Sahi-Bukhari:
Shortening the Prayers (At-Taqseer)
(Chapter: To offer the Nawafil while riding a donkey)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1100.
حضرت انس بن سیرین سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب حضرت انس ؓ شام سے واپس لوٹے تو ہم نے ان کا استقبال کیا، ہم انہیں عین التمر کے مقام پر ملے تو میں نے دیکھا کہ وہ گدھے پر نماز پڑھ رہے تھے اور ان کا منہ اس طرف، یعنی قبلہ کی بائیں جانب تھا۔ میں نے ان سے عرض کیا: میں نے آپ کو غیر قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے دیکھا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسا کرتے نہ دیکھا ہوتا تو میں کبھی ایسا نہ کرتا۔ ابراہیم بن طہمان نے حجاج سے، انہوں نے انس بن سیرین سے، انہوں نے حضرت انس بن مالک ؓ سے اور انہوں نے نبی ﷺ سے اس حدیث کو بیان کیا ہے۔
تشریح:
(1) سواری پر نفل ادا کرنے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ جانور مأکول اللحم ہو اور اس کے فضلات وغیرہ پاک ہوں، البتہ یہ ضروری ہے کہ نماز پڑھتے وقت نمازی کے جسم یا کپڑوں کا کوئی حصہ نجاست آلود نہ ہو۔ (2) رسول اللہ ﷺ کا بھی گدھے پر نفل ادا کرنا ثابت ہے، جیسا کہ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو گدھے پر نفل پڑھتے دیکھا جبکہ آپ خیبر کی طرف جا رہے تھے۔ (سنن النسائي، المساجد، حدیث:742) اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو گدھے پر نماز پڑھتے دیکھا جبکہ آپ کا چہرہ خیبر کی طرف تھا۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1614(700)) ابراہیم بن طہمان کی روایت کو امام بخارى ؒ نے بیان نہیں کیا اور نہ متصل سند ہی سے ہمیں دستیاب ہو سکی ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں: امام بخاری ؒ نے اہتمام کے ساتھ یہ باب قائم کیا ہے تاکہ اس وہم کا رد کیا جائے کہ گدھے پر نماز جائز نہیں، کیونکہ یہ نجس ہونے کی بنا پر اللہ کی رحمت سے دور اور شیطان کے قریب ہوتا ہے۔ ان احادیث سے ثابت ہوا کہ گدھے پر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں اور نہ اس قسم کے وہم ہی میں پڑنے کی ضرورت ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1080
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1100
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1100
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1100
تمہید کتاب
ہجرت کے چوتھے سال نماز قصر کی اجازت نازل ہوئی۔ اس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِينًا ﴿١٠١﴾) "اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تمہارے لیے نماز کو قصر کر لینے میں کوئی حرج نہیں (خصوصاً) جب تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں پریشانی میں مبتلا کر دیں گے کیونکہ کافر تو بلاشبہ تمہارے کھلے دشمن ہیں۔" (النساء101:4)قصر نماز کی اجازت ہر سفر کے لیے ہے، خواہ امن کے حالات ہوں یا دشمن کا اندیشہ۔ آیت کریمہ میں اندیشۂ دشمن کا ذکر غالب احوال سے متعلق ہے کیونکہ اس وقت پورا عرب مسلمانوں کے لیے دار الحرب بنا ہوا تھا۔عربی زبان میں اس نماز کے لیے قصر، تقصیر اور اقصار تینوں الفاظ استعمال ہوتے ہیں، البتہ پہلا لفظ زیادہ مشہور ہے۔ اس سے مراد بحالت سفر چار رکعت والی نماز میں تخفیف کر کے دو رکعت ادا کرنا ہے۔ نماز مغرب اور نماز فجر میں قصر نہیں ہے۔ اس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے۔ نماز قصر کے متعلق سفر کی تاثیر میں کسی کو اختلاف نہیں، البتہ پانچ مواضع میں علمائے امت کا نکتۂ نظر مختلف ہے: ٭ حکم قصر کی حیثیت کیا ہے؟ ٭ کتنی مسافت پر قصر ہے؟ ٭ کس قسم کے سفر میں قصر کی اجازت ہے؟ ٭ قصر کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟ ٭ پڑاؤ کی صورت میں کتنے دنوں تک قصر نماز کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے؟ایک حقیقت کو بیان کرنا ہم ضروری خیال کرتے ہیں: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ابتدا میں سفر و حضر میں دو رکعت نماز فرض کی گئی تھی، پھر نماز سفر کو جوں کا توں رکھتے ہوئے حضر کی نماز میں اضافہ کر کے اسے مکمل کر دیا گیا۔ (صحیح البخاری،التقصیر،حدیث:1090) اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان حق ترجمان کے ذریعے سے مسافر پر دو رکعت، مقیم پر چار رکعت اور حالت خوف میں ایک رکعت فرض کی ہے۔ (صحیح مسلم،صلاۃ المسافرین،حدیث:1576(687)) ان احادیث کا تقاضا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے دوران سفر میں نماز قصر پڑھنے پر اکتفا کریں۔ ہمارے نزدیک یہی اولیٰ، بہتر اور افضل ہے۔
حضرت انس بن سیرین سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب حضرت انس ؓ شام سے واپس لوٹے تو ہم نے ان کا استقبال کیا، ہم انہیں عین التمر کے مقام پر ملے تو میں نے دیکھا کہ وہ گدھے پر نماز پڑھ رہے تھے اور ان کا منہ اس طرف، یعنی قبلہ کی بائیں جانب تھا۔ میں نے ان سے عرض کیا: میں نے آپ کو غیر قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے دیکھا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسا کرتے نہ دیکھا ہوتا تو میں کبھی ایسا نہ کرتا۔ ابراہیم بن طہمان نے حجاج سے، انہوں نے انس بن سیرین سے، انہوں نے حضرت انس بن مالک ؓ سے اور انہوں نے نبی ﷺ سے اس حدیث کو بیان کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) سواری پر نفل ادا کرنے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ جانور مأکول اللحم ہو اور اس کے فضلات وغیرہ پاک ہوں، البتہ یہ ضروری ہے کہ نماز پڑھتے وقت نمازی کے جسم یا کپڑوں کا کوئی حصہ نجاست آلود نہ ہو۔ (2) رسول اللہ ﷺ کا بھی گدھے پر نفل ادا کرنا ثابت ہے، جیسا کہ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو گدھے پر نفل پڑھتے دیکھا جبکہ آپ خیبر کی طرف جا رہے تھے۔ (سنن النسائي، المساجد، حدیث:742) اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو گدھے پر نماز پڑھتے دیکھا جبکہ آپ کا چہرہ خیبر کی طرف تھا۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1614(700)) ابراہیم بن طہمان کی روایت کو امام بخارى ؒ نے بیان نہیں کیا اور نہ متصل سند ہی سے ہمیں دستیاب ہو سکی ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں: امام بخاری ؒ نے اہتمام کے ساتھ یہ باب قائم کیا ہے تاکہ اس وہم کا رد کیا جائے کہ گدھے پر نماز جائز نہیں، کیونکہ یہ نجس ہونے کی بنا پر اللہ کی رحمت سے دور اور شیطان کے قریب ہوتا ہے۔ ان احادیث سے ثابت ہوا کہ گدھے پر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں اور نہ اس قسم کے وہم ہی میں پڑنے کی ضرورت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے احمد بن سعید نے بیا ن کیا، کہا کہ ہم سے حبان بن ہلال نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے انس بن سیرین نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ انس ؓ شام سے جب (حجاج کی خلیفہ سے شکایت کرکے) واپس ہوئے تو ہم ان سے عین التمر میں ملے۔ میں نے دیکھا کہ آپ گدھے پر سوار ہو کر نماز پڑھ رہے تھے ا ور آپ کا منہ قبلہ سے بائیں طرف تھا۔ اس پر میں نے کہا کہ میں نے آپ کو قبلہ کے سوا دوسری طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ اگرمیں رسول اللہ ﷺ کو ایسا کرتے نہ دیکھتا تو میں بھی نہ کرتا۔ اس روایت کو ابراہیم ابن طہمان نے بھی حجاج سے، انہوں نے انس بن سیرین سے، انہوں نے انس بن مالک ؓ سے اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے بیان کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت انس بن مالک ؒ بصرہ سے شام میں خلیفہ وقت عبد الملک بن مروان کے ہاں حجاج بن یوسف ظالم ثقفی کی شکایت لے کر گئے تھے۔ جب لوٹ کر بصرہ آئے تو انس بن سیرین آپ کے استقبال کو گئے اور آپ کو دیکھا کہ گدھے پر نفل نماز اشاروں سے ادا کر رہے ہیں اور منہ بھی غیر قبلہ کی طرف ہے۔ آپ سے پوچھا گیا تو فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو بھی سواری پر نفل نماز ایسے ہی پڑھتے دیکھا ہے۔ یہ روایت مسلم میں عبد اللہ بن عمر ؓ سے یوں ہے:رأيتُ رَسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يُصَلِّي على حِمارٍ أو حِمارةٍ، وهو متوَجِّهٌ إلى خَيبَرَکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ ( نفل نماز ) گدھے پر ادا فرما رہے تھے اور آپ کا چہرہ مبارک خیبر کی طرف تھا۔ حضرت امام بخاری ؒ نے اس روایت کو ابراہیم بن طہمان کی سند سے نقل فرمایا۔ حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ مجھ کو یہ حدیث ابراہیم بن طہمان کے طریق سے موصولا نہیں ملی، البتہ سراج نے عمرو بن عامر سے، انہوں نے حجاج سے، اس لفظ سے روایت کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر نماز پڑھتے چاہے جدھر وہ منہ کرتی تو حضر ت انس ؓ نے گدھے پر نماز پڑھنے کو اونٹنی کے اوپر پڑھنے پر قیاس کیا اور سراج نے یحییٰ بن سعید سے روایت کیا، انہوں نے حضرت انس ؓ سے کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کو گدھے پر نماز پڑھتے دیکھا اور آپ خیبر کی طرف منہ کئے ہوئے تھے۔ علامہ شوکانی ؒ فرماتے ہیں کہ نماز میں قبلہ کی طرف منہ کرنا بالاجماع فرض ہے۔ مگر جب آدمی عاجز ہو یا خوف ہو یا نفل نماز ہو تو ان حالات میں یہ فرض اٹھ جاتا ہے۔ نفل نماز کے لیے بھی ضروری ہے کہ شروع کرتے وقت نیت باندھنے پر منہ قبلہ رخ ہو بعد میں وہ سواری جدھر بھی رخ کرے نماز نفل ادا کرنا جائز ہے۔ عین التمر ایک گاؤں ملک شام میں عراق کی طرف واقع ہے۔ اس روایت سے ثابت ہو اکہ کسی ظالم حاکم کی شکایت بڑے حاکم کو پہنچانا معیوب نہیں ہے اور یہ کہ کسی بزرگ کے استقبال کے لیے چل کر جانا عین ثواب ہے اور یہ بھی کہ بڑے لوگوںسے چھوٹے آدمی مسائل کی تحقیق کر سکتے ہیں اور یہ بھی ثابت ہوا کہ دلیل پیش کرنے میں رسول اللہ ﷺ کی حدیث بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ مومن کے لیے اس سے آگے گنجائش نہیں۔ اس لیے بالکل سچ کہا گیا ہے:
اصل دیں آمد کلام اللہ معظم داشتن پس حدیث مصطفی برجاں مسلم داشتن
یعنی دین کی بنیاد ہی یہ ہے کہ قرآن مجید کو حد درجہ قابل تعظیم کہا جائے اور پس احادیث نبوی کو دل وجان سے تسلیم کیا جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Sirin (RA): We went to receive Anas bin Malik (RA) when he returned from Sham and met him at a place called 'Ain-at-Tamr. I saw him praying riding the donkey, with his face to this direction, i.e. to the left of the Qibla. I said to him, "I have seen you offering the prayer in a direction other than that of the Qibla." He replied, "If I had not seen Allah's Apostle (ﷺ) doing it, I would not have done it." ________