باب: جب آدمی سفر کی نیت سے اپنی بستی سے نکل جائے تو قصر کرے۔
)
Sahi-Bukhari:
Shortening the Prayers (At-Taqseer)
(Chapter: When a traveller leaves his original place, he can shorten his Salat (prayer))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور علی بن ابی طالبؓ (کوفہ سے سفر کے ارادہ سے) نکلے تو نماز قصر کرنی اسی وقت سے شروع کر دی جب ابھی کوفہ کے مکانات دکھائی دے رہے تھے اور پھر واپسی کے وقت بھی جب آپ کو بتایا گیا کہ یہ کوفہ سامنے ہے تو آپ نے فرمایا کہ جب تک ہم شہر میں داخل نہ ہو جائیں نماز پوری نہیں پڑھیں گے۔
1089.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کے ہمراہ مدینہ منورہ میں ظہر کی چار رکعت ادا کیں اور ذوالحلیفہ پہنچ کر دوگانہ شروع کر دیا۔
تشریح:
صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ذوالحلیفہ پہنچ کر نماز عصر دو رکعت پڑھی۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث:1547) اس کا مطلب یہ نہیں کہ ذوالحلیفہ تک کا سفر قصر کے لیے حد مسافت ہے۔ دراصل رسول اللہ ﷺ نے مکہ مکرمہ جانے کے لیے سفر کا آغاز کیا تھا اور آپ حج کرنے کا ارادہ کیے ہوئے تھے۔ جب آپ نے مدینہ کی آبادی کو چھوڑا اور ذوالحلیفہ پہنچے تو عصر کی دو رکعت ادا کیں، پھر آپ دوران سفر واپسی تک قصر ہی پڑھتے رہے، جیسا کہ حضرت انس ؓ سے مروی ایک دوسری حدیث میں ہے، فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ مدینہ سے مکہ کا سفر کیا، آپ واپسی تک دو دو رکعت ہی ادا فرماتے رہے۔ (صحیح البخاري، التقصیر، حدیث:1081)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1071
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1089
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1089
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1089
تمہید کتاب
ہجرت کے چوتھے سال نماز قصر کی اجازت نازل ہوئی۔ اس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِينًا ﴿١٠١﴾) "اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تمہارے لیے نماز کو قصر کر لینے میں کوئی حرج نہیں (خصوصاً) جب تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں پریشانی میں مبتلا کر دیں گے کیونکہ کافر تو بلاشبہ تمہارے کھلے دشمن ہیں۔" (النساء101:4)قصر نماز کی اجازت ہر سفر کے لیے ہے، خواہ امن کے حالات ہوں یا دشمن کا اندیشہ۔ آیت کریمہ میں اندیشۂ دشمن کا ذکر غالب احوال سے متعلق ہے کیونکہ اس وقت پورا عرب مسلمانوں کے لیے دار الحرب بنا ہوا تھا۔عربی زبان میں اس نماز کے لیے قصر، تقصیر اور اقصار تینوں الفاظ استعمال ہوتے ہیں، البتہ پہلا لفظ زیادہ مشہور ہے۔ اس سے مراد بحالت سفر چار رکعت والی نماز میں تخفیف کر کے دو رکعت ادا کرنا ہے۔ نماز مغرب اور نماز فجر میں قصر نہیں ہے۔ اس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے۔ نماز قصر کے متعلق سفر کی تاثیر میں کسی کو اختلاف نہیں، البتہ پانچ مواضع میں علمائے امت کا نکتۂ نظر مختلف ہے: ٭ حکم قصر کی حیثیت کیا ہے؟ ٭ کتنی مسافت پر قصر ہے؟ ٭ کس قسم کے سفر میں قصر کی اجازت ہے؟ ٭ قصر کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟ ٭ پڑاؤ کی صورت میں کتنے دنوں تک قصر نماز کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے؟ایک حقیقت کو بیان کرنا ہم ضروری خیال کرتے ہیں: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ابتدا میں سفر و حضر میں دو رکعت نماز فرض کی گئی تھی، پھر نماز سفر کو جوں کا توں رکھتے ہوئے حضر کی نماز میں اضافہ کر کے اسے مکمل کر دیا گیا۔ (صحیح البخاری،التقصیر،حدیث:1090) اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان حق ترجمان کے ذریعے سے مسافر پر دو رکعت، مقیم پر چار رکعت اور حالت خوف میں ایک رکعت فرض کی ہے۔ (صحیح مسلم،صلاۃ المسافرین،حدیث:1576(687)) ان احادیث کا تقاضا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے دوران سفر میں نماز قصر پڑھنے پر اکتفا کریں۔ ہمارے نزدیک یہی اولیٰ، بہتر اور افضل ہے۔
تمہید باب
اگر کوئی مسافر کم از کم نو میل کی مسافت طے کرنے کے لیے اپنے گھر سے سفر کی نیت سے نکل پڑے تو اسے حدود شہر، موجودہ اصطلاح میں میونسپلٹی کی حدود سے نکلنے کے بعد نماز قصر کرنے کی اجازت ہے اور اس طرح واپسی پر بھی اس میں داخل ہونے سے پہلے دوگانہ پڑھ سکتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اثر کو امام حاکم نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ علی بن ربیعہ کہتے ہیں کہ ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہمراہ سفر کے لیے نکلے تو قصر نماز پڑھنا شروع کر دی جبکہ ہمیں اپنی آبادی کے گھر نظر آ رہے تھے اور واپسی پر بھی نماز قصر پڑھتے رہے جبکہ ہمیں اپنی آبادی کے گھر نظر آ رہے تھے۔ (فتح الباری:2/735) امام بیہقی رحمہ اللہ نے بایں الفاظ روایت کی ہے: وقاء بن ایاس کہتے ہیں کہ ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہمراہ ملک شام گئے تو دوگانہ پڑھتے رہے۔ واپسی پر جب ہمیں کوفہ نظر آیا اور نماز کا وقت ہو گیا تو لوگوں نے آپ سے کہا: وہ کوفہ نظر آ رہا ہے، آپ نماز پوری پڑھائیں، آپ نے فرمایا: نہیں جب تک اس میں داخل نہ ہو جائیں قصر پڑھتے رہیں گے۔ (السنن الکبریٰ للبیھقی:3/146)
اور علی بن ابی طالبؓ (کوفہ سے سفر کے ارادہ سے) نکلے تو نماز قصر کرنی اسی وقت سے شروع کر دی جب ابھی کوفہ کے مکانات دکھائی دے رہے تھے اور پھر واپسی کے وقت بھی جب آپ کو بتایا گیا کہ یہ کوفہ سامنے ہے تو آپ نے فرمایا کہ جب تک ہم شہر میں داخل نہ ہو جائیں نماز پوری نہیں پڑھیں گے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کے ہمراہ مدینہ منورہ میں ظہر کی چار رکعت ادا کیں اور ذوالحلیفہ پہنچ کر دوگانہ شروع کر دیا۔
حدیث حاشیہ:
صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ذوالحلیفہ پہنچ کر نماز عصر دو رکعت پڑھی۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث:1547) اس کا مطلب یہ نہیں کہ ذوالحلیفہ تک کا سفر قصر کے لیے حد مسافت ہے۔ دراصل رسول اللہ ﷺ نے مکہ مکرمہ جانے کے لیے سفر کا آغاز کیا تھا اور آپ حج کرنے کا ارادہ کیے ہوئے تھے۔ جب آپ نے مدینہ کی آبادی کو چھوڑا اور ذوالحلیفہ پہنچے تو عصر کی دو رکعت ادا کیں، پھر آپ دوران سفر واپسی تک قصر ہی پڑھتے رہے، جیسا کہ حضرت انس ؓ سے مروی ایک دوسری حدیث میں ہے، فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ مدینہ سے مکہ کا سفر کیا، آپ واپسی تک دو دو رکعت ہی ادا فرماتے رہے۔ (صحیح البخاري، التقصیر، حدیث:1081)
ترجمۃ الباب:
حضرت علی ؓ (سفر کے لیے) نکلے تو نماز قصر پڑھی جبکہ وہ شہر کے مکانات کو دیکھ رہے تھے اور جب واپس آئے تو ان سے کہا گیا: وہ کوفہ نظر آ رہا ہے؟ آپ نے فرمایا: اس میں داخل ہونے سے پہلے نماز پوری ادا نہیں کریں گے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو نعیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان نے، محمد بن منکدر اور ابراہیم بن میسرہ سے بیان کیا، ان سے انس بن مالک ؓ نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ مدینہ منورہ میں ظہر کی چار رکعت پڑھی اور ذوالحلیفہ میں عصر کی دو رکعت پڑھی۔
حدیث حاشیہ:
دیگر روایتوں میں ہے کہ حضرت علی ؓ شام کے ارادہ سے نکلے تھے۔ کوفہ چھوڑتے ہی آپ نے قصر شروع کر دیا تھا۔ اسی طرح واپسی میں کوفہ کے مکانات دکھائی دے رہے تھے۔ لیکن آپ نے اس وقت بھی قصر کیا۔ جب آپ سے کہا گیا کہ اب تو کوفہ کے قریب آگئے! تو فرمایا کہ ہم پوری نماز اس وقت تک نہ پڑھیں گے جب تک ہم کوفہ میں داخل نہ ہو جائیں۔ رسول اللہ ﷺ حج کے ارادہ سے مکہ معظمہ جارہے تھے ظہر کے وقت تک آپ مدینہ میں تھے اس کے بعد سفر شروع ہوگیا پھرآپ ذوالحلیفہ میں پہنچے تو عصر کا وقت ہو چکا تھا اور وہاں آپ نے عصر چار رکعت کے بجائے صرف دو رکعت پڑھی۔ ذو الحلیفہ مدینہ سے چھ میل پر ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہو اکہ مسافر جب اپنے مقام سے نکل جائے تو قصر شروع کر دے باب کا یہی مطلب ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): offered four Rakat of Zuhr prayer with the Prophet (ﷺ) at Madinah and two Rakat at Dhul-Hulaifa. (i.e. shortened the 'Asr prayer). ________