Sahi-Bukhari:
Sales and Trade
(Chapter: Going out for Trading)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور (سورہ جمعہ میں) اللہ تعالٰی کا فرمان کہ جب نماز ہو جاءے تو زمیں میں پھل جاءو اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔
2062.
حضرت عبید بن عمیر سے روایت ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے ایک دفعہ حضرت عمر ؓ سے ملاقات کی اجازت طلب کی لیکن انھیں اجازت نہ ملی۔۔۔ غالباً حضرت عمر ؓ اس وقت کسی کام میں مصروف تھے۔۔۔ حضرت موسیٰ اشعری ؓ واپس آگئے۔ حضرت عمر ؓ جب کام سے فارغ ہوئے تو کہنے لگے کہ میں نے عبداللہ بن قیس ؓ (ابو موسیٰ اشعری ؓ ) کی آوازسنی تھی؟ انھیں اجازت دے دو۔ عرض کیا گیا : وہ تو واپس چلے گئے ہیں۔ آپ نے انھیں بلایا(اور پوچھا: ) کیوں واپس چلے گئے تھے۔ انھوں نے عرض کیا: ہمیں یہی حکم دیا گیا تھا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: تم اس پر کوئی گواہ پیش کرو۔ یہ سن کر حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ انصار کی مجلس میں گئے اور ان سے دریافت کیا تو انھوں نے کہا کہ اس بات کی گواہی تو حضرت ابو سعید خدری ؓ ہی دے دیں گے جو ہم سب میں کم عمر ہیں۔ چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ حضرت ابو سعید خدرى ؓ کو حضرت عمر ؓ کی خدمت میں لے گئے (انھوں نے شہادت دی کہ رسول اللہ ﷺ کا یہی حکم تھا)تب حضرت عمر ؓ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کا حکم مجھ سے پوشیدہ رہ گیا؟کیونکہ میں بازاروں میں خریدوفروخت اور تجارت میں مصروف رہا، یعنی تجارت کی غرض سے باہر آنے جانے کا مشغول رہا۔
تشریح:
(1)اس حدیث میں حضرت عمر ؓ کا بازار میں تجارت کرنا مذکور ہے اور اس غرض سے ان کا باہر آنا جان بھی ثابت ہے۔حدیث پیش کرنے کا یہی مقصد ہے۔علاوہ ازیں حدیث مذکور سے دیگر مسائل بھی ثابت ہوتے ہیں، مثلاً:اگر کوئی کسی کے گھر ملاقات کےلیے جائے تو دروازے پر جاکر تین دفعہ سلام کہے اور اجازت طلب کرے۔اگر جواب نہ ملے تو واپس آجائے جیسا کہ ایک روایت میں اس کی تفصیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’تم میں سے کوئی تین دفعہ اجازت لے،اگر اجازت نہ ملے تو لوٹ آئے۔‘‘ ( صحیح البخاري، الاستئذان، حدیث:6245) (2)حدیث نبوی کی تصدیق کے لیے گواہ طلب کرنا بھی ثابت ہوا،نیز کم سن بچوں کی گواہی قبول کی جاسکتی ہے۔یہ بھی ثابت ہوا کہ بھول چوک بڑے بڑے لوگوں سے بھی ہوسکتی ہے۔ والله أعلم.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2001
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2062
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2062
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2062
تمہید کتاب
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ نے تجارت کوحلال کیا ہے۔ اور سود کو حرام قراردیا ہے۔ "
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛"ہاں جوتجارتی لین دین دست بدست تم لوگ کرتے ہو(اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں)"
فائدہ:سود، جوا اور رشوت لینے دینے میں بھی باہمی رضا مندی پائی جاتی ہے لیکن یہ حقیقی نہیں بلکہ اضطراری ہوتی ہے کیونکہ سود پر قرض لینے والے کو قرض حسنہ مل سکتا ہوتو وہ کبھی سود پر قرض نہ لے۔ جوا کھیلنے والا اس لیے رضا مند ہوتا ہے کہ ان میں سے ہرایک کو اپنے جیتنے کی امید ہوتی ہے اور اگر کسی کوہارنے کا اندیشہ ہوتو وہ کبھی جوا نہیں کھیلے گا۔ اسی طرح اگر رشوت دینے والے کو معلوم ہوکہ اسے رشوت دیے بغیر حق مل سکتاہے تو وہ کبھی رشوت نہ دے۔ اس کے علاوہ اگر سودے بازی میں ایک فریق کی پوری رضا مندی نہ ہو اور اسے اس پر مجبور کردیا جائے تو وہ بھی اس ضمن میں آتا ہے۔
انسانی معاشرے کو تعلقات کے اعتبار سے دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے،چنانچہ انسان اپنے خالق سے تعلق قائم کرتا ہے اسے ہم عبادات سے تعبیر کرتے ہیں۔اقرار شہادتین، نماز، زکاۃ، حج اور روزہ وغیرہ اسی تعلق مع اللہ کے مظاہر ہیں۔دوسرے یہ کے انسان کو اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے اسے معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات سے فراغت کے بعد اب معاملات کا آغاز کیا ہے۔انسانوں کی فطری ساخت ایسی ہے کہ وہ زندگی گزارنے کے لیے باہمی تعاون اور ایک دوسرے سے لین دین کے محتاج ہیں۔معاشرتی طور پر ہر فرد اور ہر طبقے کی ضرورت دوسرے سے وابستہ ہے،چنانچہ ایک مزدور انسان جس کی ضروریات زندگی بہت مختصر ہیں،اسے بھی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے ک لیے ایسے آدمی کی ضرورت ہے جس سے وہ غلہ وغیرہ لے سکے ،پھر کاشتکار کو اس مزدور کی ضرورت ہے جس سے وہ کھیتی باڑی کے کاموں میں مدد لے سکے ،پھر ان دونوں کو ایک ایسا آدمی درکار ہے جو ان کی ستر پوشی کے لیے کپڑا تیار کرے،پھر سر چھپانے کے لیے مکان اور بیماری کی صورت میں علاج معالجے کی ضرورت ہے۔الغرض اشیاء کی خریدو فروخت، محنت ومزدوری، صنعت وزراعت اور دیگر معاشی معاملات انسانی زندگی کے لوازم ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ان احکام پر عمل کرنا دنیا نہیں بلکہ عین دین اور عین عبادت ہے اور اس پر اسی طرح اجرو ثواب کا وعدہ ہے جس طرح نماز، روزے اور دیگر عبادات کی ادائیگی پر ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے معاملات کا آغاز كتاب البيوع سے فرمایا ہے۔لفظ بيوع بيع کی جمع ہے ۔اس کے معنی فروخت کرنا ہیں۔بعض اوقات خریدنے کے معنی میں بھی یہ لفظ کا استعمال ہوتا ہے۔شرعی اصطلاح میں کسی چیز کا مالک بننے کے ارادے سے مال کا مال کے ساتھ تبادلہ کرنا بیع کہلاتا ہے۔یہ خریدوفروخت اور تجارت انسانی ضروریات پوری کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔تجارت کے حسب ذیل چار بنیادی اجزاء ہیں: (1) مشتری (خریدار)(2)بائع (فروخت کار)(3)بیع(مال تجارت)(4)بیع (معاہدۂ تجارت)۔قرآن کریم نے تجارت کے لیے باہمی رضامندی کو بنیادی اصول قرار دیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین کا خریدو فروخت کے ہر پہلو پر مطلع ہو کر اپنے آزاد فیصلے سے معاہدۂ تجارت پر رضامند ہونا ضروری ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ﴿٢٩﴾) اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھاؤ مگریہ کے آپس کی رضامندی سے تجارت ہو،اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو،بے شک اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے۔"( النساء29:4)باطل طریقے سے مراد لین دین کاروبار اور تجارت کے دو طریقے ہیں جن میں فریقین کی حقیقی رضامندی یکساں طور پر نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں ایک فریق کا تو مفاد ملحوظ رہتا ہے جبکہ دوسرا دھوکے یا نقصان کا نشانہ بنتا ہے۔اگر کسی معاملے میں دھوکا پایا جائے یا اس میں ایک فریق کی بے بسی اور مجبوری کو دخل ہوتو اگرچہ وہ بظاہر اس پر راضی ہوں،تاہم شریعت کی رو سے یہ باطل طریقے ہیں جنھیں حرام ٹھہرایا گیا ہے،اس لیے لین دین اور باہمی تجارت نہ تو کسی دباؤ سے ہو اور نہ اس میں فریب اور ضرر ہی کو دخل ہو۔اگرچہ خریدوفروخت کی حلت قرآنی نص سے ثابت ہے لیکن ہر قسم کی خریدوفروخت حلال نہی بلکہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا گیا ہے:(1) فریقین باہمی رضامندی سے سودا کریں۔(2)خریدی ہوئی چیز اور اس کا معاوضہ مجہول نہ ہو۔(3)قابل فروخت چیز فرخت کرنے والے کی ملکیت ہو اور وہ اسے خریدار کے حوالے کرنے پر قادر ہو۔(4)فروخت ہونے والی چیز میں کسی قسم کا عیب چھپا ہوانہ ہو۔(5) کسی حرام چیز کی خریدوفروخت نہ ہو اور نہ اس میں سود کو بطور حیلہ جائز قرار دیا گیا ہو۔(6)اس خریدوفروخت اور تجارت میں کسی فریق کو دھوکا دینا مقصود نہ ہو۔ (7)اس تجارتی لین دین میں حق رجوع کو برقرار رکھا گیا ہو۔کتب حدیث میں خریدو فروخت کی تقریباً تیس اقسام کو انھی وجہ سے ھرام ٹھہرایا گیا ہے۔ ہم ان کی آئندہ وضاحت کریں گے۔علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات کے بیان سے فراغت کے بعد معاملات کا آغاز فرمایا کیونکہ عبادات سے مراد فوائد اخروی حاصل کرنا ہے جبکہ معاملات سے دنیوی مفاد پیش نظر ہوتا ہے۔عبادات چونکہ اہم ہیں،اس لیے انھیں مقدم کیا۔معاملات کا تعلق ضروریات سے ہے،اس لیے انھیں عبادات کے بعد بیان کیا ہے،پھر معاملات میں سے خریدوفروخت کے مسائل کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ زندگی میں اکثر وبیشتر اس سے واسطہ پڑتا ہے۔( عمدۃ القاری:8/291)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:تمام اہل اسلام نے خریدو فروخت کے جواز پر اتفاق کیا ہے اور عقل وحکمت بھی اس کے جواز کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ انسانی ضروریات اس سے پوری ہوتی ہیں۔( فتح الباری:4/364) امام بخاری رحمہ اللہ نے خریدوفروخت کے مسائل پر مشتمل دوسوسینتالیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں۔ان میں چھیالیس معلق ہیں جبکہ باقی احادیث کو متصل سند سے بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی باون آثار بھی بیان کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر ایک سوتیرہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو علم معیشت میں اساسی قواعد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان قواعد واصول سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کے نام پر لوٹ مار کے کھلے راستوں کے ساتھ ساتھ ان تمام پوشیدہ راہوں کو بھی بند کردیا ہے جو تجارت کو عدل وانصاف اور خیر خواہی سے ہٹا کر ظلم وزیادتی کے ساتھ دولت سمیٹنے کی طرف لے جانے والے ہیں،آپ نے انتہائی باریک بینی سے نظام تجارت کا جائزہ لیا اور اس کی حدود وقیود متعین فرما کر عمل تجارت کو ہر طرح کے ظلم اور استحصالی ہتھکنڈوں سے پاک کردیا۔ ہمیں چاہیے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوانات کی روشنی میں اپنی تجارت کو ان اصولوں پر استوار کریں جو مکمل طور پر انسانی فلاح وبہبود کی ضمانت دیتے ہیں۔قارئین سے استدعا ہے کہ كتاب البيوع کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور پیش نظر رکھیں۔اللہ تعالیٰ حق بینی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے ۔ آمين
سیاق وسباق اور پس منظر کے اعتبار سے پہلی آیت کفار کے جواب میں ہے جنہوں نے کہا تھا:" تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے" یعنی جب تجارت میں لگے ہوئے روپے کا منافع جائز ہے تو قرض پر دیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہے۔اور دوسری آیت سے مقصود یہ ہے کہ اگرچہ روز مرہ کی خریدوفروخت میں بھی معاملۂ بیع کا تحریر میں آجانا بہتر ہے جیسا کہ آج کل کیش میمو لکھنے کا طریقہ رائج ہے،تاہم ایسا کرنا لازم نہیں بلکہ اسے تحریر میں لائے بغیر معاملہ طے کیا جاسکتا ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے ان ہر دو آیات سے خریدوفروخت کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔حافظ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:انسان طبعی طور پر لالچی واقع ہوا ہے ،دوسروں کی چیز کو للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے کا عادی ہے، اگر اسے ضرورت ہو تو چوری، ڈکیتی، لوٹ، کھسوٹ اور دھوکا فریب سے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کے حصول کے لیے خریدو فروخت کا معاملہ مشروع قرار دیا ہے تاکہ کسی پر ظلم اور زیادتی نہ ہو،امن اور آتشی کے ساتھ لوگ زندگی بسر کریں۔( عمدۃ القاری:8/292)
تمہید باب
اس آیت کریمہ میں خریدوفروخت کی ممانعت کے بعد اجازت کا بیان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض یہ معلوم ہوتی ہے کہ تجارت اور خریدوفروخت کے لیے دوڑ دھوپ کرنے میں کوئی حرج نہیں ،خواہ اس کے لیے دور دراز کا سفر ہی کرنا پڑے۔جولوگ بازار آنےجانے میں حرج محسوس کرتے ہیں ان کا طرز عمل صحیح نہیں۔( فتح الباری:4/378)
اور (سورہ جمعہ میں) اللہ تعالٰی کا فرمان کہ جب نماز ہو جاءے تو زمیں میں پھل جاءو اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبید بن عمیر سے روایت ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے ایک دفعہ حضرت عمر ؓ سے ملاقات کی اجازت طلب کی لیکن انھیں اجازت نہ ملی۔۔۔ غالباً حضرت عمر ؓ اس وقت کسی کام میں مصروف تھے۔۔۔ حضرت موسیٰ اشعری ؓ واپس آگئے۔ حضرت عمر ؓ جب کام سے فارغ ہوئے تو کہنے لگے کہ میں نے عبداللہ بن قیس ؓ (ابو موسیٰ اشعری ؓ ) کی آوازسنی تھی؟ انھیں اجازت دے دو۔ عرض کیا گیا : وہ تو واپس چلے گئے ہیں۔ آپ نے انھیں بلایا(اور پوچھا: ) کیوں واپس چلے گئے تھے۔ انھوں نے عرض کیا: ہمیں یہی حکم دیا گیا تھا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: تم اس پر کوئی گواہ پیش کرو۔ یہ سن کر حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ انصار کی مجلس میں گئے اور ان سے دریافت کیا تو انھوں نے کہا کہ اس بات کی گواہی تو حضرت ابو سعید خدری ؓ ہی دے دیں گے جو ہم سب میں کم عمر ہیں۔ چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ حضرت ابو سعید خدرى ؓ کو حضرت عمر ؓ کی خدمت میں لے گئے (انھوں نے شہادت دی کہ رسول اللہ ﷺ کا یہی حکم تھا)تب حضرت عمر ؓ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کا حکم مجھ سے پوشیدہ رہ گیا؟کیونکہ میں بازاروں میں خریدوفروخت اور تجارت میں مصروف رہا، یعنی تجارت کی غرض سے باہر آنے جانے کا مشغول رہا۔
حدیث حاشیہ:
(1)اس حدیث میں حضرت عمر ؓ کا بازار میں تجارت کرنا مذکور ہے اور اس غرض سے ان کا باہر آنا جان بھی ثابت ہے۔حدیث پیش کرنے کا یہی مقصد ہے۔علاوہ ازیں حدیث مذکور سے دیگر مسائل بھی ثابت ہوتے ہیں، مثلاً:اگر کوئی کسی کے گھر ملاقات کےلیے جائے تو دروازے پر جاکر تین دفعہ سلام کہے اور اجازت طلب کرے۔اگر جواب نہ ملے تو واپس آجائے جیسا کہ ایک روایت میں اس کی تفصیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’تم میں سے کوئی تین دفعہ اجازت لے،اگر اجازت نہ ملے تو لوٹ آئے۔‘‘ ( صحیح البخاري، الاستئذان، حدیث:6245) (2)حدیث نبوی کی تصدیق کے لیے گواہ طلب کرنا بھی ثابت ہوا،نیز کم سن بچوں کی گواہی قبول کی جاسکتی ہے۔یہ بھی ثابت ہوا کہ بھول چوک بڑے بڑے لوگوں سے بھی ہوسکتی ہے۔ والله أعلم.
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "(نماز جمعہ سے فراغت کے بعد) زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو مخلد بن یزید نے خبردی، کہا کہ ہمیں ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے عطا بن ابی رباح نے خبر دی، انہیں عبید بن عمیر نے کہ ابوموسیٰ اشعری ؓ نے عمر بن خطاب ؓ سے ملنے کی اجازت چاہی لیکن اجازت نہیں ملی۔ غالباً آپ اس وقت کام میں مشغول تھے۔ اس لیے ابوموسیٰ ؓ واپس لوٹ گئے۔ پھر عمر ؓ فارغ ہوئے تو فرمایا کیا میں نے عبداللہ بن قیس ( ابوموسیٰ ؓ ) کی آوازنہیں سنی تھی۔ انہیں اندر آنے کی اجازت دے دو۔ کہا گیا وہ لوٹ کر چلے گئے۔ تو عمر ؓ نے انہیں بلا لیا۔ ابوموسیٰ ؓ نے کہا کہ ہمیں اسی کا حکم ( آنحضرت ﷺ سے ) تھا ( کہ تین مرتبہ اجازت چاہنے پر اگر اندر جانے کی اجازت نہ ملے تو واپس لوٹ جانا چاہئے ) اس پر عمر ؓ نے فرمایا، اس حدیث پر کوئی گواہ لاؤ۔ ابوموسیٰ ؓ انصار کی مجلس میں گئے اور ان سے اس حدیث کے متعلق پوچھا ( کہ کیا کسی نے اسے آنحضرت ﷺ سے سنا ہے ) ان لوگوں نے کہا کہ اس کی گواہی تو تمہارے ساتھ وہ دے گا جو ہم سب میں بہت ہی کم عمر ہے۔ وہ ابوسعید خدری ؓ کو اپنے ساتھ لے گئے۔ عمر ؓ نے یہ سن کر فرمایا کہ نبی کریم ﷺ کا ایک حکم مجھ سے پوشیدہ رہ گیا۔ افسوس کہ مجھے بازاروں کی خرید و فروخت نے مشغول رکھا۔ آپ کی مراد تجارت سے تھی۔
حدیث حاشیہ:
روایت میں حضرت عمر ؓ کا بازار میں تجارت کرنا مذکور ہے۔ اسی سے مقصد باب ثابت ہوا۔ حدیث سے اور بھی بہت سے مسائل نکلتے ہیں مثلاً کوئی کسی کے گھر ملاقات کو جائے تو دورازے پر جاکر تین دفعہ سلام کے ساتھ اجازت طلب کرے، اگر جواب نہ ملے تو واپس لوٹ جائے۔ کسی حدیث کی تصدیق کے لیے گواہ طلب کرنا بھی ثابت ہوا۔ نیز یہ کہ صحیح بات میں کم سن بچوں کی گواہی بھی مانی جاسکتی ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ بھول چوک بڑے بڑے لوگوں سے بھی ممکن ہے وغیرہ وغیرہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ubai bin 'Umar (RA): Abu Musa (RA) asked Umar to admit him but he was not admitted as 'Umar was busy, so Abu Musa (RA) went back. When 'Umar finished his job he said, "Didn't I hear the voice of ' Abdullah bin Qais (RA) ? Let him come in." 'Umar was told that he had left. So, he sent for him and on his arrival, he (Abu Musa (RA)) said, "We were ordered to do so (i.e. to leave if not admitted after asking permission thrice). 'Umar told him, "Bring witness in proof of your statement." Abu Musa (RA) went to the Ansar's meeting places and asked them. They said, "None amongst us will give this witness except the youngest of us, Abu Sa'id Al-Khudri(RA). Abu Musa (RA) then took Abu Sa'id Al-Khudri(RA) (to 'Umar) and 'Umar said, surprisingly, "Has this order of Allah's Apostle (ﷺ) been hidden from me?" (Then he added), "I used to be busy trading in markets." ________