باب: اس بارے میں کہ اگر قحط میں مشرکین مسلمانوں سے دعا کی درخواست کریں؟
)
Sahi-Bukhari:
Invoking Allah for Rain (Istisqaa)
(Chapter: If Al-Mushrikun intercede the Muslim to invoke Allah for rain during drought)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1020.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب قریش نے اسلام قبول کرنے میں تاخیر کی تو نبی ﷺ نے ان کے خلاف بددعا فرمائی۔ اس کے بعد انہیں خشک سالی اور قحط نے آ لیا حتی کہ وہ ہلاک ہونے لگے اور مردار اور ہڈیاں وغیرہ کھانے پر مجبور ہو گئے۔ اس دوران میں ابوسفیان آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا: محمد! آپ (لوگوں کو تو) صلہ رحمی کا حکم کرتے ہیں، لیکن آپ کی اپنی قوم تباہ ہو رہی ہے، اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں، رسول اللہ ﷺ نے یہ آیات پڑھیں: ’’اس دن کا انتظار کرو جب آسمان پر نمایاں دھواں چھا جائے گا۔‘‘ پھر وہ (قریش) کفر کی طرف لوٹ گئے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’جس روز انہیں بری طرح سخت انداز میں پکڑیں گے۔‘‘ یعنی بدر کے دن۔ (راوی حدیث) اسباط نے اپنے شیخ منصور سے بیان کرتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے دعا فرمائی تو ان پر بارش ہوئی، پھر سات دن بارش ہوتی رہی۔ آخر کار لوگوں نے کثرت بارش کی شکایت کی تو آپ نے دعا فرمائی: ’’اے اللہ! ہمارے اردگرد بارش ہو، ہم پر نہ برسے۔‘‘ چنانچہ بادل آپ کے سر مبارک سے چھٹ گیا اور اردگرد لوگوں پر خوب بارش ہوئی۔
تشریح:
(1) ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَا أَرْسَلْنَا فِي قَرْيَةٍ مِّن نَّبِيٍّ إِلَّا أَخَذْنَا أَهْلَهَا بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَضَّرَّعُونَ ﴿٩٤﴾ ﴿ثُمَّ بَدَّلْنَا مَكَانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ حَتَّىٰ عَفَوا وَّقَالُوا قَدْ مَسَّ آبَاءَنَا الضَّرَّاءُ وَالسَّرَّاءُ فَأَخَذْنَاهُم بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ ﴿٩٥﴾’’ہم نے جب بھی کسی بستی میں کوئی نبی بھیجا تو وہاں کے باشندوں کو شدت اور تکلیف میں مبتلا کر دیا تاکہ وہ عاجزی کی روش اختیار کریں۔ پھر ہم نے ان کی بدحالی کو خوش حالی میں بدل دیا یہاں تک کہ وہ خوب پھلے پھولے اور کہنے لگے اچھے اور برے دن تو ہمارے آباء و اجداد پر بھی آتے رہے ہیں۔ پھر یکدم ہم نے انہیں پکڑ لیا اور انہیں خبر تک نہ ہوئی۔‘‘(الأعراف95،94:7) ان دو آیات میں اللہ تعالیٰ کے عذاب کی وہی سنت جاریہ بیان کی گئی ہے جس کا ذکر مذکورہ حدیث میں ہے کہ جب کوئی قوم مجموعی طور پر اپنے نبی کی دعوت کو ٹھکرا دیتی ہے تو اللہ کی طرف سے ان پر ہلکا پھلکا عذاب بھیجا جاتا ہے، جیسے قحط سالی، وبائی امراض اور مہنگائی وغیرہ۔ یہ عذاب ان کے لیے ایک تنبیہ کا درجہ رکھتا ہے۔ جب قوم اس کا اثر قبول نہیں کرتی تو خوشحالی سے اس قوم کی آزمائش ہوتی ہے۔ ان کے رزق اور افرادی قوت میں خوب اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ جب وہ اس میں مگن ہو جاتے تو اچانک اللہ کا عذاب انہیں دبوچ لیتا ہے۔ اس حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے قریش کے متعلق اسی قانون الٰہی کو بیان کیا ہے۔ (2) ایک روایت میں ہے کہ جب ان سے عذاب ٹل گیا اور خوشحالی آ گئی تو انہوں نے دوبارہ اسی روش کو اپنا لیا جس پر وہ پہلے تھے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4821) (3) بعض حضرات نے راوئ حدیث اسباط بن نصر کے بیان کردہ اضافے کو مدینہ منورہ سے متعلق قرار دیا ہے، لیکن ان کا یہ موقف صحیح نہیں۔ اگرچہ مدینہ منورہ میں بھی اس قسم کے حالات پیدا ہوئے تھے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ صحیح بخاری کی اس روایت کو وہم قرار دیا جائے۔ (فتح الباري:659/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1005
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1020
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1020
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1020
تمہید کتاب
استسقا، کے لغوی معنی پانی مانگنا ہیں۔ اصطلاحی طور پر قحط سالی کے وقت اللہ تعالیٰ سے ایک مخصوص طریقے سے باران رحمت کی دعا کرنا استسقاء کہلاتا ہے، اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی اور بندوں کے عجز و انکسار، نیز ان کے لباس میں سادگی کا خصوصی اہتمام ہونا چاہیے۔ مختلف احادیث کے پیش نظر مندرجہ ذیل چیزوں کو اس میں مدنظر رکھا جائے: ٭ قحط سالی کے وقت لوگوں کو نہایت تضرع اور خشوع کے ساتھ باہر کھلے میدان میں جانا چاہیے۔ وہاں اذان و اقامت کے بغیر دو رکعت جہری قراءت سے باجماعت ادا کی جائیں۔ ٭ نماز سے پہلے یا بعد میں خطبہ دیا جائے جو وعظ و نصیحت اور دعا و مناجات پر مشتمل ہو۔ ٭ اس دوران میں دعا کرنا مسنون عمل ہے لیکن اس کے لیے الٹے ہاتھ آسمان کی جانب اٹھائے جائیں۔ ٭ آخر میں امام کو چاہیے کہ وہ قبلہ رو ہو کر اپنی چادر کو اس طرح پلٹے کہ اس کا دایاں حصہ بائیں جانب اور بایاں دائیں جانب ہو جائے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ہماری رہنمائی کے لیے خصوصی طور پر عنوان بندی کا اہتمام کیا ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں چالیس (40) احادیث بیان کی ہیں جن میں نو (9) معلق اور باقی موصول ہیں، نیز ستائیس (27) احادیث مقرر اور سترہ (17) خالص ہیں۔ ان میں چھ (6) کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ دو آثار بھی اس عنوان کے تحت بیان کیے گئے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر انتیس (29) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے ہماری رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ واضح رہے کہ ان عنوانات کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے مشرکین کے خلاف بددعا کرنے کا ذکر بھی بطور خاص فرمایا ہے، حالانکہ اس کا تعلق استسقاء سے نہیں۔ وہ اس لیے کہ مخالف اشیاء سے اصل اشیاء کی قدروقیمت معلوم ہوتی ہے، یعنی جب بددعا کی جا سکتی ہے جو شانِ رحمت کے خلاف ہے تو بارانِ رحمت کے لیے دعا کا اہتمام بدرجۂ اولیٰ جائز ہونا چاہیے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس اصول کو اپنی صحیح میں بکثرت استعمال کیا ہے جیسا کہ کتاب الایمان میں کفرونفاق کے مسائل ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کتاب میں استسقاء کے علاوہ مسائل بھی بیان کیے ہیں جن کا اس سے گونہ تعلق ہے، مثلاً: بارش کے وقت کیا کہا جائے یا کیا جائے؟ جب تیز ہوا چلے تو کیا کرنا چاہیے؟ زلزلے اور اللہ کی طرف سے دیگر نشانیاں دیکھ کر ہمارا ردعمل کیا ہو؟ آخر میں عقیدے کا مسئلہ بھی بیان فرمایا کہ بارش آنے کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ استسقاء کے عام طور پر تین طریقے ہیں: ٭ مطلقاً بارش کی دعا کی جائے۔ ٭ نفل اور فرض نماز، نیز دوران خطبۂ جمعہ میں دعا مانگی جائے۔ ٭ باہر میدان میں دو رکعت ادا کی جائیں اور خطبہ دیا جائے، پھر دعا کی جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بارش کے لیے ہو سہ طریقوں کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام کو چاہیے کہ صحیح بخاری اور اس سے متعلقہ فوائد کا مطالعہ کرتے وقت ہماری پیش کردہ ان تمہیدی گزارشات کو پیش نظر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی عظمت و جلالت اور آپ کے حسن انتخاب کی قدروقیمت معلوم ہو۔ والله يقول الحق ويهدي من يشاء الي صراط مستقيم
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان میں وضاحت نہیں کی کہ ایسے حالات میں امام کو کیا کرنا چاہیے۔ اس میں تفصیل ہے کہ اگر امام کو ان کے متعلق امید ہو کہ باطل سے ہٹ کر حق قبول کریں گے تو ان کے لیے بارش کی دعا کرے اور اگر حسد و عناد کی وجہ سے ان کے متعلق یہ امید نہ ہو تو ان کی تباہی کے لیے بددعا کرے جیسا کہ دیگر احادیث میں اس کی وضاحت ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب قریش نے اسلام قبول کرنے میں تاخیر کی تو نبی ﷺ نے ان کے خلاف بددعا فرمائی۔ اس کے بعد انہیں خشک سالی اور قحط نے آ لیا حتی کہ وہ ہلاک ہونے لگے اور مردار اور ہڈیاں وغیرہ کھانے پر مجبور ہو گئے۔ اس دوران میں ابوسفیان آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا: محمد! آپ (لوگوں کو تو) صلہ رحمی کا حکم کرتے ہیں، لیکن آپ کی اپنی قوم تباہ ہو رہی ہے، اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں، رسول اللہ ﷺ نے یہ آیات پڑھیں: ’’اس دن کا انتظار کرو جب آسمان پر نمایاں دھواں چھا جائے گا۔‘‘ پھر وہ (قریش) کفر کی طرف لوٹ گئے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’جس روز انہیں بری طرح سخت انداز میں پکڑیں گے۔‘‘ یعنی بدر کے دن۔ (راوی حدیث) اسباط نے اپنے شیخ منصور سے بیان کرتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے دعا فرمائی تو ان پر بارش ہوئی، پھر سات دن بارش ہوتی رہی۔ آخر کار لوگوں نے کثرت بارش کی شکایت کی تو آپ نے دعا فرمائی: ’’اے اللہ! ہمارے اردگرد بارش ہو، ہم پر نہ برسے۔‘‘ چنانچہ بادل آپ کے سر مبارک سے چھٹ گیا اور اردگرد لوگوں پر خوب بارش ہوئی۔
حدیث حاشیہ:
(1) ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَا أَرْسَلْنَا فِي قَرْيَةٍ مِّن نَّبِيٍّ إِلَّا أَخَذْنَا أَهْلَهَا بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَضَّرَّعُونَ ﴿٩٤﴾ ﴿ثُمَّ بَدَّلْنَا مَكَانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ حَتَّىٰ عَفَوا وَّقَالُوا قَدْ مَسَّ آبَاءَنَا الضَّرَّاءُ وَالسَّرَّاءُ فَأَخَذْنَاهُم بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ ﴿٩٥﴾’’ہم نے جب بھی کسی بستی میں کوئی نبی بھیجا تو وہاں کے باشندوں کو شدت اور تکلیف میں مبتلا کر دیا تاکہ وہ عاجزی کی روش اختیار کریں۔ پھر ہم نے ان کی بدحالی کو خوش حالی میں بدل دیا یہاں تک کہ وہ خوب پھلے پھولے اور کہنے لگے اچھے اور برے دن تو ہمارے آباء و اجداد پر بھی آتے رہے ہیں۔ پھر یکدم ہم نے انہیں پکڑ لیا اور انہیں خبر تک نہ ہوئی۔‘‘(الأعراف95،94:7) ان دو آیات میں اللہ تعالیٰ کے عذاب کی وہی سنت جاریہ بیان کی گئی ہے جس کا ذکر مذکورہ حدیث میں ہے کہ جب کوئی قوم مجموعی طور پر اپنے نبی کی دعوت کو ٹھکرا دیتی ہے تو اللہ کی طرف سے ان پر ہلکا پھلکا عذاب بھیجا جاتا ہے، جیسے قحط سالی، وبائی امراض اور مہنگائی وغیرہ۔ یہ عذاب ان کے لیے ایک تنبیہ کا درجہ رکھتا ہے۔ جب قوم اس کا اثر قبول نہیں کرتی تو خوشحالی سے اس قوم کی آزمائش ہوتی ہے۔ ان کے رزق اور افرادی قوت میں خوب اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ جب وہ اس میں مگن ہو جاتے تو اچانک اللہ کا عذاب انہیں دبوچ لیتا ہے۔ اس حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے قریش کے متعلق اسی قانون الٰہی کو بیان کیا ہے۔ (2) ایک روایت میں ہے کہ جب ان سے عذاب ٹل گیا اور خوشحالی آ گئی تو انہوں نے دوبارہ اسی روش کو اپنا لیا جس پر وہ پہلے تھے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4821) (3) بعض حضرات نے راوئ حدیث اسباط بن نصر کے بیان کردہ اضافے کو مدینہ منورہ سے متعلق قرار دیا ہے، لیکن ان کا یہ موقف صحیح نہیں۔ اگرچہ مدینہ منورہ میں بھی اس قسم کے حالات پیدا ہوئے تھے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ صحیح بخاری کی اس روایت کو وہم قرار دیا جائے۔ (فتح الباري:659/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے، انہوں نے بیان کیا کہ ہم سے منصور اور اعمش نے بیان کیا، ان سے ابوالضحی ٰ نے، ان سے مسروق نے، آپ نے کہا کہ میں ابن مسعود ؓ کی خدمت میں حاضر تھا۔ آپ نے فرمایا کہ قریش کا اسلام سے اعراض بڑھتا گیا تو نبی کریم ﷺ نے ان کے حق میں بددعا کی۔ اس بددعا کے نتیجے میں ایسا قحط پڑا کہ کفار مرنے لگے اور مردار اور ہڈیاں کھانے لگے۔ آخر ابو سفیان آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا اے محمد! (ﷺ) آپ صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں لیکن آپ کی قوم مر رہی ہے۔ اللہ عزوجل سے دعا کیجئے۔ آپ نے اس آیت کی تلاوت کی (ترجمہ) اس دن کا انتظار کر جب آسمان پر صاف کھلا ہوا دھواں نمودار ہوگا الآیہ (خیر آپ نے دعا کی بارش ہوئی قحط جاتا رہا) لیکن وہ پھر کفر کر نے لگے اس پر اللہ پاک کا یہ فرمان نازل ہوا (ترجمہ) جس دن ہم انہیں سختی کے ساتھ پکڑ کریں گے۔ اور یہ پکڑ بدر کی لڑائی میں ہوئی اور اسباط بن محمد نے منصور سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے دعائے استسقاء کی (مدینہ میں) جس کے نتیجہ میں خوب بارش ہوئی کہ سات دن تک وہ برابر جاری رہی۔ آخر لوگوں نے بارش کی زیادتی کی شکایت کی تو حضور اکرم نے دعا کی کہ اے اللہ! ہمارے اطراف وجوانب میں بارش برسا، مدینہ میں بارش کا سلسلہ ختم کر۔ چنانچہ بادل آسمان سے چھٹ گیا اور مدینہ کے ارد گرد خوب بارش ہوئی۔
حدیث حاشیہ:
شروع میں جو واقعہ بیان ہوا، اس کاتعلق مکہ سے ہے۔ کفار کی سرکشی اور نافرمانی سے عاجز آکر حضور اکرم ﷺ نے جب بد دعا کی اور اس کے نتیجہ میں سخت قحط پڑا تو ابو سفیان جو ابھی تک کافر تھے، حاضر خدمت ہوئے اور کہا کہ آپ صلہ رحمی کاحکم دیتے ہیں۔ لیکن خود اپنی قوم کے حق میں اتنی سخت بددعا کردی۔ اب کم از کم آپ کو دعا کرنی چاہیے کہ قوم کی یہ پریشانی دور ہو۔حدیث میں اس کی تصریح نہیں ہے کہ آپ نے ان کے حق میں دوبارہ دعا فرمائی لیکن حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے دعا کی تھی جبھی تو قحط کا سلسلہ ختم ہوا لیکن قوم کی سرکشی برابرجاری رہی اور پھر یہ آیت نازل ہوئی ﴿یَومَ نَبطِشُ البَطشَة الکُبرٰی﴾(الدخان:16) یہ بطش کبریٰ بدر کی لڑائی میں وقوع پزیر ہوئی۔جب قریش کے بہترین افراد لڑائی میں کام آئے اور انہیں بری طرح پسپا ہونا پڑا۔ دمیاطی نے لکھا ہے کہ سب سے پہلے بد دعا حضور اکرم ﷺ نے اس وقت کی تھی جب کفار نے حرم میں سجدہ کی حالت میں آپ پر اوجھڑی ڈال دی تھی اور پھر خوب اس ’’کارنامے‘‘ پر خوش ہوئے اور قہقہے لگائے تھے۔ قوم کی سرکشی اور فساد اس درجہ بڑھ گیا تو حضور اکرم ﷺ جیسے حلیم الطبع اور بردبار اور صابر نبی کی زبان سے بھی بد دعا نکل گئی۔ جب ایمان لانے کی کسی درجہ میں بھی امید نہیں ہوتی بلکہ قوم کا وجود دنیا میں صرف شر وفساد کا باعث بن کر رہ جاتا ہے تو اس شرکو ختم کرنے کی آخری تدبیر بد دعا ہے۔ حضور اکرم ﷺ کی زبان مبارک سے پھر بھی کبھی بھی ایسی بد دعا نہیں نکلی جو ساری قوم کی تباہی کا باعث ہوتی کیونکہ عرب کے اکثر افراد کا ایمان مقدر تھا۔ اس روایت میں اسباط کے واسطہ سے جو حصہ بیان ہوا ہے اس کا تعلق مکہ سے نہیں بلکہ مدینہ سے ہے۔ اسباط نے منصور کے واسطے سے جو حدیث نقل کی ہے اس کی تفصیل اس سے پہلے متعدد ابواب میں گزر چکی ہے۔ مصنف ؒ نے دو حدیثوں کو ملا کر ایک جگہ بیان کر دیا، یہ خلط کسی راوی کا نہیں بلکہ جیسا کہ دمیاطی نے کہا ہے خود مصنف رحمہ اللہ کا ہے۔ (تفہیم البخاری) پیغمبروں کی شخصیت بہت ہی ارفع واعلی ہوتی ہے، وہ ہر مشکل کو ہر دکھ کو ہنس کر برداشت کر لیتے ہیں مگر جب قو م کی سر کشی حد سے گزر نے لگے اور وہ ان کی ہدایت سے مایوس ہو جائیں تو وہ اپنا آخری ہتھیار بد دعا بھی استعمال کر لیتے ہیں۔ قرآن مجید میں ایسے مواقع پر بہت سے نبیوں کی دعائیں منقول ہیں۔ ہمارے سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ نے بھی مایوس کن مواقع پر بد دعا کی ہے جن کے نتائج بھی فوراً ہی ظاہر ہوئے ان ہی میں سے ایک یہ واقعہ مذکورہ بھی ہے۔ (واللہ أعلم )
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Masruq (RA): One day I went to Ibn Masud who said, "When Quraish delayed in embracing Islam, the Prophet (ﷺ) I invoked Allah to curse them, so they were afflicted with a (famine) year because of which many of them died and they ate the carcasses and Abu Sufyan (RA) came to the Prophet (ﷺ) and said, ' O Muhammad (ﷺ) ! You came to order people to keep good relation with kith and kin and your nation is being destroyed, so invoke Allah I? So the Prophet (ﷺ) I recited the Holy verses of Sirat-Ad-Dukhan: 'Then watch you for the day that the sky will bring forth a kind of smoke plainly visible.' (44.10) when the famine was taken off, the people renegade once again as nonbelievers. The statement of Allah, (in Sura "Ad-Dukhan"-44) refers to that: 'On the day when we shall seize you with a mighty grasp.' (44.16) and that was what happened on the day of the battle of Badr." Asbath added on the authority of Mansur, "Allah's Apostle (ﷺ) prayed for them and it rained heavily for seven days. So the people complained of the excessive rain. The Prophet (ﷺ) said, 'O Allah! (Let it rain) around us and not on us.' So the clouds dispersed over his head and it rained over the surroundings."