Sahi-Bukhari:
Prayer at Night (Tahajjud)
(Chapter: It is disliked to exaggerate in matters of worship)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1151.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میرے پاس بنو اسد قبیلے کی ایک عورت بیٹھی ہوئی تھی کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ کون عورت ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: یہ فلاں عورت ہے، رات بھر سوتی نہیں ہے اور اس کی نماز کا خوب چرچا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛ ’’ایسا کرنے سے رک جاؤ۔ خود پر وہ عمل لازم کرو جس کی تم میں طاقت ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نہیں اُکتاتا یہاں تک کہ تم خود اُکتا کر عمل چھوڑ دیتے ہو۔‘‘
تشریح:
معلوم ہوا کہ جب تک طبیعت ساتھ دے دل لگی کے ساتھ عبادت کی جائے۔ اگر طبیعت میں اُکتاہٹ پیدا ہو جائے تو عبادت کے بجائے آرام کرنا چاہیے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ دوران نماز میں اگر نیند آنا شروع ہو جائے تو نماز ترک کر کے سو جانا چاہیے، مبادا وہ استغفار کے بجائے خود کو گالیاں دیتا رہے۔ ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ثواب دینے سے تنگ نہیں پڑتا بلکہ تم خود ہی اس عمل سے تنگ آ کر اسے چھوڑ دیتے ہو۔ الغرض انسان کو اپنی وسعت اور طاقت کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔ (فتح الباري:48/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1127
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1151
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1151
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1151
تمہید کتاب
تہجد، ہجود سے ہے جس کے لغوی معنی سونا اور سو کر بیدار ہونا دونوں ہیں۔ چونکہ نماز تہجد سو کر اٹھنے کے بعد رات کے آخری حصے میں پڑھی جاتی ہے، اس لیے اسے تہجد کہتے ہیں۔ اس اعتبار سے بعض لوگ قبل از نیند رات کے نوافل کو تہجد قرار نہیں دیتے۔ ان کے نزدیک تہجد وہی ہے جو سو کر اٹھنے کے بعد پڑھی جائے۔ لیکن اس کی کوئی دلیل نہیں۔ تاہم عام لوگوں کے لیے بھی، جن کے لیے رات کو بیدار ہونا باعث مشقت اور طبیعت پر گراں ہوتا ہے، یہ خوش خبری ہے کہ اگر کوئی شخص نماز عشاء کے متصل وتر کے بعد دو رکعت پڑھ کر سو جائے اور رات کو وہ بیدار نہ بھی ہو سکے تو وہی دو رکعت اس کے لیے قیام اللیل اور تہجد کی جگہ کافی ہوں گی۔(سنن الدارمی،الصلاۃ،حدیث:1801)فرائض پنجگانہ کے بعد اس نماز کی بہت اہمیت و فضیلت ہے۔ دراصل نماز عشاء اور نماز فجر کے درمیان کے طویل وقفے میں کوئی نماز فرض نہیں کی گئی، حالانکہ یہ وقت اس اعتبار سے نہایت قیمتی ہوتا ہے کہ اس میں پرسکون لمحات میسر آتے ہیں۔ اگر آدمی نماز عشاء ادا کرنے کے بعد کچھ دیر کے لیے سو جائے، پھر نصف شب گزر جانے کے بعد کسی وقت بیدار ہو جائے تو ان لمحات میں بڑی یکسوئی اور دل جمعی نصیب ہوتی ہے۔ اس دوران میں نماز پڑھتے وقت دل کی سکون اور اطمینان نصیب ہوتا ہے جو دوسرے کسی وقت میں میسر نہیں آتا۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق ایسے وقت میں بستر چھوڑ کر نماز پڑھنا نفس کی ریاضت اور اس کی تربیت کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا ﴿٦﴾) "رات کا اٹھنا یقینا نفس کو زیر کرنے (کچلنے) کا ذریعہ ہے اور قرآن پڑھنے کے لیے یہی زیادہ موزوں وقت ہے۔" (المزمل6:73)ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے تہجد گزار بندوں کی بایں الفاظ تعریف فرمائی ہے: (تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿١٦﴾ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١٧﴾) "ان کے پہلو بستروں سے جدا رہتے ہیں۔ (اور) وہ اپنے رب کو ڈرتے ہوئے اور امید سے پکارتے ہیں۔ اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کی کیا کیا چیزیں چھپا کر رکھی گئی ہیں۔ یہ ان کاموں کا بدلہ ہے جو وہ دنیا میں کیا کرتے تھے۔" (السجدۃ18:32۔17)قرآن کریم میں ایک مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تہجد کا حکم دینے کے ساتھ آپ کو مقام محمود کی امید دلائی گئی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا ﴿٧٩﴾) (بنی اسرائیل79:17) "آپ رات کے کچھ حصے میں تہجد ادا کیجیے۔ یہ آپ کے لیے زائد (اور مخصوص) ہے۔ امید ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز کرے گا۔"واضح رہے کہ مقام محمود جنت میں ایک بلند ترین مقام ہے جو قیامت کے دن صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نصیب ہو گا۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ مقام محمود اور نماز تہجد میں کوئی خاص مناسبت ہے، اس لیے جو امتی نماز تہجد سے شغف رکھیں گے انہیں مقام محمود کے کسی درجے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت ضرور نصیب ہو گی۔احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رات کے آخری حصے میں اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم اور اپنی خاص شان رحمت کے ساتھ آسمان اول پر نزول فرماتا اور اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان مبارک ساعات اور پرکیف لمحات کا احساس دلانے کے لیے تہجد کا عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں تقریبا اڑسٹھ (68) احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر موقع و محل کی مناسبت سے سینتیس (37) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ تہجد رات کی نفل نماز ہے، اس مناسبت سے دن میں جو نفل نمازیں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں، ان کے متعلق بھی احادیث پیش کی ہیں، مثلاً: نماز فجر سے پہلے دو سنتوں کی اہمیت و فضیلت، ان میں قراءت اور سلام پھیرنے کے بعد دائیں پہلو پر لیٹنے کی حیثیت، پھر نماز چاشت کا بیان، اسی طرح گھروں میں نوافل ادا کرنے کا اہتمام اور ان کی جماعت کو بطور خاص بیان کیا ہے۔ نماز تہجد کے متعلق اس کی اہمیت و فضیلت، رمضان المبارک میں اس کا خصوصی اہتمام اس کی رکعات کی تعداد، نیز اس کے متعلق عدم تشدد اور اس کے کلیتاً ترک کرنے کی نحوست، بیماری یا کسی اور وجہ سے اس کا ترک کرنا، نیز اس میں قیام اور سجود کا لمبا کرنا، خاص طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد کا نمونہ اور امت کو اس کے متعلق شوق دلانا، علاوہ ازیں وقت سحر اور اس کی فضیلت وغیرہ کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خصوصیت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے آثار بھی بیان فرمائے ہیں۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اپنے قلوب و اذہان کو جلا بخشنے کے لیے اس کا مطالعہ کریں اور شب بیداری کے جذبے سے ان احادیث کو پڑھیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان مبارک لمحات میں نیاز و مناجات کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میرے پاس بنو اسد قبیلے کی ایک عورت بیٹھی ہوئی تھی کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ کون عورت ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: یہ فلاں عورت ہے، رات بھر سوتی نہیں ہے اور اس کی نماز کا خوب چرچا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛ ’’ایسا کرنے سے رک جاؤ۔ خود پر وہ عمل لازم کرو جس کی تم میں طاقت ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نہیں اُکتاتا یہاں تک کہ تم خود اُکتا کر عمل چھوڑ دیتے ہو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ جب تک طبیعت ساتھ دے دل لگی کے ساتھ عبادت کی جائے۔ اگر طبیعت میں اُکتاہٹ پیدا ہو جائے تو عبادت کے بجائے آرام کرنا چاہیے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ دوران نماز میں اگر نیند آنا شروع ہو جائے تو نماز ترک کر کے سو جانا چاہیے، مبادا وہ استغفار کے بجائے خود کو گالیاں دیتا رہے۔ ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ثواب دینے سے تنگ نہیں پڑتا بلکہ تم خود ہی اس عمل سے تنگ آ کر اسے چھوڑ دیتے ہو۔ الغرض انسان کو اپنی وسعت اور طاقت کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔ (فتح الباري:48/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اور امام بخاریؒ نے فرمایا کہ ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے مالکؒ نے، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ میرے پاس بن و اسد کی ایک عورت بیٹھی تھی، نبی کریم ﷺ تشریف لائے تو ان کے متعلق پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ میں نے کہا کہ یہ فلاں خاتون ہیں جو رات بھر نہیں سوتیں۔ ان کی نماز کا آپ کے سامنے ذکر کیا گیا۔ لیکن آپ نے فرمایا کہ بس تمہیں صرف اتنا ہی عمل کرنا چاہیے جتنے کی تم میں طاقت ہو۔ کیونکہ اللہ تعالی تو ( ثواب دینے سے ) تھکتا ہی نہیں تم ہی عمل کر تے کرتے تھک جاؤ گے۔
حدیث حاشیہ:
اس لیے حدیث انس ؓ اور حدیث عائشہ ؓ میں مروی ہے کہ إذا نعسَ أحَدُکُم في الصلوةِ فلیَنَم حتی یعلمَ ما یقرأُ۔یعنی جب نماز میں کوئی سونے لگے تو اسے چاہیے کہ پہلے سولے پھر نماز پڑھے تاکہ وہ سمجھ لے کہ کیا پڑھ رہا ہے۔ یہ لفظ بھی ہیں: فَلیرقُد حتی یذھبَ عنهُ النومُ۔ ( فتح الباری ) یعنی سوجائے تاکہ اس سے نیند چلی جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Aishah: A woman from the tribe of Bani Asad was sitting with me and Allah's Apostle (p.b.u.h) came to my house and said, "Who is this?" I said, "(She is) so and so. She does not sleep at night because she is engaged in prayer." The Prophet (ﷺ) said disapprovingly: Do (good) deeds which is within your capacity as Allah never gets tired of giving rewards till you get tired of doing good deeds”.