Sahi-Bukhari:
Shortening the Prayers (At-Taqseer)
(Chapter: Three Rak'a of Maghrib prayer during the journey)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1092.
۔ (راوی حدیث) لیث نے مزید کہا: مجھے یونس نے ابن شہاب سے خبر دی کہ سالم نے کہا: حضرت عبداللہ بن عمر ؓ مغرب اور عشاء کی نماز مزدلفہ میں جمع کر کے پڑھتے تھے۔ حضرت سالم نے کہا: حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے ایک دفعہ نماز مغرب کو مؤخر کیا جب انہیں ان کی بیوی صفیہ بنت ابوعبید کے مرنے کی خبر دی گئی۔ میں نے ان سے کہا: نماز کا وقت ہے۔ انہوں نے فرمایا: سفر جاری رکھو۔ پھر میں نے عرض کیا: نماز کا وقت ہو چکا ہے۔ آپ نے فرمایا: سفر جاری رکھو۔ حتی کہ آپ دو یا تین میل چلے، پھر اتر کر نماز پڑھی اور فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسے ہی دیکھا، جب آپ کو سفر کی جلدی ہوتی تو اس طرح نماز پڑھتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے مزید فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو دیکھا، جب آپ کو سفر کی عجلت ہوتی تو نماز مغرب کی اقامت کہتے اور اس کی تین رکعات ادا کرتے، اس کے بعد سلام پھیر کر کچھ توقف کرتے، پھر نماز عشاء کی اقامت کہتے اور اس کی دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیتے۔ اور عشاء کے بعد نفل نماز نہیں پڑھتے تھے، پھر نصف شب کو اٹھتے (اور نماز تہجد ادا فرماتے)۔
تشریح:
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ جن روایات میں دوران سفر دوگانہ پڑھنے کا ذکر ہے، نماز مغرب اس سے مستثنیٰ ہے۔ اسے قصر کے بجائے پورا پڑھا جائے۔ اس پر علماء کا اجماع ہے، چنانچہ حضرت ابن عمر ؓ سے مسافر کی نماز کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: ’’دوران سفر مسافر کی نماز دو دو رکعت ہیں، البتہ مغرب کی تین رکعت ادا کرنا ہوں گی۔‘‘(فتح الباري:739/2) رسول اللہ ﷺ کے عمل سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ مغرب کی نماز میں قصر نہیں ہے، جیسا کہ راوئ حدیث حضرت لیث کی پیش کردہ روایت میں صراحت ہے بلکہ پہلی حدیث کے بعض طرق میں بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ مغرب کی تین رکعت ادا کرتے تھے۔ (صحیح البخاري، التقصیر، حدیث:1108) حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ دوران سفر میں دوگانہ پڑھتے تھے، لیکن مغرب کا دوگانہ نہیں تھا۔ اسی طرح حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ دوران سفر دو دو رکعت پڑھیں، البتہ مغرب کی تین رکعت ہوتی تھیں۔ (فتح الباري:740/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1073.01
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1092
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1092
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1092
تمہید کتاب
ہجرت کے چوتھے سال نماز قصر کی اجازت نازل ہوئی۔ اس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِينًا ﴿١٠١﴾) "اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تمہارے لیے نماز کو قصر کر لینے میں کوئی حرج نہیں (خصوصاً) جب تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں پریشانی میں مبتلا کر دیں گے کیونکہ کافر تو بلاشبہ تمہارے کھلے دشمن ہیں۔" (النساء101:4)قصر نماز کی اجازت ہر سفر کے لیے ہے، خواہ امن کے حالات ہوں یا دشمن کا اندیشہ۔ آیت کریمہ میں اندیشۂ دشمن کا ذکر غالب احوال سے متعلق ہے کیونکہ اس وقت پورا عرب مسلمانوں کے لیے دار الحرب بنا ہوا تھا۔عربی زبان میں اس نماز کے لیے قصر، تقصیر اور اقصار تینوں الفاظ استعمال ہوتے ہیں، البتہ پہلا لفظ زیادہ مشہور ہے۔ اس سے مراد بحالت سفر چار رکعت والی نماز میں تخفیف کر کے دو رکعت ادا کرنا ہے۔ نماز مغرب اور نماز فجر میں قصر نہیں ہے۔ اس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے۔ نماز قصر کے متعلق سفر کی تاثیر میں کسی کو اختلاف نہیں، البتہ پانچ مواضع میں علمائے امت کا نکتۂ نظر مختلف ہے: ٭ حکم قصر کی حیثیت کیا ہے؟ ٭ کتنی مسافت پر قصر ہے؟ ٭ کس قسم کے سفر میں قصر کی اجازت ہے؟ ٭ قصر کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟ ٭ پڑاؤ کی صورت میں کتنے دنوں تک قصر نماز کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے؟ایک حقیقت کو بیان کرنا ہم ضروری خیال کرتے ہیں: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ابتدا میں سفر و حضر میں دو رکعت نماز فرض کی گئی تھی، پھر نماز سفر کو جوں کا توں رکھتے ہوئے حضر کی نماز میں اضافہ کر کے اسے مکمل کر دیا گیا۔ (صحیح البخاری،التقصیر،حدیث:1090) اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان حق ترجمان کے ذریعے سے مسافر پر دو رکعت، مقیم پر چار رکعت اور حالت خوف میں ایک رکعت فرض کی ہے۔ (صحیح مسلم،صلاۃ المسافرین،حدیث:1576(687)) ان احادیث کا تقاضا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے دوران سفر میں نماز قصر پڑھنے پر اکتفا کریں۔ ہمارے نزدیک یہی اولیٰ، بہتر اور افضل ہے۔
۔ (راوی حدیث) لیث نے مزید کہا: مجھے یونس نے ابن شہاب سے خبر دی کہ سالم نے کہا: حضرت عبداللہ بن عمر ؓ مغرب اور عشاء کی نماز مزدلفہ میں جمع کر کے پڑھتے تھے۔ حضرت سالم نے کہا: حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے ایک دفعہ نماز مغرب کو مؤخر کیا جب انہیں ان کی بیوی صفیہ بنت ابوعبید کے مرنے کی خبر دی گئی۔ میں نے ان سے کہا: نماز کا وقت ہے۔ انہوں نے فرمایا: سفر جاری رکھو۔ پھر میں نے عرض کیا: نماز کا وقت ہو چکا ہے۔ آپ نے فرمایا: سفر جاری رکھو۔ حتی کہ آپ دو یا تین میل چلے، پھر اتر کر نماز پڑھی اور فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسے ہی دیکھا، جب آپ کو سفر کی جلدی ہوتی تو اس طرح نماز پڑھتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے مزید فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو دیکھا، جب آپ کو سفر کی عجلت ہوتی تو نماز مغرب کی اقامت کہتے اور اس کی تین رکعات ادا کرتے، اس کے بعد سلام پھیر کر کچھ توقف کرتے، پھر نماز عشاء کی اقامت کہتے اور اس کی دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیتے۔ اور عشاء کے بعد نفل نماز نہیں پڑھتے تھے، پھر نصف شب کو اٹھتے (اور نماز تہجد ادا فرماتے)۔
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ جن روایات میں دوران سفر دوگانہ پڑھنے کا ذکر ہے، نماز مغرب اس سے مستثنیٰ ہے۔ اسے قصر کے بجائے پورا پڑھا جائے۔ اس پر علماء کا اجماع ہے، چنانچہ حضرت ابن عمر ؓ سے مسافر کی نماز کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: ’’دوران سفر مسافر کی نماز دو دو رکعت ہیں، البتہ مغرب کی تین رکعت ادا کرنا ہوں گی۔‘‘(فتح الباري:739/2) رسول اللہ ﷺ کے عمل سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ مغرب کی نماز میں قصر نہیں ہے، جیسا کہ راوئ حدیث حضرت لیث کی پیش کردہ روایت میں صراحت ہے بلکہ پہلی حدیث کے بعض طرق میں بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ مغرب کی تین رکعت ادا کرتے تھے۔ (صحیح البخاري، التقصیر، حدیث:1108) حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ دوران سفر میں دوگانہ پڑھتے تھے، لیکن مغرب کا دوگانہ نہیں تھا۔ اسی طرح حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ دوران سفر دو دو رکعت پڑھیں، البتہ مغرب کی تین رکعت ہوتی تھیں۔ (فتح الباري:740/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
لیث بن سعد نے اس روایت میں اتنا زیادہ کیا کہ مجھ سے یونس نے ابن شہاب سے بیان کیا، کہ سالم نے بیان کیا کہ ابن عمر ؓ مزدلفہ میں مغرب اور عشاء ایک ساتھ جمع کر کے پڑھتے تھے۔ سالم نے کہا کہ ابن عمر ؓ نے مغرب کی نماز اس دن دیر میں پڑھی تھی جب انہیں ان کی بیوی صفیہ بنت ابی عبید کی سخت بیماری کی اطلاع ملی تھی (چلتے ہوئے) میں نے کہا کہ نماز! (یعنی وقت ختم ہوا چاہتا ہے) لیکن آپ نے فرمایا کہ چلے چلو پھر دوبارہ میں نے کہا کہ نماز! آپ نے پھر فرمایا کہ چلے چلو اس طرح جب ہم دو یا تین میل نکل گئے توآپ اترے اور نماز پڑھی پھر فرمایا کہ میںنے خود دیکھا ہے کہ جب نبی کریم ﷺ سفر میں تیزی کے ساتھ چلنا چاہتے تو اسی طرح کرتے تھے عبد اللہ بن عمر ؓ نے یہ بھی فرمایا کہ میں نے خود دیکھا کہ جب نبی کریم ﷺ (منزل مقصود تک) جلدی پہنچنا چاہتے تو پہلے مغرب کی تکبیر کہلواتے اور آپ اس کی تین رکعت پڑھا کر سلام پھیرتے۔ پھرتھوڑی دیر ٹھہر کر عشاء پڑھاتے اور اس کی دو ہی رکعت پر سلام پھیرتے۔ عشاء کے فرض کے بعد آپ سنتیں وغیرہ نہیں پڑھتے تھے آدھی رات کے بعد کھڑے ہو کر نماز پڑھتے۔
حدیث حاشیہ:
باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔ آپ ﷺ نے سفر میں مغرب کی تین رکعت فرض نمازادا کی
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Salim narrated, "Ibn 'Umar (RA) used to do the same whenever he was iMaghrib and 'Isha' prayers together in Al-Muzdalifa." Salim said, "Ibn 'Umar (RA) delayed the Maghrib prayer because at that time he heard the news of the death of his wife Safiya bint Abi 'Ubaid. I said to him, 'The prayer (is due).' He said, 'Go on.' Again I said, 'The prayer (is due).' He said, 'Go on,' till we covered two or three miles. Then he got down, prayed and said, 'I saw the Prophet (ﷺ) praying in this way, whenever he was in a hurry during the journey.' 'Abdullah (bin 'Umar (RA)) added, "Whenever the Prophet (ﷺ) was in a hurry, he used to delay the Maghrib prayer and then offer three Rakat (of the Maghrib) and perform Taslim, and after waiting for a short while, Iqama used to be pronounced for the 'Isha' prayer when he would offer two Rakat and perform Taslim. He would never offer any optional prayer till the middle of the night (when he used to pray the Tahajjud).