۔ انہوں نے دوپہر تک کام کیا اور کہنے لگے: ہمیں تیری مزدوری کی ضرورت نہیں، چنانچہ اس آدمی نے کچھ اور لوگوں کو مزدوری پر رکھا اور کہا: تم دن کا بقیہ وقت کام کرو، تمہیں وہی مزدوری ملے گی جو میں نے طے کی تھی۔ انہوں نے کام کیا حتی کہ جب نماز عصر کا وقت ہوا تو کہنے لگے: تیرا کام تجھے مبارک ہو، ہم نے جو کام کیا ہے اس کی بھی مزدوری نہیں لیتے، چنانچہ اس نے اور لوگوں کو مزدوری پر رکھا جنہوں نے بقیہ دن کام کیا تاآنکہ سورج غروب ہو گیا۔ اس طرح وہ پہلے دونوں گروہوں کی مزدوری کے حق دار بن گئے۔‘‘
تشریح:
(1) گزشتہ احادیث کی طرح اس حدیث میں بھی امام بخاری ؒ کا مقصود نماز عصر کا آخری وقت بتانا ہے، چنانچہ حدیث سے پتا چلتا ہے کہ کام کی مدت غروب آفتاب ہے اور عصر سے مغرب تک کے وقت کو ایک وقت قرار دیا گیا ہے، نیز اس وقت کا کام نماز عصر ہی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ نماز عصر کا وقت غروب آفتاب تک ہے۔ پھر اس حدیث میں جو مثال پیش کی گئی ہے، اس میں پہلے گروہ سے مراد اہل تورات، یعنی یہودی ہیں جنھیں موسوی شریعت کی پیروی کا حکم دیا گیا تھا، پھر جب حضرت عیسیٰ ؑ تشریف لائے تو ان کے پیچھے چلنے کا حکم دیا گیا، چنانچہ وہ اس سے بھاگ گئے۔ دوسرا گروہ اہل انجیل، یعنی عیسائیوں کا ہے جو عیسیٰ ؑ پر ایمان لائے اور اس وقت کی شریعت پر عمل پیرا رہے، لیکن جب رسول اللہ ﷺ کی بعثت ہوئی تو انھیں آپ پر ایمان لانے کا حکم ہوا، انھوں نے اس بات سے انکار کردیا۔ تیرے گروہ سے مراد ہم مسلمان ہیں جو رسول اللہ ﷺ پر ایمان لائے اور قیامت تک آپ کی لائی ہوئی شریعت پر عمل پیرا رہنے کےلیے تیار ہوئے۔ واضح رہے کہ ابن عمر اور ابو موسیٰ اشعری ؓ کی احادیث میں دو الگ الگ واقعات بیان ہوئے ہیں۔ ان میں اتنی بات تو مشترک ہے کہ تین تین فریق ہیں اور ہرفریق سے معاملہ الگ الگ ہے، لیکن ان میں حسب ذیل فرق ہے: ٭ پہلی روایت میں مدت اجارہ کی صراحت نہیں جبکہ دوسری رویت میں رات تک کی تصریح ہے۔ ٭پہلی روایت میں ہے کہ پہلے دونوں گروہ کام کرتے کرتے عاجز ہوگئے اور انھیں ایک ایک قیراط دیا گیا جبکہ دوسری روایت میں ہے کہ انھوں نے اجرت لینے سے صاف انکار کردیا۔ ٭پہلی روایت میں یہودونصاریٰ کے ان لوگوں کا حال بیان ہوا ہے جو اپنے دور میں دین پر قائم رہے اور اس پر عمل کیا لیکن اس کے منسوخ ہونے سے پہلے فوت ہو گئے اور دوسری حدیث میں ان لوگوں کا حال بیان ہوا ہے جو دین میں تحریف کرنے کے مرتکب ہوئے اور اس سے بے زاری کا اظہارکیا۔ والله أعلم.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
552
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
558
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
558
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
558
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی پیدائش کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں۔ارشادباری تعالیٰ ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾ (سورۃ الذاریات: 56:51)'' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔''اس آیت کی روسے یان کرتے ہیں۔اس کے لیے آپ نے مواقیت الصلاۃ کا عنوان قائم کیا ہے۔مواقیت میقات کی جمع ہے۔لغوی طور پر میقات سے مراد وہ وقت یا جگہ ہے جس کے ذریعے سے کسی چیز کی حد بندی کی جائے،مثلا: یلملم اور قرن منازل وغیرہ حاجیوں کے لیے احرام باندھنے کی میقات ہیں، اسی طرح نمازوں کے اوقات بھی ان نمازوں کے لیے میقات ہیں،لیکن نمازوں کے ان اوقات میں توازن نہیں ہے کیونکہ صبح سے ظہر تک کا طویل عرصہ عبادت سے خالی ہے۔علمائے امت نے اس کی متعدد عقلی وجوہات بیان کی ہیں:٭ دن کا آدھا حصہ راحت و آرام کے لیے اور عشاء تک اللہ کی عبادت کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔٭ دن اور رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ایک تہائی تقریبا(8) گھنٹے معاشی ضروریات کے لیے،دوسرا ثلث،یعنی عشاء تک نمازوں کے لیے، اس کے بعد آخری ثلث راحت وآرام کے لیے ہے۔''والثلث كثير کے پیش نظر جو ثلث عبادت کے لیے مختص تھا اسے شریعت نے اکثر احکام میں کل کے برابر قرار دیا ہے،اس لیے گویا پورا وقت عبادت کا بھی،معاشی ضروریات کا بھی اور آرام و سکون کابھی ہے۔پھر یہ اوقات نماز ایسی حکمت سے مقرر کیے گئے ہیں کہ نماز سے جو مقاصد وابستہ ہیں وہ بھی پورے ہوں اور دوسری ذمے داریوں کی ادائیگی میں بھی کوئی خلل نہ پڑے،چنانچہ صبح نیند سے اٹھنے کے بعد صبح صادق کے وقت نماز فجر فرض کی گئی ہے تاکہ اٹھتے وقت پہلاکام اللہ کی بارگاہ میں حاضری اور اظہار بندگی ہو،پھر زوال آفتاب تک کوئی نماز فرض نہیں تاکہ ہر شخص اپنے حالات کے مطابق اپنی دیگر حوائج و ضروریات اور ذمے داریوں کو اس طویل وقفے میں سرانجام دے سکے،پھر پورے آدھے دن کے اس طویل وقفے کے بعد نماز ظہر فرض کی گئی تاکہ غفلت یا اللہ کی بارگاہ سے غیر حاضری کی مدت زیادہ طویل نہ ہو۔اس کے بعد شام کے آثارشروع ہونے لگے تو نماز عصر فرض کردی گئی تاکہ اصل خاص وقت میں جو اکثر لوگوں کے لیے اپنے کاموں سے فرصت پانے اور تفریحی مشاغل میں ہونے کا وقت ہوتا ہے،اہل ایمان اپنے ظاہر باطن سے رب قدوس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس کی عبادت میں مصروف ہوں۔پھر دن کے اختتام پر غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب فرض کی گئی تاکہ دن کے خاتمےاور رات کے آغاز کے وقت اپنے پروردگار کی تسبیح اور بندگی کے عہد کی تجدید ہو۔اس کے بعد سونے کے وقت سے پہلے نماز عشاءفرض کی گئی تاکہ روزانہ زندگی میں ہمارا آخری عمل نماز ہو۔پھر ان پانچوں نمازوں کے اوقات میں بھی کافی وسعت دی گئی ہے کہ ہم اپنے وقتی حالات اور ہنگامی ضروریات کے مطابق اول وقت،درمیانے وقت اور آخر وقت میں نماز ادا کرسکیں اگرچہ بہتر،اول وقت نماز پڑھنا ہی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف اوقات نماز ہی ذکر نہیں کیے بلکہ ان کی اہمیت،فضیلت اور افادیت کو بھی بیان کیا ہے اور اوقات نماز کے بڑے عنوان کے تحت (41) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں جن میں نماز بروقت پڑھنے کی اہمیت،نماز کے کفارۂ سیئات بننے کی صلاحیت،پھر نماز کو دیر سے ادا کرنے کے بھیانک نتائج سےخبردار فرمایا ہے اور اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ نماز ہی ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے رازونیاز اور مناجات کے لیے مختص کیا ہے۔بعض اوقات انسان نیند کی حالت میں یا بھول کر اصل وقت کھو بیٹھتا ہے،اسے نماز کب اور کیسے ادا کرنا ہے؟اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے مکمل رہنمائی فرمائی ہے،جن اوقات میں عبادت نہیں کی جاسکتی وہ بھی تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری نماز کے اوقات کے علاوہ دیگرآداب و شرائط اور لوازمات بھی زیر بحث لائے ہیں جو یقینا مطالعے کے دوران میں قاری کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت (117) احادیث بیان کی ہیں جن میں (36) معلق اور(81)موصول ہیں،پھر(69) مکرر اور (48) خالص احادیث ذکر کی ہیں۔ان میں تیرہ احادیث کےعلاوہ باقی احادیث کو مسلم نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔واضح رہے کہ ان میں تین آثار صحابہ کے علاوہ دیگر تمام روایات مرفوع ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے'' کتاب المواقیت'' میں اوقات نماز کے علاوہ بے شمار فقہی دقائق اور اسنادی حقائق کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کوذہن میں رکھتے ہوئے کتاب المواقیت کا مطالعہ کریں تاکہ اس عظیم اور نامور محدث کی دقت فہم اور ندرت فکر سے آگاہ ہوسکیں۔والله يهدي من يشاء إلی سواء السبيل نوٹ: واضح رہے کہ ہم نے سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ العلامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے رسالے (مواقيت الصلاة) كا اُردو ترجمہ بھی موقع و محل کے اعتبار سے فوائد میں سمودیا ہے۔
تمہید باب
اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ وقت عصر کی انتہا بیان کرنا چاہتے ہیں کہ عصر کا وقت غروب آفتاب تک رہتا ہے کیونکہ اوقات نماز کے یہی مناسب ہے۔
حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں: ’’مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کی مثال اس آدمی جیسی ہے جس نے کچھ لوگوں کو مزدوری پر رکھا کہ وہ رات رک کام کریں۔ انہوں نے دوپہر تک کام کیا اور کہنے لگے: ہمیں تیری مزدوری کی ضرورت نہیں، چنانچہ اس آدمی نے کچھ اور لوگوں کو مزدوری پر رکھا اور کہا: تم دن کا بقیہ وقت کام کرو، تمہیں وہی مزدوری ملے گی جو میں نے طے کی تھی۔ انہوں نے کام کیا حتی کہ جب نماز عصر کا وقت ہوا تو کہنے لگے: تیرا کام تجھے مبارک ہو، ہم نے جو کام کیا ہے اس کی بھی مزدوری نہیں لیتے، چنانچہ اس نے اور لوگوں کو مزدوری پر رکھا جنہوں نے بقیہ دن کام کیا تاآنکہ سورج غروب ہو گیا۔ اس طرح وہ پہلے دونوں گروہوں کی مزدوری کے حق دار بن گئے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) گزشتہ احادیث کی طرح اس حدیث میں بھی امام بخاری ؒ کا مقصود نماز عصر کا آخری وقت بتانا ہے، چنانچہ حدیث سے پتا چلتا ہے کہ کام کی مدت غروب آفتاب ہے اور عصر سے مغرب تک کے وقت کو ایک وقت قرار دیا گیا ہے، نیز اس وقت کا کام نماز عصر ہی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ نماز عصر کا وقت غروب آفتاب تک ہے۔ پھر اس حدیث میں جو مثال پیش کی گئی ہے، اس میں پہلے گروہ سے مراد اہل تورات، یعنی یہودی ہیں جنھیں موسوی شریعت کی پیروی کا حکم دیا گیا تھا، پھر جب حضرت عیسیٰ ؑ تشریف لائے تو ان کے پیچھے چلنے کا حکم دیا گیا، چنانچہ وہ اس سے بھاگ گئے۔ دوسرا گروہ اہل انجیل، یعنی عیسائیوں کا ہے جو عیسیٰ ؑ پر ایمان لائے اور اس وقت کی شریعت پر عمل پیرا رہے، لیکن جب رسول اللہ ﷺ کی بعثت ہوئی تو انھیں آپ پر ایمان لانے کا حکم ہوا، انھوں نے اس بات سے انکار کردیا۔ تیرے گروہ سے مراد ہم مسلمان ہیں جو رسول اللہ ﷺ پر ایمان لائے اور قیامت تک آپ کی لائی ہوئی شریعت پر عمل پیرا رہنے کےلیے تیار ہوئے۔ واضح رہے کہ ابن عمر اور ابو موسیٰ اشعری ؓ کی احادیث میں دو الگ الگ واقعات بیان ہوئے ہیں۔ ان میں اتنی بات تو مشترک ہے کہ تین تین فریق ہیں اور ہرفریق سے معاملہ الگ الگ ہے، لیکن ان میں حسب ذیل فرق ہے: ٭ پہلی روایت میں مدت اجارہ کی صراحت نہیں جبکہ دوسری رویت میں رات تک کی تصریح ہے۔ ٭پہلی روایت میں ہے کہ پہلے دونوں گروہ کام کرتے کرتے عاجز ہوگئے اور انھیں ایک ایک قیراط دیا گیا جبکہ دوسری روایت میں ہے کہ انھوں نے اجرت لینے سے صاف انکار کردیا۔ ٭پہلی روایت میں یہودونصاریٰ کے ان لوگوں کا حال بیان ہوا ہے جو اپنے دور میں دین پر قائم رہے اور اس پر عمل کیا لیکن اس کے منسوخ ہونے سے پہلے فوت ہو گئے اور دوسری حدیث میں ان لوگوں کا حال بیان ہوا ہے جو دین میں تحریف کرنے کے مرتکب ہوئے اور اس سے بے زاری کا اظہارکیا۔ والله أعلم.
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوکریب محمد بن علا نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے برید بن عبداللہ کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے ابوبردہ عامر بن عبداللہ سے، انھوں نے اپنے باپ ابوموسیٰ اشعری عبداللہ بن قیس ؓ سے۔ انھوں نے نبی کریم ﷺ سے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ مسلمانوں اور یہود و نصاریٰ کی مثال ایک ایسے شخص کی سی ہے کہ جس نے کچھ لوگوں سے مزدوری پر رات تک کام کرنے کے لیے کہا۔ انھوں نے آدھے دن کام کیا۔ پھر جواب دے دیا کہ ہمیں تمہاری اجرت کی ضرورت نہیں، (یہ یہود تھے) پھر اس شخص نے دوسرے مزدور بلائے اور ان سے کہا کہ دن کا جو حصہ باقی بچ گیا ہے (یعنی آدھا دن) اسی کو پورا کر دو۔ شرط کے مطابق مزدوری تمہیں ملے گی۔ انھوں نے بھی کام شروع کیا لیکن عصر تک وہ بھی جواب دے بیٹھے۔ (یہ نصاریٰ تھے) پس اس تیسرے گروہ نے (جو اہل اسلام ہیں) پہلے دو گروہوں کے کام کی پوری مزدوری لے لی۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کو پچھلی حدیث کی روشنی میں سمجھنا ضروری ہے۔ جس میں ذکرہوا کہ یہود و نصاریٰ نے تھوڑا کام کیا اور بعد میں باغی ہوگئے۔ پھر بھی ان کو ایک ایک قیراط کے برابر ثواب دیا گیا۔ اورامت محمدیہ نے وفادارانہ طور پر اسلام کو قبول کیا اور تھوڑے وقت کام کیا، پھر بھی ان کو دوگنا اجرملا، یہ اللہ کا فضل ہے، امت محمدیہ اپنی آمد کے لحاظ سے آخر وقت میں آئی، اسی کو عصر تا مغرب تعبیر کیا گیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Musa (RA): The Prophet (ﷺ) said, "The example of Muslims, Jews and Christians is like the example of a man who employed laborers to work for him from morning till night. They worked till mid-day and they said, 'We are not in need of your reward.' SO the man employed another batch and said to them, 'Complete the rest of the day and yours will be the wages I had fixed (for the first batch). They worked Up till the time of the 'Asr prayer and said, 'Whatever we have done is for you.' He employed another batch. They worked for the rest of the day till sunset, and they received the wages of the two former batches."