باب: جو شخص ہجوم کی وجہ سے سجدہ تلاوت کی جگہ نہ پائے۔
)
Sahi-Bukhari:
Prostration During Recital of Qur'an
(Chapter: Whoever does not find a place for prostration (with the Imam) because of overcrowding)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1079.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ کوئی ایسی سورت تلاوت کرتے جس میں سجدہ ہوتا تو سجدہ فرماتے اور ہم بھی آپ کے ساتھ سجدہ کرتے حتی کہ ہم میں سے کچھ لوگوں کو پیشانی رکھنے کے لیے جگہ نہیں ملتی تھی۔
تشریح:
(1) امام مسلم ؒ نے یہ اضافہ بیان فرمایا ہے کہ اس قدر رش وقت نماز کے علاوہ ہوتا تھا۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1296(575)) (2) حضرت ابن عمر ؓ نے وضاحت نہیں فرمائی کہ ایسے حالات میں کیا کرنا چاہیے۔ اس بنا پر علمائے امت میں اختلاف ہوا۔ امام احمد ؒ کہتے ہیں کہ اگر ہجوم کی وجہ سے زمین پر پیشانی رکھنے کے لیے جگہ نہ مل سکے تو لوگوں کی پشت پر سجدہ کر لینا جائز ہے جبکہ امام مالک ؒ کہتے ہیں کہ ایسے حالات میں انتظار کرنا چاہیے، جب لوگ سجدے سے اپنا سر اٹھائیں تو دوسرے سجدہ کر لیں لیکن طبرانی کی ایک روایت میں ہے کہ جب لوگوں کو رش کی وجہ سے جگہ نہ ملتی تو دوسروں کی پشت پر سجدہ کر لیتے۔ اس سے امام بخاری ؒ کے رجحان کا پتہ چلتا ہے کہ آدمی کو اپنی استطاعت کے مطابق سجدہ کرنا چاہیے اگرچہ اپنے بھائی کی پشت ہی پر کرنا پڑے۔ (فتح الباري:723/2) اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایسے حالات میں سجدۂ تلاوت کی ادائیگی فوراً ضروری نہیں، اسے بعد میں بھی کیا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم۔ (4) رسول اللہ ﷺ نماز میں جھکتے اور اٹھتے وقت اللہ أکبر کہتے تھے، اس لیے سجدۂ تلاوت کے لیے جھکتے وقت بھی اللہ أکبر کہنا چاہیے۔ اس سلسلے میں جو حدیث بیان کی جاتی ہے وہ صحیح نہیں۔ اسی طرح سجدۂ تلاوت کے لیے کھڑے ہو کر ہاتھ باندھنا اور سجدۂ تلاوت سے فراغت کے بعد سلام پھیرنا کسی حدیث سے ثابت نہیں۔ (5) سجدۂ تلاوت میں یہ دعا پڑھنی چاہیے: (اللَّهُمَّ اكْتُبْ لِي بِهَا عِنْدَكَ أَجْرًا، وَضَعْ عَنِّي بِهَا وِزْرًا، وَاجْعَلْهَا لِي عِنْدَكَ ذُخْرًا، وَتَقَبَّلْهَا مِنِّي كَمَا تَقَبَّلْتَهَا مِنْ عَبْدِكَ دَاوُدَ)(جامع الترمذي، الجمعة، حدیث:579) اگر یہ دعا یاد نہ ہو تو درج ذیل دعا بھی پڑھی جا سکتی ہے: (سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهُ، وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ، بِحَوْلِهِ وَقُوَّتِهِ فتباركَ اللهُ أَحسَنُ الخالِقِينَ) (سنن أبي داود، سجود القرآن، حدیث:1414)"فتباركَ اللهُ أَحسَنُ الخالِقِينَ" کے الفاظ مستدرک حاکم میں ہیں۔ (المستدرك للحاکم:220/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1061
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1079
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1079
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1079
تمہید کتاب
سجدۂ تلاوت کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بخوبی کیا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان لوگوں کی تعریف کی ہے جو اس کا کلام سن کر سجدے میں گر جاتے ہیں اور ان لوگوں کی مذمت کی ہے جو کلام الٰہی سن کر سجدہ ریز نہیں ہوتے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِن قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا ﴿١٠٧﴾) "اس قرآن سے پہلے جنہیں علم دیا گیا ہے جب انہیں پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر جاتے ہیں۔" (بنی اسرائیل107:17)ایک دوسرے مقام پر فرمایا: (إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَـٰنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا ۩ ﴿٥٨﴾) "برگزیدہ لوگوں پر جب اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ روتے ہوئے سجدے میں گر جاتے ہیں۔" (مریم58:19)دوسرے لوگوں پر بایں الفاظ عتاب فرمایا: (فَمَا لَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ﴿٢٠﴾ وَإِذَا قُرِئَ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنُ لَا يَسْجُدُونَ ۩ ﴿٢١﴾) "پھر ان (کفار) کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایمان نہیں لاتے۔ اور جب ان پر قرآن پڑھا جاتا ہے تو سجدہ نہیں کرتے۔" (الانشقاق84: 20،21)سجدۂ تلاوت بجا لانے سے شیطان روتا پیٹتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب ابن آدم کسی سجدے والی آیت کو تلاوت کرتا اور پھر سجدہ کرتا ہے تو شیطان روتا ہوا اس سے علیحدہ ہو جاتا ہے اور کہتا ہے: ہائے میری ہلاکت، کہ ابن آدم کو سجدے کا حکم دیا گیا تو اس نے سجدہ کر لیا، لہذا اس کے لیے جنت ہے اور مجھے سجدے کا حکم دیا گیا تو میں نے انکار کر دیا، لہذا میرے لیے جہنم ہے۔ (صحیح مسلم،الایمان،حدیث:244(81))سجدۂ تلاوت کی حیثیت کیا ہے؟ ان کی تعداد کتنی ہے؟ نماز میں یا نماز کے علاوہ سجدہ تلاوت مشروع ہے؟ سجدۂ تلاوت کی شرائط کیا ہیں؟ اس میں کون سی دعا پڑھنی ہے؟ ایک مجلس میں بار بار آیت سجدہ تلاوت کی جائے تو کیا حکم ہے؟ سجدۂ تلاوت کا کیا طریقہ ہے؟ کیا اس کے بعد سلام پھیرنا ہے؟ نیز کیا آیت سجدہ سننے پر سجدہ کرنا مشروع ہے؟ اور اس طرح کے دیگر مسائل کے متعلق امام بخاری رحمہ اللہ نے تقریباً پندرہ (15) احادیث پیش کی ہیں اور ان پر بارہ (12) عنوان قائم کر کے سجدۂ تلاوت سے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر اسنادی حقائق و رموز بھی ذکر کیے ہیں جنہیں ہم ان شاءاللہ تفصیل سے بیان کریں گے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان کے تحت پندرہ (15) احادیث بیان کی ہیں جن میں دو (2) معلق اور نو (9) مکرر ہیں۔ خالص احادیث کی تعداد چھ (6) ہے۔ امام مسلم نے دو (2) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے سات (7) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اپنی زندگی میں عملی تبدیلی لانے کے لیے صحیح بخاری کا مطالعہ کریں۔ اسے پڑھتے وقت ہماری معروضات کو بھی مدنظر رکھیں، اس طرح جہاں ہمارے قلوب و اذہان میں کشادگی پیدا ہو گی وہاں امام بخاری رحمہ اللہ سے تعلق خاطر کے لیے بھی راستہ ہموار ہو گا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش کا حق دار بنائے اور زمرۂ محدثین سے اٹھائے۔ آمین
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ کوئی ایسی سورت تلاوت کرتے جس میں سجدہ ہوتا تو سجدہ فرماتے اور ہم بھی آپ کے ساتھ سجدہ کرتے حتی کہ ہم میں سے کچھ لوگوں کو پیشانی رکھنے کے لیے جگہ نہیں ملتی تھی۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام مسلم ؒ نے یہ اضافہ بیان فرمایا ہے کہ اس قدر رش وقت نماز کے علاوہ ہوتا تھا۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1296(575)) (2) حضرت ابن عمر ؓ نے وضاحت نہیں فرمائی کہ ایسے حالات میں کیا کرنا چاہیے۔ اس بنا پر علمائے امت میں اختلاف ہوا۔ امام احمد ؒ کہتے ہیں کہ اگر ہجوم کی وجہ سے زمین پر پیشانی رکھنے کے لیے جگہ نہ مل سکے تو لوگوں کی پشت پر سجدہ کر لینا جائز ہے جبکہ امام مالک ؒ کہتے ہیں کہ ایسے حالات میں انتظار کرنا چاہیے، جب لوگ سجدے سے اپنا سر اٹھائیں تو دوسرے سجدہ کر لیں لیکن طبرانی کی ایک روایت میں ہے کہ جب لوگوں کو رش کی وجہ سے جگہ نہ ملتی تو دوسروں کی پشت پر سجدہ کر لیتے۔ اس سے امام بخاری ؒ کے رجحان کا پتہ چلتا ہے کہ آدمی کو اپنی استطاعت کے مطابق سجدہ کرنا چاہیے اگرچہ اپنے بھائی کی پشت ہی پر کرنا پڑے۔ (فتح الباري:723/2) اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایسے حالات میں سجدۂ تلاوت کی ادائیگی فوراً ضروری نہیں، اسے بعد میں بھی کیا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم۔ (4) رسول اللہ ﷺ نماز میں جھکتے اور اٹھتے وقت اللہ أکبر کہتے تھے، اس لیے سجدۂ تلاوت کے لیے جھکتے وقت بھی اللہ أکبر کہنا چاہیے۔ اس سلسلے میں جو حدیث بیان کی جاتی ہے وہ صحیح نہیں۔ اسی طرح سجدۂ تلاوت کے لیے کھڑے ہو کر ہاتھ باندھنا اور سجدۂ تلاوت سے فراغت کے بعد سلام پھیرنا کسی حدیث سے ثابت نہیں۔ (5) سجدۂ تلاوت میں یہ دعا پڑھنی چاہیے: (اللَّهُمَّ اكْتُبْ لِي بِهَا عِنْدَكَ أَجْرًا، وَضَعْ عَنِّي بِهَا وِزْرًا، وَاجْعَلْهَا لِي عِنْدَكَ ذُخْرًا، وَتَقَبَّلْهَا مِنِّي كَمَا تَقَبَّلْتَهَا مِنْ عَبْدِكَ دَاوُدَ)(جامع الترمذي، الجمعة، حدیث:579) اگر یہ دعا یاد نہ ہو تو درج ذیل دعا بھی پڑھی جا سکتی ہے: (سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهُ، وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ، بِحَوْلِهِ وَقُوَّتِهِ فتباركَ اللهُ أَحسَنُ الخالِقِينَ) (سنن أبي داود، سجود القرآن، حدیث:1414)"فتباركَ اللهُ أَحسَنُ الخالِقِينَ" کے الفاظ مستدرک حاکم میں ہیں۔ (المستدرك للحاکم:220/1)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے صدقہ بن فضل نے بیا ن کیا، ان سے یحیی بن سعیدقطان نے بیان کیا، ان سے عبید اللہ نے، ان سے نافع نے، اور ان سے ابن عمر ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ کسی ایسی سورۃ کی تلاوت کرتے جس میں سجدہ ہوتا پھر آپ سجدہ کرتے اور ہم بھی آپ کے ساتھ سجدہ کرتے یہاں تک کہ ہم میں کسی کو اپنی پیشانی رکھنے کی جگہ نہ ملتی۔ (معلوم ہوا کہ ایسی حالت میں سجدہ نہ کیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے) واللہ أعلم۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA). Whenever the Prophet (ﷺ) recited the Sura which contained the prostration of recitation he used to prostrate and then, we, too, would prostrate and some of us did not find a place for prostration.