باب: اس بارے میں کہ رسول اللہﷺ پر وحی کی ابتداء کیسے ہوئی
)
Sahi-Bukhari:
Revelation
(Chapter: How the Divine Revelation started being revealed to Allah's Messenger)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ عزوجل کا یہ فرمان کہ ’’ہم نے بلاشبہ (اے محمدﷺ!) آپ کی طرف وحی کا نزول اسی طرح کیا ہے جس طرح حضرت نوحؑ اور ان کے بعد آنے والے تمام نبیوں کی طرف کیا تھا۔‘‘
1.
حضرت علقمہ بن وقاص لیثی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب ؓ کو منبر پر یہ کہتے سنا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ فرما رہے تھے: ’’اعمال کا مدار نیتوں پر ہے اور ہر آدمی کو اس کی نیت ہی کے مطابق پھل ملے گا، پھر جس شخص نے دنیا کمانے یا کسی عورت سے شادی رچانے کے لیے وطن چھوڑا تو اس کی ہجرت اسی کام کے لیے ہے جس کے لیے اس نے ہجرت کی۔‘‘
تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو نیت کی اہمیت یا اس کے احکام ومسائل بیان کرنے کے لیے پیش نہیں کیا کیونکہ انھوں نے اس مقدمے کے لیے کتاب الایمان کے آخر میں ایک الگ باب بعنوان (بَابٌ: مَا جَاءَ إِنَّ الأَعْمَالَ بِالنِّيَّةِ وَالحِسْبَةِ) قائم کیا ہے۔ حضرت امام غالباً اس مقام پر یہ بتانا چاہتے ہیں کہ عمل کا تعلق وحی کے ساتھ بھی ہے اور عامل کی نیت کے ساتھ بھی، وہ اس طرح کہ انسان کو اس عالم رنگ وبو میں ایسے اعمال کے بجا لانے کا مکلف ٹھہرایا گیا ہے جن کا اچھا یا بُرا ہونا وحی الٰہی پر موقوف ہے۔ پھر اللہ کے ہاں ان اعمال کا اعتبار کیا جائے گا جو خلوص نیت پر مبنی ہوں گے، یعنی نہ تو کوئی انسان وحی کے بغیر اچھے اعمال اختیار کر سکتا ہے اور نہ نیت کے بغیر اچھے اعمال لائق اعتبار ہی ہوسکتے ہیں۔ 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ آیت کریمہ سے بھی عظمت وحی کو ثابت کرتے ہیں، ان کا استدلال آیت کے ان الفاظ سے ہے: ﴿إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ﴾ یعنی ہم نے وحی بھیجی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ کسی معمولی ذات نے وحی کا نزول نہیں کیا کہ اس کی عظمت و تقدیس میں کچھ قصور(کمی) ہو۔ پھر حدیث نیت لا کر یہ اشارہ فرمایا کہ اتنی عظیم الشان وحی کے نزول کا سبب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اعلیٰ درجے کااخلاص نیت ہی ہے۔ 3۔ اس حدیث کی مذکورہ بالا عنوان سے بایں طور مطابقت بیان کی گئی ہے کہ اگرچہ نبوت ورسالت ایسی چیز نہیں ہے جسے محنت و ریاضت کے بل بوتے پر حاصل کیا جا سکے بلکہ یہ خاص عنایات ربانی کا نتیجہ ہے، تاہم اہل دنیا سے کٹ کر اللہ کی طرف ہجرت کرکے غارحرامیں خلوت گزیں ہونا عطیہ نبوت ملنے کا سبب ضرور بنا ہے۔ اور یہ خلوت گزینی بھی اللہ کے فضل اور احسان ہی سے نصیب ہوئی۔ گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے گھر سے غارحرا تک ہجرت کرنا نزول وحی کا مقدمہ اور مکے سے مدینے کی طرف ہجرت کرنا ظہور وحی کے لیے پیش خیمہ ثابت ہوا کیونکہ مکے میں کفار کی مخالفت کی وجہ سے وحی کو عام کرنے کا موقع نہ مل سکا اور ہجرت مدینہ کے بعد اس وحی کا خوب چرچا ہوا۔ (المتواري علي تراجم ابواب البخاري، ص: 49) 4۔ اس حدیث میں اعمال سے مراد انسان کے وہ اختیاری افعال ہیں جو عبادات کے زمرے میں آتے ہیں کیونکہ عبادات ہی میں اخلاص اور حسن نیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ فساد نیت سے عبادات کی ادائیگی نہ صرف ثواب سے محرومی کا باعث ہے بلکہ اللہ کے ہاں اس پر سخت سزا کا بھی اندیشہ ہے۔ اس کے برعکس عادات و معاملات نیت کے بغیر بھی وقوع پذیر ہو جاتے ہیں، مثلاً: کوئی شخص کسی کو ہزار روپے دیتا ہے تو دوسرے کی ملکیت ثابت ہوجائے گی، البتہ اگر وہ اس میں نیت اللہ کی رضا کرلے تو پھر اخلاص آجانے سے اسے بھی عبادت کا درجہ حاصل ہوجاتا ہے جس پر اللہ کے ہاں اجروثواب کا وعدہ ہے۔ 5۔ چونکہ نیت دل کا فعل ہے، اس لیے زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنا تکلف محض ہے، نیز جن عبادات واعمال کا تعلق ہی دل سے ہے، مثلاً: خشیت وانابت اور خوف ورجا وغیرہ، ان میں سرے سے نیت کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ بہرحال حج اور عمرے کی نیت کے علاوہ کسی بھی عمل کی نیت کے لیے زبان سے نیت کے الفاظ بولنا بدعت ہے۔ ہرعمل کے لیے دل میں جو نیت ہوتی ہے، وہی کافی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1
تمہید کتاب
وحی کے لغوی معنی پوشیدہ طور پر کسی کو بات بتانا ہیں اور اصطلاح شرع میں اس کلام وپیغام کو وحی کہاجاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کی رہنمائی کے لیے حضرات انبیاء علیہ السلام پر نازل ہوا۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب کا آغاز وحی کے بیان سے فرمایا کیونکہ انسانی رشدوہدایت کے لیے جو ضابطہ حیات اللہ تعالیٰ نے اُتارا ہے اس کاتمام ترانحصار وحی پر ہے،نیز اس نے اپنا پیغام لوگوں تک پہنچانے کے لیے جن شخصیات کا انتخاب کیا ان کی صداقت بھی وحی پر موقوف ہے۔لہذا جب تک وحی کی عظمت سامنے نہ آئے اس وقت تک اسلام کی حقانیت اور حضرات انبیاء علیہ السلام کی صداقت مشکوک رہے گی۔مزیدبرآں یہ بتانا مقصود ہے کہ دین حنیف لوگوں کے جذبات وقیاسات کا مجموعہ نہیں بلکہ اللہ کی مرضیات پر مبنی شرعی احکام کا نام ہے اور اس عالم رنگ وبو میں منشائے الٰہی معلوم کرنے کے لیے انسانوں کو جس قطعی اور یقینی چیز کی ضرورت ہے وہ وحی الٰہی ہے جو سب سے زیادہ قابل اعتبار اور لائق ووثوق ہے جس کے اندر نہ توتغیر کا امکان ہے اور نہ سہو ونسیان ہی کاشائبہ ہے۔اس وحی کی عظمت وشوکت کا کیاحال ہوگا جس کا بھیجنے والامالک ارض وسما لانے والے قدسی صفات کے حامل حضرت جبرئیل علیہ السلام اور وصول کرنے والے جامع الکمالات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ایسی عظیم الشان اور جلیل القدر وحی کہاں سے،کس طرح،کس کے پاس،کون لایا؟کن حالات میں،کس مقام پر اس کا آغاز ہوا؟اس کتاب (بدء الوحي) میں انھی سوالات کا جواب دیاگیا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مخصوص تالیفی اسلوب کے اعتبار سے اس مضمون کو دیگر مضامین میں سے پہلے بیان کرکے غالباً اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ میری اس کتاب میں جو کچھ بیان ہوگا وہ عقائد ہوں یا عبادات ،معاملات ہوں یا اخلاقیات ،اصول ہوں یا فروع،ان سب کا ماخذ وحی الٰہی ہے۔
تمہید باب
وحی کا لفظ عام ہے۔وحی متلو یا غیر متلو،حضرت جبریل علیہ السلام اسے بصورت فرشتہ لائیں یا شکل انسان،پھر وحی بحالت خواب ہو یا بصورت الہام،لفظ وحی تمام صورتوں پر محیط ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس مقام پر صرف وحی کے آغاز کاتذکرہ نہیں کرنا چاہتے بلکہ وحی کے جملہ مبادی،یعنی وحی،اس کی اقسام،عظمت وصداقت ،مقام وحی اور زمان وحی بھی ذکر کرنا چاہتے ہیں۔کیفیت بیان نہیں کرنا چاہتے کیونکہ انھوں نے وحی کی کیفیت بیان کرنے کے لیے کتاب فضائل قرآن میں الگ عنوان (كيَفَ نَزَلَ الوَحىُ) قائم کیاہے۔پھر جو آیت کریمہ لائے ہیں اس سے بھی مذکورہ امور ثابت ہوتے ہیں۔اس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی باریک بینی اور دقت فہم کا بھی پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لیے ایک ایسی آیت کا انتخاب کیا ہے جس میں وحی،مبدء وحی اور حاملین وحی کے متعلق اتنی تاکیدات ہیں جو کسی دوسری آیت میں نہیں ہیں۔
اور اللہ عزوجل کا یہ فرمان کہ ’’ہم نے بلاشبہ (اے محمدﷺ!) آپ کی طرف وحی کا نزول اسی طرح کیا ہے جس طرح حضرت نوحؑ اور ان کے بعد آنے والے تمام نبیوں کی طرف کیا تھا۔‘‘
حدیث ترجمہ:
حضرت علقمہ بن وقاص لیثی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب ؓ کو منبر پر یہ کہتے سنا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ فرما رہے تھے: ’’اعمال کا مدار نیتوں پر ہے اور ہر آدمی کو اس کی نیت ہی کے مطابق پھل ملے گا، پھر جس شخص نے دنیا کمانے یا کسی عورت سے شادی رچانے کے لیے وطن چھوڑا تو اس کی ہجرت اسی کام کے لیے ہے جس کے لیے اس نے ہجرت کی۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو نیت کی اہمیت یا اس کے احکام ومسائل بیان کرنے کے لیے پیش نہیں کیا کیونکہ انھوں نے اس مقدمے کے لیے کتاب الایمان کے آخر میں ایک الگ باب بعنوان (بَابٌ: مَا جَاءَ إِنَّ الأَعْمَالَ بِالنِّيَّةِ وَالحِسْبَةِ) قائم کیا ہے۔ حضرت امام غالباً اس مقام پر یہ بتانا چاہتے ہیں کہ عمل کا تعلق وحی کے ساتھ بھی ہے اور عامل کی نیت کے ساتھ بھی، وہ اس طرح کہ انسان کو اس عالم رنگ وبو میں ایسے اعمال کے بجا لانے کا مکلف ٹھہرایا گیا ہے جن کا اچھا یا بُرا ہونا وحی الٰہی پر موقوف ہے۔ پھر اللہ کے ہاں ان اعمال کا اعتبار کیا جائے گا جو خلوص نیت پر مبنی ہوں گے، یعنی نہ تو کوئی انسان وحی کے بغیر اچھے اعمال اختیار کر سکتا ہے اور نہ نیت کے بغیر اچھے اعمال لائق اعتبار ہی ہوسکتے ہیں۔ 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ آیت کریمہ سے بھی عظمت وحی کو ثابت کرتے ہیں، ان کا استدلال آیت کے ان الفاظ سے ہے: ﴿إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ﴾ یعنی ہم نے وحی بھیجی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ کسی معمولی ذات نے وحی کا نزول نہیں کیا کہ اس کی عظمت و تقدیس میں کچھ قصور(کمی) ہو۔ پھر حدیث نیت لا کر یہ اشارہ فرمایا کہ اتنی عظیم الشان وحی کے نزول کا سبب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اعلیٰ درجے کااخلاص نیت ہی ہے۔ 3۔ اس حدیث کی مذکورہ بالا عنوان سے بایں طور مطابقت بیان کی گئی ہے کہ اگرچہ نبوت ورسالت ایسی چیز نہیں ہے جسے محنت و ریاضت کے بل بوتے پر حاصل کیا جا سکے بلکہ یہ خاص عنایات ربانی کا نتیجہ ہے، تاہم اہل دنیا سے کٹ کر اللہ کی طرف ہجرت کرکے غارحرامیں خلوت گزیں ہونا عطیہ نبوت ملنے کا سبب ضرور بنا ہے۔ اور یہ خلوت گزینی بھی اللہ کے فضل اور احسان ہی سے نصیب ہوئی۔ گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے گھر سے غارحرا تک ہجرت کرنا نزول وحی کا مقدمہ اور مکے سے مدینے کی طرف ہجرت کرنا ظہور وحی کے لیے پیش خیمہ ثابت ہوا کیونکہ مکے میں کفار کی مخالفت کی وجہ سے وحی کو عام کرنے کا موقع نہ مل سکا اور ہجرت مدینہ کے بعد اس وحی کا خوب چرچا ہوا۔ (المتواري علي تراجم ابواب البخاري، ص: 49) 4۔ اس حدیث میں اعمال سے مراد انسان کے وہ اختیاری افعال ہیں جو عبادات کے زمرے میں آتے ہیں کیونکہ عبادات ہی میں اخلاص اور حسن نیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ فساد نیت سے عبادات کی ادائیگی نہ صرف ثواب سے محرومی کا باعث ہے بلکہ اللہ کے ہاں اس پر سخت سزا کا بھی اندیشہ ہے۔ اس کے برعکس عادات و معاملات نیت کے بغیر بھی وقوع پذیر ہو جاتے ہیں، مثلاً: کوئی شخص کسی کو ہزار روپے دیتا ہے تو دوسرے کی ملکیت ثابت ہوجائے گی، البتہ اگر وہ اس میں نیت اللہ کی رضا کرلے تو پھر اخلاص آجانے سے اسے بھی عبادت کا درجہ حاصل ہوجاتا ہے جس پر اللہ کے ہاں اجروثواب کا وعدہ ہے۔ 5۔ چونکہ نیت دل کا فعل ہے، اس لیے زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنا تکلف محض ہے، نیز جن عبادات واعمال کا تعلق ہی دل سے ہے، مثلاً: خشیت وانابت اور خوف ورجا وغیرہ، ان میں سرے سے نیت کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ بہرحال حج اور عمرے کی نیت کے علاوہ کسی بھی عمل کی نیت کے لیے زبان سے نیت کے الفاظ بولنا بدعت ہے۔ ہرعمل کے لیے دل میں جو نیت ہوتی ہے، وہی کافی ہے۔
ترجمۃ الباب:
نیز اللہ عزوجل کے فرمان (کی وضاحت) :"ہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی نازل فرمائی ہے جیسے حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے بعد آنے والے تمام انبیاء (علیہم السلام) کی طرف نازل کی تھی۔"
حدیث ترجمہ:
ہم کو حمیدی نے یہ حدیث بیان کی، انھوں نے کہا کہ ہم کو سفیان نے یہ حدیث بیان کی، وہ کہتے ہیں ہم کو یحییٰ بن سعید انصاری نے یہ حدیث بیان کی، انھوں نے کہا کہ مجھے یہ حدیث محمد بن ابراہیم تیمی سے حاصل ہوئی۔ انھوں نے اس حدیث کو علقمہ بن وقاص لیثی سے سنا، ان کا بیان ہے کہ میں نے مسجد نبوی میں منبر رسول ﷺ پر حضرت عمر بن خطاب ؓ کی زبان سے سنا، وہ فرما رہے تھے کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرما رہے تھے کہ تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر عمل کا نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا۔ پس جس کی ہجرت ( ترک وطن) دولت دنیا حاصل کرنے کے لیے ہو یا کسی عورت سے شادی کی غرض ہو۔ پس اس کی ہجرت ان ہی چیزوں کے لیے ہو گی جن کے حاصل کرنے کی نیت سے اس نے ہجرت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی جامع صحیح کے افتتاح کے لیے یا تو صرف بسم الله الرحمن الرحيم ہی کو کافی سمجھا کہ اس میں بھی اللہ کی حمد کامل طور پر موجود ہے یا آپ نے حمد کا تلفظ زبان سے ادا فرمالیا کہ اس کے لیے لکھنا ہی ضروری نہیں۔ یا پھر آپ نے جناب نبی کریم ﷺ کی سنت ہی کو ملحوظِ خاطر رکھا ہو کہ تحریرات نبوی کی ابتدا صرف بسم اللہ الرحمن الرحیم ہی سے ہوا کرتی تھی جیسا کہ کتب تواریخ و سیر سے ظاہر ہے۔ حضرت الامام قدس سرہ نے پہلے ’’وحی‘‘ کا ذکر مناسب سمجھا اس لیے کہ قرآن وسنت کی اولین بنیاد ’’وحی‘‘ ہے۔ اسی پر آنحضرت ﷺ کی صداقت موقوف ہے۔ وحی کی تعریف علامہ قسطلانی شارح بخاری کے لفظوں میں یہ ہے : "والوحي الاعلام في خفاء و في اصطلاح الشرع اعلام اللہ تعالیٰ أنبیاءہ الشی أما بکتاب أو برسالة ملك أو منام أو الهام."(ارشاد الساري :1؍48) یعنی وحی لغت میں اس کو کہتے ہیں کہ مخفی طور پر کوئی چیز علم میں آجائے اور شرعاً وحی یہ ہے کہ اللہ پاک اپنے نبیوں رسولوں کو براہِ راست کسی مخفی چیز پر آگاہ فرمادے۔ اس کی بھی مختلف صورتیں ہیں، یا تو ان پر کوئی کتاب نازل فرمائے یا کسی فرشتے کو بھیج کر اس کے ذریعہ سے خبردے یا خواب میں آگاہ فرمادے، یا دل میں ڈال دے۔ وحی محمدی کی صداقت کے لیے حضرت امام نے آیت کریمہ ﴿إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَىٰ نُوحٍ ﴾(النساء: 163) درج فرما کر بہت سے لطیف اشارات فرمائے ہیں، جن کی تفصیل طوالت کا باعث ہے۔ مختصریہ ہے کہ آنحضرت ﷺ پر نازل ہونے والی وحی کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ یہ سلسلہ عالیہ حضرت آدم، نوح، ابراہیم، موسیٰ،عیسیٰ وجملہ انبیاء ورسل علیہم السلام سے مربوط ہے اور اس سلسلے کی آخری کڑی حضرت سیدنامحمد رسول اللہ ﷺ ہیں۔ اس طرح آپ کی تصدیق جملہ انبیاء ورسلؑ کی تصدیق ہے اور آپ کی تکذیب جملہ انبیاء ورسل ؑکی تکذیب ہے۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "ومناسبة الآیة للترجمة واضح من جهة ان صفة الوحي إلى نبینا ﷺ توافق صفة الوحي إلىٰ من تقدمه من النبیین."(فتح الباری:1؍9)
یعنی باب بدءالوحي کے انعقاد اور آیت ﴿إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ﴾ الآیة میں مناسبت اس طور پر واضح ہے کہ نبی کریم ﷺ پر وحی کا نزول قطعی طور پر اسی طرح ہے جس طرح آپ سے قبل تمام نبیوں رسولوں پر وحی کا نزول ہوتا رہا ہے۔ ذکر وحی کے بعد حضرت الامام نے الحدیث «إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ» کونقل فرمایا، اس کی بہت سی وجوہ ہیں۔ ان میں سے ایک وجہ یہ ظاہر کرنا بھی ہے کہ آنحضرت ﷺ کوخزانہ وحی سے جو کچھ بھی دولت نصیب ہوئی یہ سب آپ کی اس پاک نیت کا ثمرہ ہے جو آپ کو ابتداءعمر ہی سے حاصل تھی۔ آپ کا بچپن، جوانی، الغرض قبل نبوت کا سارا عرصہ نہایت پاکیزگی کے ساتھ گذرا۔ آخر میں آپ نے دنیا سے قطعی علیحدگی اختیار فرماکر غار حرا میں خلوت فرمائی۔ آخر آپ کی پاک نیت کا ثمرہ آپ کو حاصل ہوا اور خلعت رسالت سے آپ کونوازاگیا۔ روایت حدیث کے سلسلہ عالیہ میں حضرت الامام قدس سرہ نے امام حمیدی رحمہ اللہ سے اپنی سند کا افتتاح فرمایا۔ حضرت امام حمیدی رحمہ اللہ علم وفضل، حسب ونسب ہر لحاظ سے اس کے اہل تھے اس لیے کہ ان کی علمی وعملی جلالت شان کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کے اساتذہ میں سے ہیں، حسب ونسب کے لحاظ سے قریشی ہیں۔ ان کا سلسلہ نسب نبی کریمﷺ و حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ سے جا ملتا ہے ان کی کنیت ابوبکر، نام عبداللہ بن زبیربن عیسیٰ ہے، ان کے اجداد میں کوئی بزرگ حمید بن اسامہ نامی گذرے ہیں، ان کی نسبت سے یہ حمیدی مشہورہوئے۔ اس حدیث کوامام بخاری رحمہ اللہ حمیدی سے جو کہ مکی ہیں، لاکر یہ اشارہ فرما رہے ہیں کہ وحی کی ابتدا مکہ سے ہوئی تھی۔ حدیث «إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ» کی بابت علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "وهذا الحدیث أحد الأحادیث التي علیها مدار الإسلام و قال الشافعي وأحمد إنه یدخل فیه ثلث العلم ."(ارشاد الساري: 1/ 56-57) یعنی یہ حدیث ان احادیث میں سے ایک ہے جن پر اسلام کا دارومدارہے۔ امام شافعی اور احمد رحمہما اللہ جیسے اکابرامت نے صرف اس ایک حدیث کو علم دین کا تہائی یا نصف حصہ قرار دیا ہے۔ اسے حضرت عمر کے علاوہ اور بھی تقریباً بیس اصحاب کرام نے آنحضرت ﷺ سے نقل فرمایا ہے۔ بعض علماء نے اسے حدیث متواتر بھی قرار دیا ہے۔ اس کے راویوں میں سعد بن ابی وقاص، علی بن ابی طالب، ابوسعید خدری، عبداللہ بن مسعود، انس، عبداللہ بن عباس، ابوہریرہ، جابربن عبداللہ، معاویہ بن ابی سفیان، عبادۃ بن صامت، عتبہ بن عبدالسلمی، ہلال بن سوید، عقبہ بن عامر، ابوذر عقبہ بن المنذر، عقبہ بن مسلم اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابہ کرام کے اسمائے گرامی نقل کئے گئے ہیں۔ ( قسطلانی رحمہ اللہ) امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی جامع صحیح کو اس حدیث سے اس لیے شروع فرمایا کہ ہر نیک کام کی تکمیل کے لیے خلوص نیت ضروری ہے۔ احادیث نبوی کا جمع کرنا، ان کا لکھنا، ان کا پڑھنا، یہ بھی ایک نیک ترین عمل ہے، پس اس فن شریف کے حاصل کرنے والوں کے لیے آداب شرعیہ میں سے یہ ضروری ہے کہ اس علم شریف کو خالص دل کے ساتھ محض رضائے الٰہی ومعلومات سنن رسالت پناہی کے لیے حاصل کریں، کوئی غرض فاسد ہرگز درمیان میں نہ ہو۔ ورنہ یہ نیک عمل بھی اجروثواب کے لحاظ سے ان کے لیے مفید عمل نہ ہوسکے گا۔ جیسا کہ اس حدیث کے شان ورود سے ظاہر ہے کہ ایک شخص نے ایک عورت ام قیس نامی کو نکاح کا پیغام دیا تھا، اس نے جواب میں خبردی کہ آپ ہجرت کر کے مدینہ آجائیں تو شادی ہوسکتی ہے۔ چنانچہ وہ شخص اسی غرض سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچا اور اس کی شادی ہوگئی۔ دوسرے صحابہ کرام اس کو مہاجر ام قیس کہا کرتے تھے۔ اسی واقعہ سے متاثر ہوکر آنحضرت ﷺ نے یہ حدیث ارشاد فرمائی۔ حضرت امام قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "وأخرجه المؤلف في الإیمان والعتق والهجرة والنکاح والإیمان والنذور وترك الحیل ومسلم والترمذي والنسائي وابن ماجة وأحمد والدارقطني وابن حبان والبیهقي." یعنی امام بخاری رحمہ اللہ اپنی جامع صحیح میں اس حدیث کو یہاں کے علاوہ کتاب الایمان میں بھی لائے ہیں اور وہاں آپ نے یہ باب منعقد فرمایا ہے: (باب ماجاء إن الأعمال بالنیة والحسبة ولکل امرئ ما نوی) یہاں آپ نے اس حدیث سے استدلال فرمایا ہے کہ وضو، زکوۃ، حج، روزہ جملہ اعمال خیر کا اجراسی صورت میں حاصل ہوگا کہ خلوص نیت سے بغرض طلب ثواب ان کو کیاجائے۔ یہاں آپ نے استشہاد مزید کے لیے قرآنی آیت کریمہ ﴿قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَىٰ شَاكِلَتِهِ﴾ کونقل کرتے ہوئے بتلایا ہے کہ "شاکلته" سے نیت ہی مراد ہے۔ مثلاً کوئی شخص اپنے اہل وعیال پر بہ نیت ثواب خرچ کرتا ہے تویقیناً اسے ثواب حاصل ہوگا۔ تیسرے امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کو "کتاب العتق" میں لائے ہیں۔ چوتھے "باب الهجرة" میں پانچویں "کتاب النکاح" میں چھٹے "نذور" کے بیان میں۔ ساتویں "کتاب الحیل" میں۔ ہرجگہ اس حدیث کی نقل سے غرض یہ ہے کہ صحت اعمال و ثواب اعمال سب نیت ہی پر موقوف ہیں اور حدیث ہذا کا مفہوم بطور عموم ہر دوصورتوں کوشامل ہے۔ اس حدیث کے ذیل میں فقہاء شوافع صرف صحت اعمال کی تخصیص کرتے ہیں اور فقہاء احناف صرف ثواب اعمال کی۔ حضرت مولانا انورشاہ صاحب کشمیری رحمہ اللہ نے ان ہردو کی تغلیط فرماتے ہوئے امام المحدثین بخاری رحمہ اللہ ہی کے موقف کی تائید کی ہے کہ یہ حدیث ہر دوصورتوں کو شامل ہے۔ (دیکھو، أنوار الباری:1/ 16-17) نیت سے دل کا ارادہ مراد ہے۔ جو ہر فعل اختیاری سے پہلے دل میں پیدا ہوتا ہے، نماز، روزہ، وغیرہ کے لیے زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنا غلط ہے۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور دیگر اکابر امت نے تصریح کی ہے کہ زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنے کا ثبوت نہ خود رسول کریمﷺ سے ہے نہ صحابہ وتابعین رضوان اللہ علیہم اجمعین سے، لہٰذا زبان سے نیت کے الفاظ کا ادا کرنا محض ایجاد بندہ ہے جس کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔ آج کل ایک جماعت منکرین حدیث کی بھی پیدا ہوگئی ہے جو اپنی ہفوات کے سلسلے میں حضرت عمر کا اسم گرامی بھی استعمال کیا کرتے ہیں اور کہا کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ روایت حدیث کے خلاف تھے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی جامع صحیح کو حضرت عمرؓ کی روایت سے شروع فرمایا ہے۔ جس سے روزروشن کی طرح واضح ہو گیا کہ منکرین حدیث کا حضرت عمرؓ پر یہ الزام بالکل غلط ہے۔ حضرت عمرؓ خود احادیث نبوی کو روایت فرمایا کرتے تھے۔ ہاں صحت کے لیے آپ کی طرف سے احتیاط ضرور مدنظر تھا۔ اور یہ ہر عالم، امام، محدث کے سامنے ہونا ہی چاہیے۔ منکرین حدیث کو معلوم ہونا چاہیے کہ سیدنا حضرت عمر نے اپنے عہد خلافت میں احادیث نبوی کی نشرواشاعت کا غیرمعمولی اہتمام فرمایا تھا اور دنیائے اسلام کے گوشہ گوشہ میں ایسے جلیل القدر صحابہ کو اس غرض کے لیے روانہ فرمایا تھا، جن کی پختگی سیرت اور بلندی کردار کے علاوہ ان کی جلالت علمی تمام صحابہ میں مسلم تھی۔ جیسا کہ حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ ’’ازالة الخفاء‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں۔ جس کا ترجمہ یہ ہے : ’’فاروق اعظمؓ نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو ایک جماعت کے ساتھ کوفہ بھیجا۔ اور معقل بن یسارؓ وعبداللہ بن مغفلؓ وعمران بن حصینؓ کو بصرہ میں مقرر فرمایا اور عبادہ بن صامتؓ اور ابودرداءؓ کو شام روانہ فرمایا اور ساتھ ہی وہاں کے عمال کو لکھا کہ ان حضرات کو ترویج احادیث کے لیے مقرر کیا جاتا ہے۔ لہٰذا یہ حضرات جو حدیث بیان کریں ان سے ہرگز تجاوز نہ کیاجائے۔ معاویہ بن ابی سفیان جو اس وقت شام کے گورنر تھے ان کو خصوصیت کے ساتھ اس پر توجہ دلائی۔‘‘ حضرت عمرؓ 7نبوی میں ایمان لائے اور آپ کے مسلمان ہونے پر کعبہ شریف میں مسلمانوں نے نماز باجماعت ادا کی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ باطل کے مقابلہ پر حق سربلند ہوا۔ اسی وجہ سے آپ کو رسول کریم ﷺنے فاروق کا لقب عطا فرمایا۔ آپ بڑے نیک،عادل اور صائب الرائے تھے۔ رسول اللہ ﷺ آپ کی تعریف میں فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے عمرؓ کی زبان اور دل پر حق جاری کردیا ہے۔ 13 نبوی میں آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ حضرت ابوبکرؓ کے بعدخلافت اسلامیہ کوسنبھالا اور آپ کے دور میں فتوحات اسلامی کا سیلاب دوردور تک پہنچ گیا تھا۔ آپ ایسے مفکر اور ماہرسیاست تھے کہ آپ کا دور اسلامی حکومت کا زریں دور کہا جاتا ہے۔ مغیرہ بن شعبہ کے ایک پارسی غلام فیروز نامی نے آپ کے دربار میں اپنے آقا کی ایک غلط شکایت پیش کی تھی۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے اس پر توجہ نہ دی۔ مگروہ پارسی غلام ایسا برافروختہ ہوا کہ صبح کی نماز میں خنجر چھپا کر لے گیا اور نماز کی حالت میں آپ پر اس ظالم نے حملہ کردیا۔ اس کے تین دن بعد یکم محرم 24ھ کو آپ نے جام شہادت نوش فرمایا اور نبی اکرم ﷺ اور اپنے مخلص رفیق حضرت ابوبکر صدیق کے پہلو میں قیامت تک کے لیے سوگئے۔ (إنا للہ وإنا إلیه راجعون- اللهم اغفرلهم أجمعین۔ آمین۔)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Umar bin Al-Khattab (RA): I heard Allah's Apostle (ﷺ) saying, "The reward of deeds depends upon the intentions and every person will get the reward according to what he has intended. So whoever emigrated for worldly benefits or for a woman to marry, his emigration was for what he emigrated for."