Sahi-Bukhari:
Shortening the Prayers (At-Taqseer)
(Chapter: The length of the journey that makes it permissible to offer a shortened prayer?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
نبی کریمﷺنے ایک دن اور ایک رات کی مسافت کو بھی سفر کہا ہے اور عبداللہ ابن عمر اور عبداللہ ابن عباس ؓچار برد (تقریباً اڑتالیس میل کی مسافت) پر قصر کرتے اور روزہ بھی افطار کرتے تھے۔ چار برد میں سولہ فرسخ ہوتے ہیں (اور ایک فرسخ میں تین میل)۔
1087.
حضرت ابن عمر ؓ ہی سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’کوئی عورت محرم کے بغیر تین دن کا سفر نہ کرے۔‘‘ احمد بن محمد مروزی نے عبداللہ بن مبارک سے، انہوں نے عبیداللہ سے، انہوں نے حضرت نافع سے، انہوں نے ابن عمر ؓ سے، انہوں نے نبی ﷺ سے روایت کرنے میں عبیداللہ کی متابعت کی ہے۔
تشریح:
جس مسافت میں نماز قصر پڑھنا مباح ہے اس کی مقدار میں بہت اختلاف ہے۔ اہل ظاہر کے نزدیک کسی قسم کی مقدار سفر مقرر نہیں۔ ان کے ہاں ہر قسم کے سفر میں نماز قصر کرنا جائز ہے، خواہ کم ہو یا زیادہ۔ اہل کوفہ کے نزدیک تین دن اور تین رات کی مسافت پر نماز قصر کر کے پڑھنی چاہیے۔ لیکن آئندہ حدیث ابو ہریرہ میں ہے کہ اہل ایمان خاتون کو ایک دن اور ایک رات کا سفر محرم کے بغیر کرنا جائز نہیں۔ سائلین کے اختلاف کی بنا پر احادیث کا اختلاف ہے، مفہوم عدد کا اس میں کوئی اعتبار نہیں ہے۔ ایک روایت میں ان محرم رشتوں کی تفصیل بھی ہے کہ کوئی عورت اپنے باپ، بھائی، خاوند، بیٹے یا کسی دوسرے محرم کے بغیر تین دن اور تین رات کا سفر نہ کرے، جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے۔ (فتح الباري:733/2، وصحیح مسلم، الحج، حدیث:3270(1340)) واضح رہے کہ مذکورہ روایت تحدید مسافت کے لیے بیان نہیں ہوئی، بلکہ اس مقصد کے لیے اسے بیان کیا گیا ہے کہ کوئی عورت اتنی مسافت اکیلی طے نہ کرے، نیز اس نہی کا تعلق وقت سے ہے، یعنی اگر کوئی عورت ایک گھنٹے کی مسافت ایک دن میں طے کرتی ہے تو اس سے حکم امتناعی متعلق ہو گا، لیکن اگر مسافر نصف یوم کی مسافت کو دو دن میں طے کرتا ہے تو اسے قصر کرنے کی اجازت نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایک حکم کو دوسرے پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1069
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1087
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1087
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1087
تمہید کتاب
ہجرت کے چوتھے سال نماز قصر کی اجازت نازل ہوئی۔ اس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِينًا ﴿١٠١﴾) "اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تمہارے لیے نماز کو قصر کر لینے میں کوئی حرج نہیں (خصوصاً) جب تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں پریشانی میں مبتلا کر دیں گے کیونکہ کافر تو بلاشبہ تمہارے کھلے دشمن ہیں۔" (النساء101:4)قصر نماز کی اجازت ہر سفر کے لیے ہے، خواہ امن کے حالات ہوں یا دشمن کا اندیشہ۔ آیت کریمہ میں اندیشۂ دشمن کا ذکر غالب احوال سے متعلق ہے کیونکہ اس وقت پورا عرب مسلمانوں کے لیے دار الحرب بنا ہوا تھا۔عربی زبان میں اس نماز کے لیے قصر، تقصیر اور اقصار تینوں الفاظ استعمال ہوتے ہیں، البتہ پہلا لفظ زیادہ مشہور ہے۔ اس سے مراد بحالت سفر چار رکعت والی نماز میں تخفیف کر کے دو رکعت ادا کرنا ہے۔ نماز مغرب اور نماز فجر میں قصر نہیں ہے۔ اس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے۔ نماز قصر کے متعلق سفر کی تاثیر میں کسی کو اختلاف نہیں، البتہ پانچ مواضع میں علمائے امت کا نکتۂ نظر مختلف ہے: ٭ حکم قصر کی حیثیت کیا ہے؟ ٭ کتنی مسافت پر قصر ہے؟ ٭ کس قسم کے سفر میں قصر کی اجازت ہے؟ ٭ قصر کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟ ٭ پڑاؤ کی صورت میں کتنے دنوں تک قصر نماز کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے؟ایک حقیقت کو بیان کرنا ہم ضروری خیال کرتے ہیں: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ابتدا میں سفر و حضر میں دو رکعت نماز فرض کی گئی تھی، پھر نماز سفر کو جوں کا توں رکھتے ہوئے حضر کی نماز میں اضافہ کر کے اسے مکمل کر دیا گیا۔ (صحیح البخاری،التقصیر،حدیث:1090) اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان حق ترجمان کے ذریعے سے مسافر پر دو رکعت، مقیم پر چار رکعت اور حالت خوف میں ایک رکعت فرض کی ہے۔ (صحیح مسلم،صلاۃ المسافرین،حدیث:1576(687)) ان احادیث کا تقاضا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے دوران سفر میں نماز قصر پڑھنے پر اکتفا کریں۔ ہمارے نزدیک یہی اولیٰ، بہتر اور افضل ہے۔
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ اس مقدار سفر کو بیان کرنا چاہتے ہیں جس میں مسافر کو نماز قصر ادا کرنا جائز ہوتی ہے۔ اس مقدار کے متعلق علمائے سلف میں خاصا اختلاف ہے۔ امام ابن منذر نے تقریبا بیس اقوال کا حوالہ دیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک دن اور ایک رات کی مسافر ذکر کی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے نزدیک کم از کم مقدار سفر ایک دن اور ایک رات کی مسافت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اور ایک رات کی مسافت کو سفر کہا ہے جیسا کہ حدیث ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ (1088) میں ہے۔ حضرت ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی معلق روایت کو ابن منذر نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (فتح الباری:2/781)
نبی کریمﷺنے ایک دن اور ایک رات کی مسافت کو بھی سفر کہا ہے اور عبداللہ ابن عمر اور عبداللہ ابن عباس ؓچار برد (تقریباً اڑتالیس میل کی مسافت) پر قصر کرتے اور روزہ بھی افطار کرتے تھے۔ چار برد میں سولہ فرسخ ہوتے ہیں (اور ایک فرسخ میں تین میل)۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عمر ؓ ہی سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’کوئی عورت محرم کے بغیر تین دن کا سفر نہ کرے۔‘‘ احمد بن محمد مروزی نے عبداللہ بن مبارک سے، انہوں نے عبیداللہ سے، انہوں نے حضرت نافع سے، انہوں نے ابن عمر ؓ سے، انہوں نے نبی ﷺ سے روایت کرنے میں عبیداللہ کی متابعت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
جس مسافت میں نماز قصر پڑھنا مباح ہے اس کی مقدار میں بہت اختلاف ہے۔ اہل ظاہر کے نزدیک کسی قسم کی مقدار سفر مقرر نہیں۔ ان کے ہاں ہر قسم کے سفر میں نماز قصر کرنا جائز ہے، خواہ کم ہو یا زیادہ۔ اہل کوفہ کے نزدیک تین دن اور تین رات کی مسافت پر نماز قصر کر کے پڑھنی چاہیے۔ لیکن آئندہ حدیث ابو ہریرہ میں ہے کہ اہل ایمان خاتون کو ایک دن اور ایک رات کا سفر محرم کے بغیر کرنا جائز نہیں۔ سائلین کے اختلاف کی بنا پر احادیث کا اختلاف ہے، مفہوم عدد کا اس میں کوئی اعتبار نہیں ہے۔ ایک روایت میں ان محرم رشتوں کی تفصیل بھی ہے کہ کوئی عورت اپنے باپ، بھائی، خاوند، بیٹے یا کسی دوسرے محرم کے بغیر تین دن اور تین رات کا سفر نہ کرے، جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے۔ (فتح الباري:733/2، وصحیح مسلم، الحج، حدیث:3270(1340)) واضح رہے کہ مذکورہ روایت تحدید مسافت کے لیے بیان نہیں ہوئی، بلکہ اس مقصد کے لیے اسے بیان کیا گیا ہے کہ کوئی عورت اتنی مسافت اکیلی طے نہ کرے، نیز اس نہی کا تعلق وقت سے ہے، یعنی اگر کوئی عورت ایک گھنٹے کی مسافت ایک دن میں طے کرتی ہے تو اس سے حکم امتناعی متعلق ہو گا، لیکن اگر مسافر نصف یوم کی مسافت کو دو دن میں طے کرتا ہے تو اسے قصر کرنے کی اجازت نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایک حکم کو دوسرے پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔
ترجمۃ الباب:
نبی ﷺنے ایک دن اور ایک رات کی مسافت کو سفر کہا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابن عباس ؓ چار برد کی مسافت پر نماز قصر پڑھتے تھے اور اس دوران روزہ نہیں رکھتے تھے۔ اور چار برد میں سولہ فرسخ ہوتے ہیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیا ن کیا، کہا کہ ہم سے یحی ٰ بن سعیدقطان نے، عبید اللہ عمری سے بیا ن کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں نافع نے خبر دی، انہیں ابن عمر ؓ نے نبی کریم ﷺ سے خبر دی کہ آپ نے فرمایا عورت تین دن کا سفر اس وقت تک نہ کرے جب تک اس کے ساتھ کوئی محرم رشتہ دار نہ ہو۔ اس روایت کی متابعت احمد نے ا بن مبارک سے کی ان سے عبید اللہ عمری نے ان سے نافع نے اور ان سے ا بن عمر ؓ نے نبی کریم ﷺ کے حوالہ سے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): The Prophet (ﷺ) said, "A woman should not travel for more than three days except with a Dhi-Mahram (i.e. a male with whom she cannot marry at all, e.g. her brother, father, grandfather, etc.) or her own husband