Sahi-Bukhari:
Eclipses
(Chapter: To prolong the prostrations in the eclipse Salat)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1051.
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں سورج گرہن ہوا تو الصلاة جامعة کا اعلان کیا گیا۔ نبی ﷺ نے اس نماز میں ایک رکعت کے اندر دو رکوع کیے، پھر آپ کھڑے ہوئے تو دوسری رکعت میں بھی دو رکوع کیے اس کے بعد آپ تشہد میں بیٹھے یہاں تک کہ سورج صاف ہو گیا۔ راوی حدیث (حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ) کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: میں نے کبھی بھی اس سے زیادہ لمبا سجدہ نہیں کیا۔
تشریح:
بعض حضرات کا موقف ہے کہ نماز کسوف میں صرف ان ارکان کو لمبا کیا جائے جن میں تکرار ہے، مثلاً: قیام اور رکوع وغیرہ، لیکن سجدے میں تکرار نہیں ہوتا، لہذا اسے لمبا نہیں کرنا چاہیے، نیز قیام و رکوع میں تو سورج کے صحیح ہونے کو دیکھا جا سکتا ہے لیکن سجدے میں یہ ممکن نہیں۔ اس کے علاوہ سجدے کی حالت میں جوڑ ڈھیلے پڑ جاتے ہیں، اس لیے اسے طویل نہیں کرنا چاہیے۔ امام بخاری ؒ نے اس موقف سے اختلاف کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ نماز کسوف میں قیام و رکوع کی طرح سجدہ بھی لمبا کرنا چاہیے۔ جیسا کہ روایات میں صراحت کے ساتھ آیا ہے۔ صریح نص کے مقابلے میں قیاس وغیرہ کی کوئی حیثیت نہیں۔ صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے رکوع کی طرح اپنے سجدوں کو بھی طویل کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ نماز کسوف میں جملہ ارکان کو لمبا کرنا چاہیے۔ (فتح الباري:695/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1034
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1051
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1051
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1051
تمہید کتاب
لفظ کسوف یا انکساف کے لغوی معنی آفتاب یا ماہتاب کا گہن زدہ ہونا ہیں اور خسوف یا انخساف بھی اس معنی میں مستعمل ہے۔ بعض اہل لغت کے نزدیک سورج گہن کے لیے کسوف اور چاند گہن کے لیے لفظ خسوف استعمال کرنا زیادہ بہتر ہے۔ فقہاء کے نزدیک سورج اور چاند کی روشنی بالکل ختم ہو جانے یا روشنی کا کچھ حصہ چلے جانے پر کسوف اور خسوف کا اطلاق ہوتا ہے لیکن کچھ حضرات فرق کرتے ہیں کہ خسوف اس وقت بولتے ہیں جب چاند اور سورج کی روشنی ختم ہو جائے اگر صرف رنگ تبدیل ہو تو اسے کسوف کہتے ہیں۔ سورج یا چاند گہن کے وقت مخصوص طریقے سے جو نماز ادا کی جاتی ہے اسے نماز کسوف کہا جاتا ہے۔ ماہرین فلکیات کے نزدیک کسوف شمس کی کوئی حقیقت نہیں۔ ان کے نزدیک سورج میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں آتی، البتہ کبھی کبھی زمین اور سورج کے درمیان چاند حائل ہو جاتا ہے تو اس کی روشنی بالکل ختم یا کم ہو جاتی ہے لیکن جب سورج اور چاند کے درمیان زمین حائل ہو جاتی ہے تو چاند کی روشنی بالکل باقی نہیں رہتی۔ ہمارے نزدیک سائنسی توجیہات سے قطع نظر اس کا مقصد تخویف، یعنی لوگوں کو ڈرانا ہے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ کبھی کبھی اپنی قدرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں بے نور کر دیتا ہے۔سائنس دانوں کی بات صحیح بھی ہو تو تخویف کے منافی نہیں جیسا کہ زلزلہ، زمین کے نیچے کسی کیمیائی تبدیلی کی وجہ سے ہوتا ہے لیکن تمام لوگ اس سے ڈرتے ہیں۔ جب آیات الٰہیہ میں تبدیلی آتی ہے تو نفوس انسانیہ پر اس کا اثر ظاہر ہوتا ہے۔ لوگ دنیا سے کٹ کر ذکر الٰہی میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ یہ حالت مومن کے لیے بڑی باعث غنیمت ہے کہ وہ نماز اور دعا میں مصروف رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ٹھیک اس دن سورج گہن ہوا جب آپ کے لخت جگر حضرت ابراہیم علیہ السلام دنیا سے رخصت ہوئے۔ جمہور اہل سیر کا قول ہے کہ حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کا انتقال 10 ہجری میں ہوا جبکہ آپ غزوۂ تبوک سے واپس آئے تھے۔ گزشتہ صدی کے ماہر فلکیات محمود پاشا نے اپنی فنی تحقیق سے اس کسوف کی تاریخ 29 شوال 10 ہجری بروز سوموار بوقت ساڑھے آٹھ بجے لکھی ہے۔ یہ گہن کئی گھنٹے جاری رہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب نمازوں سے زیادہ طویل نماز پڑھائی۔ سورج کے گہن سے نکلنے تک نماز پڑھاتے رہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے طویل قیام اور بہت لمبے رکوع و سجود کی کیفیت بھی بیان کی ہے۔ اتنا طویل قیام تھا کہ بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا اس میں بے ہوش ہو کر گرنا اور انہیں ہوش میں لانے کے لیے سر پر پانی ڈالنا بھی روایات سے ثابت ہے۔ اس نماز میں متعدد رکوع کرنے ثابت ہیں لیکن سب سے زیادہ قوی اور صحیح روایت ایک رکعت دو رکوع اور دو سجدوں والی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صرف اسی روایت کو بیان کیا ہے۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں صرف ایک مرتبہ نماز کسوف ادا کی گئی، اس لیے اسے متعدد واقعات پر بھی محمول نہیں کیا جا سکتا۔ محتاط محدثین نے اسی بات کو ترجیح دی ہے کہ اس نماز کی دو رکعت ہیں اور ہر ایک رکعت میں دو دو رکوع ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں امت کی رہنمائی کرنے کے لیے اپنی صحیح میں كتاب الكسوف کا عنوان قائم کیا ہے جس میں تقریبا نو (9) صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ستائیس (27) احادیث بیان کی ہیں۔ ان صحابۂ کرام نے اپنے اپنے مشاہدات بیان کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر انیس (19) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں گہن سے متعلقہ احکام و مسائل کا بیان ہے، مثلاً: اس وقت طویل نماز کا اہتمام، اس کے لیے عام اعلان، خصوصی ہدایات پر مشتمل خطبہ، صدقہ و خیرات کی تلقین، عذاب قبر سے پناہ، باجماعت نماز کا بندوبست، اس میں عورتوں کی شمولیت، غلط عقائد کا ابطال، انتہائی عجز و انکسار اور الحاح و زاری پر مبنی دعائیں وغیرہ۔عربوں میں زمانۂ جاہلیت کے توہمات میں سے ایک یہ خیال بھی تھا کہ کسی بڑے آدمی کی موت پر سورج گہن ہوتا ہے، گویا وہ اس کے ماتم میں سیاہ چادر اوڑھ لیتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لخت جگر کی وفات کے موقع پر کچھ لوگوں کی زبان سے اس قسم کے عقیدے کا اظہار ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں خاص طور پر اس عقیدے کی تردید فرمائی۔ آپ نے فرمایا کہ یہ محض جاہلانہ توہم پرستی ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں۔ یہ تو اللہ کی قدرت اور اس کے جلال و جبروت کی نشانی ہے۔ جب کبھی اس کا ظہور ہو تو ہمیں چاہیے کہ انتہائی عجز و انکسار کے ساتھ اس قادر و قہار کی عظمت و جلال کے سامنے جھک جائیں اور اس سے رحم و کرم کی بھیک مانگیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دوران نماز میں عالم غیب کے بہت سے حقائق ظاہر کیے گئے: آپ نے جنت اور دوزخ کو اپنے سامنے دیکھا اور جہنم میں عذاب کے نہایت ہیبت ناک اور لرزہ خیز مناظر بھی دیکھے۔ آپ نے اپنے خطبے میں ان تمام غیبی مشاہدات کو بیان فرمایا۔چاند گرہن کے وقت بھی غیر معمولی کیفیت کے ساتھ نماز پڑھنے کا حکم ہے لیکن کسی صحیح حدیث سے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر نماز کا اہتمام کیا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس نماز کا حکم اسی گہن کے وقت ملا اور اس کے بعد آپ چند مہینے اس دنیا میں رونق افراز رہے، ان ایام معدودات میں چاند گرہن کی نوبت ہی نہیں آئی۔ الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت چالیس (40) مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں بیس (20) موصول اور بیس (20) معلق ہیں، نیز بتیس مکرر اور آٹھ (8) خالص ہیں۔ تین (3) کے سوا دیگر احادیث امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کی ہیں۔ ان احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی پانچ (5) آثار ہیں جن میں دو (2) موصول اور تین (3) معلق ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ حضور قلب کے ساتھ کتاب الکسوف کا مطالعہ کریں تاکہ ایمان کی تازگی اور روح کی غذا کا سامان مہیا ہو۔ اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں تمام معاملات ہیں اور وہی ہمارے لیے ہر کام میں مددگار و کارساز ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں سورج گرہن ہوا تو الصلاة جامعة کا اعلان کیا گیا۔ نبی ﷺ نے اس نماز میں ایک رکعت کے اندر دو رکوع کیے، پھر آپ کھڑے ہوئے تو دوسری رکعت میں بھی دو رکوع کیے اس کے بعد آپ تشہد میں بیٹھے یہاں تک کہ سورج صاف ہو گیا۔ راوی حدیث (حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ) کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: میں نے کبھی بھی اس سے زیادہ لمبا سجدہ نہیں کیا۔
حدیث حاشیہ:
بعض حضرات کا موقف ہے کہ نماز کسوف میں صرف ان ارکان کو لمبا کیا جائے جن میں تکرار ہے، مثلاً: قیام اور رکوع وغیرہ، لیکن سجدے میں تکرار نہیں ہوتا، لہذا اسے لمبا نہیں کرنا چاہیے، نیز قیام و رکوع میں تو سورج کے صحیح ہونے کو دیکھا جا سکتا ہے لیکن سجدے میں یہ ممکن نہیں۔ اس کے علاوہ سجدے کی حالت میں جوڑ ڈھیلے پڑ جاتے ہیں، اس لیے اسے طویل نہیں کرنا چاہیے۔ امام بخاری ؒ نے اس موقف سے اختلاف کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ نماز کسوف میں قیام و رکوع کی طرح سجدہ بھی لمبا کرنا چاہیے۔ جیسا کہ روایات میں صراحت کے ساتھ آیا ہے۔ صریح نص کے مقابلے میں قیاس وغیرہ کی کوئی حیثیت نہیں۔ صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے رکوع کی طرح اپنے سجدوں کو بھی طویل کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ نماز کسوف میں جملہ ارکان کو لمبا کرنا چاہیے۔ (فتح الباري:695/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو نعیم فضل بن دکین کوفی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شیبان بن عبد الرحمن نے یحییٰ بن ا بن ابی کثیر سے بیان کیا، ان سے ابو سلمہ بن عبد الرحمن بن عوف نے، ان سے عبد اللہ بن عمرو ؓ نے کہ جب نبی کریم ﷺ کے زمانے میں سورج کو گرہن لگا تو اعلان ہوا کہ نماز ہونے والی ہے ( اس نماز میں ) نبی کریم ﷺ نے ایک رکعت میں دو رکوع کئے اور پھر دوسری رکعت میں بھی دو رکوع کئے، اس کے بعد آپ بیٹھے رہے ( قعدہ میں ) یہاں تک کہ سورج صاف ہو گیا۔ عبداللہ نے کہا حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ میں نے اس سے زیادہ لمبا سجدہ اور کبھی نہیں کیا۔
حدیث حاشیہ:
سجدہ میں بندہ اللہ پاک کے بہت ہی زیادہ قریب ہوجاتا ہے، اس لیے اس میں جس قدر خشوع وخضوع کے ساتھ اللہ کو یاد کر لیا جائے اور کچھ بھی اس سے مانگا جائے کم ہے۔ سجدہ میں اس کیفیت کاحصول خوش بختی کی دلیل ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Amr (RA): When the sun eclipsed in the lifetime of Allah's Apostle (ﷺ) and an announcement was made that the prayer was to be held in congregation. The Prophet (ﷺ) performed two bowing in one Raka. Then he stood up and performed two bowing in one Raka. Then he sat down and finished the prayer; and by then the (eclipse) had cleared 'Aisha (RA) said, "I had never performed such a long prostration."