قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ التَّعْبِيرِ (بَابُ أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِنَ الوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

7046. حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ح و حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ قَالَ الزُّهْرِيُّ فَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّادِقَةُ فِي النَّوْمِ فَكَانَ لَا يَرَى رُؤْيَا إِلَّا جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ فَكَانَ يَأْتِي حِرَاءً فَيَتَحَنَّثُ فِيهِ وَهُوَ التَّعَبُّدُ اللَّيَالِيَ ذَوَاتِ الْعَدَدِ وَيَتَزَوَّدُ لِذَلِكَ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى خَدِيجَةَ فَتُزَوِّدُهُ لِمِثْلِهَا حَتَّى فَجِئَهُ الْحَقُّ وَهُوَ فِي غَارِ حِرَاءٍ فَجَاءَهُ الْمَلَكُ فِيهِ فَقَالَ اقْرَأْ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدُ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدُ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدُ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ حَتَّى بَلَغَ عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ فَرَجَعَ بِهَا تَرْجُفُ بَوَادِرُهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى خَدِيجَةَ فَقَالَ زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي فَزَمَّلُوهُ حَتَّى ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ فَقَالَ يَا خَدِيجَةُ مَا لِي وَأَخْبَرَهَا الْخَبَرَ وَقَالَ قَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي فَقَالَتْ لَهُ كَلَّا أَبْشِرْ فَوَاللَّهِ لَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَصْدُقُ الْحَدِيثَ وَتَحْمِلُ الْكَلَّ وَتَقْرِي الضَّيْفَ وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ ثُمَّ انْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ حَتَّى أَتَتْ بِهِ وَرَقَةَ بْنَ نَوْفَلِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى بْنِ قُصَيٍّ وَهُوَ ابْنُ عَمِّ خَدِيجَةَ أَخُو أَبِيهَا وَكَانَ امْرَأً تَنَصَّرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَكَانَ يَكْتُبُ الْكِتَابَ الْعَرَبِيَّ فَيَكْتُبُ بِالْعَرَبِيَّةِ مِنْ الْإِنْجِيلِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكْتُبَ وَكَانَ شَيْخًا كَبِيرًا قَدْ عَمِيَ فَقَالَتْ لَهُ خَدِيجَةُ أَيْ ابْنَ عَمِّ اسْمَعْ مِنْ ابْنِ أَخِيكَ فَقَالَ وَرَقَةُ ابْنَ أَخِي مَاذَا تَرَى فَأَخْبَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا رَأَى فَقَالَ وَرَقَةُ هَذَا النَّامُوسُ الَّذِي أُنْزِلَ عَلَى مُوسَى يَا لَيْتَنِي فِيهَا جَذَعًا أَكُونُ حَيًّا حِينَ يُخْرِجُكَ قَوْمُكَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَمُخْرِجِيَّ هُمْ فَقَالَ وَرَقَةُ نَعَمْ لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمِثْلِ مَا جِئْتَ بِهِ إِلَّا عُودِيَ وَإِنْ يُدْرِكْنِي يَوْمُكَ أَنْصُرْكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا ثُمَّ لَمْ يَنْشَبْ وَرَقَةُ أَنْ تُوُفِّيَ وَفَتَرَ الْوَحْيُ فَتْرَةً حَتَّى حَزِنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا بَلَغَنَا حُزْنًا غَدَا مِنْهُ مِرَارًا كَيْ يَتَرَدَّى مِنْ رُءُوسِ شَوَاهِقِ الْجِبَالِ فَكُلَّمَا أَوْفَى بِذِرْوَةِ جَبَلٍ لِكَيْ يُلْقِيَ مِنْهُ نَفْسَهُ تَبَدَّى لَهُ جِبْرِيلُ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ حَقًّا فَيَسْكُنُ لِذَلِكَ جَأْشُهُ وَتَقِرُّ نَفْسُهُ فَيَرْجِعُ فَإِذَا طَالَتْ عَلَيْهِ فَتْرَةُ الْوَحْيِ غَدَا لِمِثْلِ ذَلِكَ فَإِذَا أَوْفَى بِذِرْوَةِ جَبَلٍ تَبَدَّى لَهُ جِبْرِيلُ فَقَالَ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَالِقُ الْإِصْبَاحِ ضَوْءُ الشَّمْسِ بِالنَّهَارِ وَضَوْءُ الْقَمَرِ بِاللَّيْلِ

مترجم:

7046.

سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ پر وحی کا آغاز بحالت نیند سچے خواب کے ذریعے سے ہوا۔ آپ ﷺ جو خواب بھی دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح سامنے آ جاتا۔ آپ غار حراء میں تشریف لاتے اور اس میں تنہا چند راتیں عبادت کرتے۔ ان چند راتوں کا توشہ بھی ساتھ لاتے۔ پھر جب حضرت خدیجہ‬ ؓ ک‬ے پاس واپس تشریف لے جاتے تو وہ اتنا ہی توشہ آپ کے ہمراہ کر دیتیں حتی کہ اچانک آپ کے پاس حق آ گیا جبکہ آپ غار حرا میں تھے، چنانچہ اس میں فرشتہ آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا: نبی ﷺ نے اس فرمایا: میں پڑھا ہوا ہوں۔ آخر اس نے مجھے پکڑ لیا اور زور سے دبایا جس کی وجہ سے مجھے بہت تکلیف ہوئی۔ پھر اس نے مجھے چھوڑ کر کہا: پڑھیے! میں نے کہا: میں پڑھا ہوا نہیں ہوں تو اس نے مجھے تیسری مرتبہ پکڑا اور خوب دبایا یہاں تک کہ میں نے بے حد تکلیف محسوس کی۔ آخر چھوڑ کر اس نے مجھ سے کہا: اپنے رب کے نام سے پڑھیے جس نے پیدا کیا حتیٰ کہ ما لم یعلم تک پہنچا۔ آپ ﷺ ان آیات کی گردن اور کندھے کے درمیان کا گوشت حرکت کر رہا تھا حتیٰ کہ سیدہ خدیجہ‬ ؓ ک‬ے ہاں تشریف لے گئے اور فرمایا: مجھے چادر اوڑھا دو۔ مجھے چادر اوڑھا دو، انہوں نے آپ کو چادر میں لپیٹ دیا، پھر جب آپ کا خوف ہراس دور ہوا تو آپ نے فرمایا: ”خدیجہ! میرا حال ہو گیا ہے؟“ پھر آپ نے اپنی سر گزشت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ”مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے۔“ حضرت خدیجہ‬ ؓ ن‬ے کہا: اللہ کی قسم! ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا، آپ شادر ہیں، اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا کیونکہ آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں، سچی بات کرتے ہیں، ناداروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی راہ میں آنے والی مصیبتوں میں مدد کرتے ہیں، اس کے بعد سیدہ خدیجہ ؓ آپ کو ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبدالعزی بن قصی کے پاس لائیں جو ان کو چچا زاد تھے اور زمانہ جاہلیت میں عیسائی ہو گئے تھے اور وہ عربی لکھ لیتے تھے اور اللہ کی توفیق سے وہ عربی میں انجیل کا ترجمہ لکھا کرتے تھے، نیز وہ اس وقت بہت بوڑھے ہو چکے تھے حتی کہ ان کی بینائی بھی جاتی رہی تھی۔ ان سے سیدہ خدیجہ‬ ؓ ن‬ے کہا: برادرم! اپنے بھتیجے کی بات غور سے سنیں۔ ورقہ نے پوچھا: بھتیجے! تم کیا دیکھتے ہو؟ نبی ﷺ نے جو دیکھا تھا اسے ذکر کر دیا۔ ورقہ نے سن کر کہا: یہ تو وہی ناموس ہے جو حضرت موسیٰ ؑ پر نازل ہوا تھا۔ کاش! میں ایام نبوت میں نوجوان ہوتا اور زندہ رہتا جب تمہاری قوم یہاں سے نکال دے گی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا یہ مجھے یہاں سے نکال دیں گے؟ ورقہ نے کہا: ہاں، جب بھی آپ جیسا کوئی پیغام لے کر آیا تو اس کے ساتھ دشمنی کی گئی۔ اور اگر میں نے تمہارے وہ دن پا لیے تو میں تمہاری بھر پور مدد کروں گا۔ لیکن کچھ ہی دنوں بعد ورقہ کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد وحی کا سلسلہ بھی منقطع ہو گیا۔ (راوی کہتا ہے کہ) ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ نبی ﷺ کو اس وجہ سے اس قدر غم تھا کہ آپ نے کئی مرتبہ پہاڑ کی بلند چوٹی سے خود کو گرا دینا چاہا لیکن جب بھی آپ کسی پہاڑ کی چوٹی پر چڑھتے تاکہ اس پر سے خود کو گرا دیں تو حضرت جبرئیل ؑ نمودار ہو کر فرماتے: یامحمد! یقیناً آپ اللہ کے رسول ہیں، اس سے آپ ﷺ کو سکون ملتا اور واپس آ جاتے، لیکن جب سلسلہ وحی زیادہ دنوں تک رکا رہا تو ایک مرتبہ آپ نے دوبارہ ایسا ارادہ کیا۔ جب آپ پہاڑ کی چوٹی پر چڑھے تو حضرت جبرئیل ؑ سامنے آئے اور انہوں نے آپ ﷺ سے اسی طرح کی بات پھر کہی۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: فَالِقُ الاصبَاحِ سے مراد ہے: دن کے وقت سورج کی روشنی اور رات کے وقت چاند کی روشنی۔