Sahi-Bukhari:
Invoking Allah for Rain (Istisqaa)
(Chapter: Istisqa' (to invoke Allah for the rain) on the pulpit)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1015.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ جمعہ کے دن رسول اللہ ﷺ خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص آیا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! بارش نہیں ہو رہی، آپ اللہ سے دعا کریں کہ وہ ہم پر باران رحمت نازل فرمائے۔ آپ نے دعا فرمائی تو ہم پر بارش برسنے لگی، ہم بڑی مشکل سے اپنے گھروں کو پہنچے، چنانچہ آئندہ جمعہ تک ہم پر بارش برستی رہی۔ حضرت انس ؓ نے فرمایا کہ (اگلے جمعے) وہی شخص یا کوئی دوسرا کھڑا ہوا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! اللہ سے دعا کریں کہ ہم سے بارش روک لے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے دعا فرمائی: ’’اے اللہ! ہمارے ارد گرد بارش ہو ہم پر نہ ہو۔‘‘ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ میں نے بادل کو چھٹ کر دائیں بائیں جاتے دیکھا، پھر دوسرے لوگوں پر تو بارش ہوتی رہی لیکن اہل مدینہ پر نہیں ہو رہی تھی۔
تشریح:
(1) مالکیہ کا موقف ہے کہ منبر پر بارش کی دعا کرنا تضرع اور انکسار کے خلاف ہے جو اس موقع پر درکار ہوتا ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس کا جواز ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسا کیا ہے۔ اگرچہ اس حدیث میں منبر کی صراحت نہیں، تاہم خطبۂ جمعہ کے لیے منبر ہوتا تھا، اس لیے دوران خطبہ میں بارش کی دعا بھی منبر ہی پر کی گئی۔ علاوہ ازیں ایک حدیث میں صراحت بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ منبر پر فروکش ہوئے، لوگوں کو وعظ و نصیحت کی اور دعا مانگی۔ (سنن أبي داود، صلاة الاستسقاء، حدیث:1173) (2) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت انس ؓ کو آئندہ جمعہ کھڑے ہو کر عرض کرنے والے شخص کے متعلق شک تھا کہ یہ وہی پہلا شخص ہے یا کوئی اور۔ اس سے قبل حدیث میں راوئ حدیث شریک کے سوال کرنے پر انہوں نے اسی شک کا اظہار کیا لیکن مسند ابی عوانہ کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت انس ؓ نے فرمایا: وہی شخص آئندہ جمعہ کو کھڑا ہوا۔ شاید حضرت انس ؓ بھول کا شکار ہو گئے ہوں۔ امام بیہقی ؒ کی بیان کردہ ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضرت خارجہ بن حصن ؓ تھے جو حضرت عیینہ بن حصن کے بھائی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ جب غزوۂ تبوک سے واپس لوٹے تو حضرت خارجہ کی سربراہی میں بنو فزارہ کا ایک وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے بارانِ رحمت طلب کرنے کی اپیل کی تھی۔ (فتح الباري:651/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1000
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1015
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1015
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1015
تمہید کتاب
استسقا، کے لغوی معنی پانی مانگنا ہیں۔ اصطلاحی طور پر قحط سالی کے وقت اللہ تعالیٰ سے ایک مخصوص طریقے سے باران رحمت کی دعا کرنا استسقاء کہلاتا ہے، اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی اور بندوں کے عجز و انکسار، نیز ان کے لباس میں سادگی کا خصوصی اہتمام ہونا چاہیے۔ مختلف احادیث کے پیش نظر مندرجہ ذیل چیزوں کو اس میں مدنظر رکھا جائے: ٭ قحط سالی کے وقت لوگوں کو نہایت تضرع اور خشوع کے ساتھ باہر کھلے میدان میں جانا چاہیے۔ وہاں اذان و اقامت کے بغیر دو رکعت جہری قراءت سے باجماعت ادا کی جائیں۔ ٭ نماز سے پہلے یا بعد میں خطبہ دیا جائے جو وعظ و نصیحت اور دعا و مناجات پر مشتمل ہو۔ ٭ اس دوران میں دعا کرنا مسنون عمل ہے لیکن اس کے لیے الٹے ہاتھ آسمان کی جانب اٹھائے جائیں۔ ٭ آخر میں امام کو چاہیے کہ وہ قبلہ رو ہو کر اپنی چادر کو اس طرح پلٹے کہ اس کا دایاں حصہ بائیں جانب اور بایاں دائیں جانب ہو جائے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ہماری رہنمائی کے لیے خصوصی طور پر عنوان بندی کا اہتمام کیا ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں چالیس (40) احادیث بیان کی ہیں جن میں نو (9) معلق اور باقی موصول ہیں، نیز ستائیس (27) احادیث مقرر اور سترہ (17) خالص ہیں۔ ان میں چھ (6) کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ دو آثار بھی اس عنوان کے تحت بیان کیے گئے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر انتیس (29) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے ہماری رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ واضح رہے کہ ان عنوانات کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے مشرکین کے خلاف بددعا کرنے کا ذکر بھی بطور خاص فرمایا ہے، حالانکہ اس کا تعلق استسقاء سے نہیں۔ وہ اس لیے کہ مخالف اشیاء سے اصل اشیاء کی قدروقیمت معلوم ہوتی ہے، یعنی جب بددعا کی جا سکتی ہے جو شانِ رحمت کے خلاف ہے تو بارانِ رحمت کے لیے دعا کا اہتمام بدرجۂ اولیٰ جائز ہونا چاہیے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس اصول کو اپنی صحیح میں بکثرت استعمال کیا ہے جیسا کہ کتاب الایمان میں کفرونفاق کے مسائل ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کتاب میں استسقاء کے علاوہ مسائل بھی بیان کیے ہیں جن کا اس سے گونہ تعلق ہے، مثلاً: بارش کے وقت کیا کہا جائے یا کیا جائے؟ جب تیز ہوا چلے تو کیا کرنا چاہیے؟ زلزلے اور اللہ کی طرف سے دیگر نشانیاں دیکھ کر ہمارا ردعمل کیا ہو؟ آخر میں عقیدے کا مسئلہ بھی بیان فرمایا کہ بارش آنے کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ استسقاء کے عام طور پر تین طریقے ہیں: ٭ مطلقاً بارش کی دعا کی جائے۔ ٭ نفل اور فرض نماز، نیز دوران خطبۂ جمعہ میں دعا مانگی جائے۔ ٭ باہر میدان میں دو رکعت ادا کی جائیں اور خطبہ دیا جائے، پھر دعا کی جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بارش کے لیے ہو سہ طریقوں کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام کو چاہیے کہ صحیح بخاری اور اس سے متعلقہ فوائد کا مطالعہ کرتے وقت ہماری پیش کردہ ان تمہیدی گزارشات کو پیش نظر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی عظمت و جلالت اور آپ کے حسن انتخاب کی قدروقیمت معلوم ہو۔ والله يقول الحق ويهدي من يشاء الي صراط مستقيم
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ جمعہ کے دن رسول اللہ ﷺ خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص آیا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! بارش نہیں ہو رہی، آپ اللہ سے دعا کریں کہ وہ ہم پر باران رحمت نازل فرمائے۔ آپ نے دعا فرمائی تو ہم پر بارش برسنے لگی، ہم بڑی مشکل سے اپنے گھروں کو پہنچے، چنانچہ آئندہ جمعہ تک ہم پر بارش برستی رہی۔ حضرت انس ؓ نے فرمایا کہ (اگلے جمعے) وہی شخص یا کوئی دوسرا کھڑا ہوا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! اللہ سے دعا کریں کہ ہم سے بارش روک لے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے دعا فرمائی: ’’اے اللہ! ہمارے ارد گرد بارش ہو ہم پر نہ ہو۔‘‘ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ میں نے بادل کو چھٹ کر دائیں بائیں جاتے دیکھا، پھر دوسرے لوگوں پر تو بارش ہوتی رہی لیکن اہل مدینہ پر نہیں ہو رہی تھی۔
حدیث حاشیہ:
(1) مالکیہ کا موقف ہے کہ منبر پر بارش کی دعا کرنا تضرع اور انکسار کے خلاف ہے جو اس موقع پر درکار ہوتا ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس کا جواز ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسا کیا ہے۔ اگرچہ اس حدیث میں منبر کی صراحت نہیں، تاہم خطبۂ جمعہ کے لیے منبر ہوتا تھا، اس لیے دوران خطبہ میں بارش کی دعا بھی منبر ہی پر کی گئی۔ علاوہ ازیں ایک حدیث میں صراحت بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ منبر پر فروکش ہوئے، لوگوں کو وعظ و نصیحت کی اور دعا مانگی۔ (سنن أبي داود، صلاة الاستسقاء، حدیث:1173) (2) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت انس ؓ کو آئندہ جمعہ کھڑے ہو کر عرض کرنے والے شخص کے متعلق شک تھا کہ یہ وہی پہلا شخص ہے یا کوئی اور۔ اس سے قبل حدیث میں راوئ حدیث شریک کے سوال کرنے پر انہوں نے اسی شک کا اظہار کیا لیکن مسند ابی عوانہ کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت انس ؓ نے فرمایا: وہی شخص آئندہ جمعہ کو کھڑا ہوا۔ شاید حضرت انس ؓ بھول کا شکار ہو گئے ہوں۔ امام بیہقی ؒ کی بیان کردہ ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضرت خارجہ بن حصن ؓ تھے جو حضرت عیینہ بن حصن کے بھائی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ جب غزوۂ تبوک سے واپس لوٹے تو حضرت خارجہ کی سربراہی میں بنو فزارہ کا ایک وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے بارانِ رحمت طلب کرنے کی اپیل کی تھی۔ (فتح الباري:651/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابو عوانہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص آیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! پانی کا قحط پڑ گیا ہے، اللہ سے دعا کیجئے کہ ہمیں سیراب کر دے۔ آپ نے دعا کی اور بارش اس طرح شروع ہوئی کہ گھروں تک پہنچنا مشکل ہو گیا، دوسرے جمعہ تک برابر بارش ہوتی رہی۔ انس نے کہا کہ پھر (دوسرے جمعہ میں) وہی شخص یا کوئی اور کھڑا ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ﷺ دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ بارش کا رخ کسی اور طرف موڑ دے۔ رسول اللہ ﷺ نے دعا فرمائی کہ اے اللہ ہمارے ارد گرد بارش برسا ہم پر نہ برسا۔ انس نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ بادل ٹکڑے ٹکڑے ہو کر دائیں بائیں طرف چلے گئے پھروہاں بارش شروع ہو گئی اور مدینہ میں اس کاسلسلہ بند ہوا۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں بظاہر منبر کا ذکر نہیں ہے آپ ﷺ کے خطبہ جمعہ کا ذکر ہے جو آپ منبر ہی پر دیا کرتے تھے کہ اس سے منبر ثابت ہو گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Qatada (RA): Anas (RA) I said, "While Allah's Apostle (ﷺ) was delivering the Friday Khutba (sermon) a man came and said, 'O Allah's Apostle (ﷺ) ! Rain is scarce; please ask Allah to bless us with rain.' So he invoked Allah for it, and it rained so much that we could hardly reach our homes and it continued raining till the next Friday." Anas (RA) further said, "Then the same or some other person stood up and said, 'O Allah's Apostle (ﷺ) ! Invoke Allah to withhold the rain.' On that, Allah's Apostle (ﷺ) I said, 'O Allah! Round about us and not on us.' “ Anas (RA) added, "I saw the clouds dispersing right and left and it continued to rain but not over Medina."