باب: نبی کریمﷺکا رات کی نماز اور نوافل پڑھنے کے لیے ترغیب دلانا لیکن واجب نہ کرنا۔
)
Sahi-Bukhari:
Prayer at Night (Tahajjud)
(Chapter: The Prophet's (pbuh) exhorting to Tahajjud and Nawafil without making them compulsory)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
ایک رات نبی کریم ﷺفاطمہ اور علی رضی اللہ عنہما کے پاس رات کی نماز کے لیے جگانے آئے تھے۔
1128.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ ایک کام، اگرچہ وہ آپ کو پسند ہی ہوتا، اس خوف سے ترک کر دیتے تھے کہ لوگ اس پر عمل کریں گے تو وہ ان پر فرض ہو جائے گا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے نماز چاشت کبھی نہیں پڑھی لیکن میں پڑھتی ہوں۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے رسول اللہ ﷺ کے عمومی طرز عمل کا پتہ چلتا ہے کہ آپ کا کسی کام کو پسند کرنا اس کام کی ترغیب ہے۔ عنوان کا پہلا حصہ یہی ہے، لیکن اس کام کو اس اندیشے کے پیش نظر ترک کر دینا کہ لوگوں کے مسلسل عمل سے کہیں فرض نہ ہو جائے، اس سے عنوان کا دوسرا جز، عدم وجوب سے ثابت ہوتا ہے، کیونکہ فرض عمل کو کسی خطرے کی وجہ سے ترک نہیں کیا جا سکتا۔ امام مالک ؒ نے موطا میں یہ الفاظ مزید بیان کیے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ لوگوں پر تخفیف پسند کرتے تھے تاکہ کسی کام کی وجہ سے ان پر بوجھ نہ ہو۔ (فتح الباري:18/3) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اچھا کام اگر کسی خرابی کا پیش خیمہ ہو تو اسے ترک کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ (2) حضرت عائشہ ؓ نے اپنی معلومات کے پیش نظر نماز چاشت کے متعلق کہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اسے نہیں پڑھا کرتے تھے، حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ والے دن حضرت ام ہانی ؓ کے گھر نماز چاشت پڑھی، نیز آپ نے حضرت ابو ہریرہ اور حضرت ابو ذر غفاری ؓ کو اس کے پڑھنے کی تلقین بھی فرمائی تھی۔ نماز چاشت کے متعلق ہم آئندہ تفصیل سے بیان کریں گے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1104
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1128
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1128
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1128
تمہید کتاب
تہجد، ہجود سے ہے جس کے لغوی معنی سونا اور سو کر بیدار ہونا دونوں ہیں۔ چونکہ نماز تہجد سو کر اٹھنے کے بعد رات کے آخری حصے میں پڑھی جاتی ہے، اس لیے اسے تہجد کہتے ہیں۔ اس اعتبار سے بعض لوگ قبل از نیند رات کے نوافل کو تہجد قرار نہیں دیتے۔ ان کے نزدیک تہجد وہی ہے جو سو کر اٹھنے کے بعد پڑھی جائے۔ لیکن اس کی کوئی دلیل نہیں۔ تاہم عام لوگوں کے لیے بھی، جن کے لیے رات کو بیدار ہونا باعث مشقت اور طبیعت پر گراں ہوتا ہے، یہ خوش خبری ہے کہ اگر کوئی شخص نماز عشاء کے متصل وتر کے بعد دو رکعت پڑھ کر سو جائے اور رات کو وہ بیدار نہ بھی ہو سکے تو وہی دو رکعت اس کے لیے قیام اللیل اور تہجد کی جگہ کافی ہوں گی۔(سنن الدارمی،الصلاۃ،حدیث:1801)فرائض پنجگانہ کے بعد اس نماز کی بہت اہمیت و فضیلت ہے۔ دراصل نماز عشاء اور نماز فجر کے درمیان کے طویل وقفے میں کوئی نماز فرض نہیں کی گئی، حالانکہ یہ وقت اس اعتبار سے نہایت قیمتی ہوتا ہے کہ اس میں پرسکون لمحات میسر آتے ہیں۔ اگر آدمی نماز عشاء ادا کرنے کے بعد کچھ دیر کے لیے سو جائے، پھر نصف شب گزر جانے کے بعد کسی وقت بیدار ہو جائے تو ان لمحات میں بڑی یکسوئی اور دل جمعی نصیب ہوتی ہے۔ اس دوران میں نماز پڑھتے وقت دل کی سکون اور اطمینان نصیب ہوتا ہے جو دوسرے کسی وقت میں میسر نہیں آتا۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق ایسے وقت میں بستر چھوڑ کر نماز پڑھنا نفس کی ریاضت اور اس کی تربیت کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا ﴿٦﴾) "رات کا اٹھنا یقینا نفس کو زیر کرنے (کچلنے) کا ذریعہ ہے اور قرآن پڑھنے کے لیے یہی زیادہ موزوں وقت ہے۔" (المزمل6:73)ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے تہجد گزار بندوں کی بایں الفاظ تعریف فرمائی ہے: (تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿١٦﴾ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١٧﴾) "ان کے پہلو بستروں سے جدا رہتے ہیں۔ (اور) وہ اپنے رب کو ڈرتے ہوئے اور امید سے پکارتے ہیں۔ اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کی کیا کیا چیزیں چھپا کر رکھی گئی ہیں۔ یہ ان کاموں کا بدلہ ہے جو وہ دنیا میں کیا کرتے تھے۔" (السجدۃ18:32۔17)قرآن کریم میں ایک مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تہجد کا حکم دینے کے ساتھ آپ کو مقام محمود کی امید دلائی گئی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا ﴿٧٩﴾) (بنی اسرائیل79:17) "آپ رات کے کچھ حصے میں تہجد ادا کیجیے۔ یہ آپ کے لیے زائد (اور مخصوص) ہے۔ امید ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز کرے گا۔"واضح رہے کہ مقام محمود جنت میں ایک بلند ترین مقام ہے جو قیامت کے دن صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نصیب ہو گا۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ مقام محمود اور نماز تہجد میں کوئی خاص مناسبت ہے، اس لیے جو امتی نماز تہجد سے شغف رکھیں گے انہیں مقام محمود کے کسی درجے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت ضرور نصیب ہو گی۔احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رات کے آخری حصے میں اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم اور اپنی خاص شان رحمت کے ساتھ آسمان اول پر نزول فرماتا اور اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان مبارک ساعات اور پرکیف لمحات کا احساس دلانے کے لیے تہجد کا عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں تقریبا اڑسٹھ (68) احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر موقع و محل کی مناسبت سے سینتیس (37) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ تہجد رات کی نفل نماز ہے، اس مناسبت سے دن میں جو نفل نمازیں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں، ان کے متعلق بھی احادیث پیش کی ہیں، مثلاً: نماز فجر سے پہلے دو سنتوں کی اہمیت و فضیلت، ان میں قراءت اور سلام پھیرنے کے بعد دائیں پہلو پر لیٹنے کی حیثیت، پھر نماز چاشت کا بیان، اسی طرح گھروں میں نوافل ادا کرنے کا اہتمام اور ان کی جماعت کو بطور خاص بیان کیا ہے۔ نماز تہجد کے متعلق اس کی اہمیت و فضیلت، رمضان المبارک میں اس کا خصوصی اہتمام اس کی رکعات کی تعداد، نیز اس کے متعلق عدم تشدد اور اس کے کلیتاً ترک کرنے کی نحوست، بیماری یا کسی اور وجہ سے اس کا ترک کرنا، نیز اس میں قیام اور سجود کا لمبا کرنا، خاص طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد کا نمونہ اور امت کو اس کے متعلق شوق دلانا، علاوہ ازیں وقت سحر اور اس کی فضیلت وغیرہ کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خصوصیت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے آثار بھی بیان فرمائے ہیں۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اپنے قلوب و اذہان کو جلا بخشنے کے لیے اس کا مطالعہ کریں اور شب بیداری کے جذبے سے ان احادیث کو پڑھیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان مبارک لمحات میں نیاز و مناجات کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
یہ عنوان نماز تہجد کے متعلق دو چیزیں بتانے کے لیے قائم کیا گیا ہے: ٭ نماز تہجد کی ترغیب۔ ٭ عدم وجوب۔ چنانچہ اس کے تحت مندرجہ ذیل احادیث سے یہ دونوں چیزیں ثابت ہوتی ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے واقعے کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خود ہی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری،التھجد،حدیث:1127)
ایک رات نبی کریم ﷺفاطمہ اور علی رضی اللہ عنہما کے پاس رات کی نماز کے لیے جگانے آئے تھے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ ایک کام، اگرچہ وہ آپ کو پسند ہی ہوتا، اس خوف سے ترک کر دیتے تھے کہ لوگ اس پر عمل کریں گے تو وہ ان پر فرض ہو جائے گا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے نماز چاشت کبھی نہیں پڑھی لیکن میں پڑھتی ہوں۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے رسول اللہ ﷺ کے عمومی طرز عمل کا پتہ چلتا ہے کہ آپ کا کسی کام کو پسند کرنا اس کام کی ترغیب ہے۔ عنوان کا پہلا حصہ یہی ہے، لیکن اس کام کو اس اندیشے کے پیش نظر ترک کر دینا کہ لوگوں کے مسلسل عمل سے کہیں فرض نہ ہو جائے، اس سے عنوان کا دوسرا جز، عدم وجوب سے ثابت ہوتا ہے، کیونکہ فرض عمل کو کسی خطرے کی وجہ سے ترک نہیں کیا جا سکتا۔ امام مالک ؒ نے موطا میں یہ الفاظ مزید بیان کیے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ لوگوں پر تخفیف پسند کرتے تھے تاکہ کسی کام کی وجہ سے ان پر بوجھ نہ ہو۔ (فتح الباري:18/3) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اچھا کام اگر کسی خرابی کا پیش خیمہ ہو تو اسے ترک کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ (2) حضرت عائشہ ؓ نے اپنی معلومات کے پیش نظر نماز چاشت کے متعلق کہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اسے نہیں پڑھا کرتے تھے، حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ والے دن حضرت ام ہانی ؓ کے گھر نماز چاشت پڑھی، نیز آپ نے حضرت ابو ہریرہ اور حضرت ابو ذر غفاری ؓ کو اس کے پڑھنے کی تلقین بھی فرمائی تھی۔ نماز چاشت کے متعلق ہم آئندہ تفصیل سے بیان کریں گے۔
ترجمۃ الباب:
نبیﷺ نماز تہجد کی اہمیت کے پیش نظر رات کے وقت حضرت علی اور حضرت فاطمہ ؓ کے ہاں تشریف لے گئے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے امام مالک نے ا بن شہاب زہری سے بیان کیا، ان سے عروہ نے، ان سے عائشہ ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ ایک کام کو چھوڑ دیتے اور آپ کو اس کا کرنا پسند ہوتا۔ اس خیال سے ترک کردیتے کہ دوسرے صحابہ بھی اس پر ( آپ کو دیکھ کر ) عمل شروع کر دیں اور اس طرح وہ کام ان پر فرض ہوجائے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے چاشت کی نماز کبھی نہیں پڑھی لیکن میں پڑھتی ہوں۔
حدیث حاشیہ:
حضرت عائشہ ؓ کو شاید وہ قصہ معلوم نہ ہوگا جس کو ام ہانی ؓ نے نقل کیا کہ آپ ﷺ نے فتح مکہ کے دن چاشت کی نماز پڑھی۔ باب کا مطلب حدیث سے یوں نکلتا ہے کہ چاشت کی نفل نماز کا پڑھنا آپ کو پسند تھا۔ جب پسند ہوا تو گویا آپ ﷺ نے اس پر ترغیب دلائی اور پھر اس کو واجب نہ کیا۔ کیونکہ آپ نے خود اس کو نہیں پڑھا۔ بعضوں نے کہا آپ نے کبھی چاشت کی نماز نہیں پڑھی، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے ہمیشگی کے ساتھ کبھی نہیں پڑھی کیونکہ دوسری روایت سے آپ کا یہ نمازپڑھنا ثابت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): Allah's Apostle (ﷺ) used to give up a good deed, although he loved to do it, for fear that people might act on it and it might be made compulsory for them. The Prophet (ﷺ) never prayed the Duha prayer, but I offer it. ________