باب: جو شخص رات کو عبادت کیا کرتا تھا وہ اگر اسے چھوڑ دے تو اس کی یہ عادت مکروہ ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Prayer at Night (Tahajjud)
(Chapter: It is disliked for a person to leave the night Salat)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1152.
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’اے عبداللہ! فلاں شخص کی طرح مت ہو جانا کہ وہ رات کو اٹھا کرتا تھا، پھر اس نے قیام اللیل ترک کر دیا۔‘‘ ہشام نے کہا: مجھے ابن ابو عشرین نے اپنی پوری سند کے ساتھ اسی طرح خبر دی ہے۔ عمرو بن ابوسلمہ نے بھی امام اوزاعی سے بیان کرنے میں ابن ابو عشرین کی متابعت کی ہے۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس عبادت کو بجا لانے کا انسان عادی بن جائے اسے بلا وجہ ترک نہیں کرنا چاہیے اگرچہ وہ عبادت نفل ہی ہو۔ (2) امام بخاری ؒ نے عبادت کے سلسلے میں عدم تشدد کے بعد اسے بیان کیا ہے کہ عبادت کے التزام پر میانہ روی اختیار کرنی چاہیے کیونکہ تشدد کرنے سے بعض اوقات انسان اسے چھوڑنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ الغرض نیکی کے کام میں سہولت اور آسانی کو ملحوظ رکھتے ہوئے دوام اور ہمیشگی کرنی چاہیے۔ حدیث کے آخر میں جو متابعت ہے اسے امام مسلم نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:49/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1128
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1152
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1152
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1152
تمہید کتاب
تہجد، ہجود سے ہے جس کے لغوی معنی سونا اور سو کر بیدار ہونا دونوں ہیں۔ چونکہ نماز تہجد سو کر اٹھنے کے بعد رات کے آخری حصے میں پڑھی جاتی ہے، اس لیے اسے تہجد کہتے ہیں۔ اس اعتبار سے بعض لوگ قبل از نیند رات کے نوافل کو تہجد قرار نہیں دیتے۔ ان کے نزدیک تہجد وہی ہے جو سو کر اٹھنے کے بعد پڑھی جائے۔ لیکن اس کی کوئی دلیل نہیں۔ تاہم عام لوگوں کے لیے بھی، جن کے لیے رات کو بیدار ہونا باعث مشقت اور طبیعت پر گراں ہوتا ہے، یہ خوش خبری ہے کہ اگر کوئی شخص نماز عشاء کے متصل وتر کے بعد دو رکعت پڑھ کر سو جائے اور رات کو وہ بیدار نہ بھی ہو سکے تو وہی دو رکعت اس کے لیے قیام اللیل اور تہجد کی جگہ کافی ہوں گی۔(سنن الدارمی،الصلاۃ،حدیث:1801)فرائض پنجگانہ کے بعد اس نماز کی بہت اہمیت و فضیلت ہے۔ دراصل نماز عشاء اور نماز فجر کے درمیان کے طویل وقفے میں کوئی نماز فرض نہیں کی گئی، حالانکہ یہ وقت اس اعتبار سے نہایت قیمتی ہوتا ہے کہ اس میں پرسکون لمحات میسر آتے ہیں۔ اگر آدمی نماز عشاء ادا کرنے کے بعد کچھ دیر کے لیے سو جائے، پھر نصف شب گزر جانے کے بعد کسی وقت بیدار ہو جائے تو ان لمحات میں بڑی یکسوئی اور دل جمعی نصیب ہوتی ہے۔ اس دوران میں نماز پڑھتے وقت دل کی سکون اور اطمینان نصیب ہوتا ہے جو دوسرے کسی وقت میں میسر نہیں آتا۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق ایسے وقت میں بستر چھوڑ کر نماز پڑھنا نفس کی ریاضت اور اس کی تربیت کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا ﴿٦﴾) "رات کا اٹھنا یقینا نفس کو زیر کرنے (کچلنے) کا ذریعہ ہے اور قرآن پڑھنے کے لیے یہی زیادہ موزوں وقت ہے۔" (المزمل6:73)ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے تہجد گزار بندوں کی بایں الفاظ تعریف فرمائی ہے: (تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿١٦﴾ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١٧﴾) "ان کے پہلو بستروں سے جدا رہتے ہیں۔ (اور) وہ اپنے رب کو ڈرتے ہوئے اور امید سے پکارتے ہیں۔ اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کی کیا کیا چیزیں چھپا کر رکھی گئی ہیں۔ یہ ان کاموں کا بدلہ ہے جو وہ دنیا میں کیا کرتے تھے۔" (السجدۃ18:32۔17)قرآن کریم میں ایک مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تہجد کا حکم دینے کے ساتھ آپ کو مقام محمود کی امید دلائی گئی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا ﴿٧٩﴾) (بنی اسرائیل79:17) "آپ رات کے کچھ حصے میں تہجد ادا کیجیے۔ یہ آپ کے لیے زائد (اور مخصوص) ہے۔ امید ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز کرے گا۔"واضح رہے کہ مقام محمود جنت میں ایک بلند ترین مقام ہے جو قیامت کے دن صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نصیب ہو گا۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ مقام محمود اور نماز تہجد میں کوئی خاص مناسبت ہے، اس لیے جو امتی نماز تہجد سے شغف رکھیں گے انہیں مقام محمود کے کسی درجے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت ضرور نصیب ہو گی۔احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رات کے آخری حصے میں اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم اور اپنی خاص شان رحمت کے ساتھ آسمان اول پر نزول فرماتا اور اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان مبارک ساعات اور پرکیف لمحات کا احساس دلانے کے لیے تہجد کا عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں تقریبا اڑسٹھ (68) احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر موقع و محل کی مناسبت سے سینتیس (37) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ تہجد رات کی نفل نماز ہے، اس مناسبت سے دن میں جو نفل نمازیں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں، ان کے متعلق بھی احادیث پیش کی ہیں، مثلاً: نماز فجر سے پہلے دو سنتوں کی اہمیت و فضیلت، ان میں قراءت اور سلام پھیرنے کے بعد دائیں پہلو پر لیٹنے کی حیثیت، پھر نماز چاشت کا بیان، اسی طرح گھروں میں نوافل ادا کرنے کا اہتمام اور ان کی جماعت کو بطور خاص بیان کیا ہے۔ نماز تہجد کے متعلق اس کی اہمیت و فضیلت، رمضان المبارک میں اس کا خصوصی اہتمام اس کی رکعات کی تعداد، نیز اس کے متعلق عدم تشدد اور اس کے کلیتاً ترک کرنے کی نحوست، بیماری یا کسی اور وجہ سے اس کا ترک کرنا، نیز اس میں قیام اور سجود کا لمبا کرنا، خاص طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد کا نمونہ اور امت کو اس کے متعلق شوق دلانا، علاوہ ازیں وقت سحر اور اس کی فضیلت وغیرہ کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خصوصیت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے آثار بھی بیان فرمائے ہیں۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اپنے قلوب و اذہان کو جلا بخشنے کے لیے اس کا مطالعہ کریں اور شب بیداری کے جذبے سے ان احادیث کو پڑھیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان مبارک لمحات میں نیاز و مناجات کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’اے عبداللہ! فلاں شخص کی طرح مت ہو جانا کہ وہ رات کو اٹھا کرتا تھا، پھر اس نے قیام اللیل ترک کر دیا۔‘‘ ہشام نے کہا: مجھے ابن ابو عشرین نے اپنی پوری سند کے ساتھ اسی طرح خبر دی ہے۔ عمرو بن ابوسلمہ نے بھی امام اوزاعی سے بیان کرنے میں ابن ابو عشرین کی متابعت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس عبادت کو بجا لانے کا انسان عادی بن جائے اسے بلا وجہ ترک نہیں کرنا چاہیے اگرچہ وہ عبادت نفل ہی ہو۔ (2) امام بخاری ؒ نے عبادت کے سلسلے میں عدم تشدد کے بعد اسے بیان کیا ہے کہ عبادت کے التزام پر میانہ روی اختیار کرنی چاہیے کیونکہ تشدد کرنے سے بعض اوقات انسان اسے چھوڑنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ الغرض نیکی کے کام میں سہولت اور آسانی کو ملحوظ رکھتے ہوئے دوام اور ہمیشگی کرنی چاہیے۔ حدیث کے آخر میں جو متابعت ہے اسے امام مسلم نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:49/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عباس بن حسین نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے مبشر بن اسماعیل حلبی نے، اوزاعی سے بیان کیا (دوسری سند) اور مجھ سے محمد بن مقاتل ابو الحسن نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں عبد اللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں امام اوزاعی نے خبر دی کہا کہ مجھ سے یحیٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ نے بیان کیا، کہاکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے عبد اللہ! فلاں کی طرح نہ ہوجانا وہ رات میں عبادت کیا کرتا تھا پھر چھوڑدی۔ اور ہشام بن عمار نے کہا کہ ہم سے عبد الحمید بن ابوالعشرین نے بیان کیا، ان سے امام اوزاعی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یحیٰ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن حکم بن ثوبان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے، اسی طرح پھر یہی حدیث بیان کی، ابن ابی العشرین کی طرح عمرو بن ابی سلمہ نے بھی اس کو امام اوزاعی سے روایت کیا۔
حدیث حاشیہ:
تشریح : عباس بن حسین سے امام بخاری ؒ نے اس کتاب میں ایک یہ حدیث اور ایک جہاد کے باب میں روایت کی، پس دوہی حدیثیں۔ یہ بغداد کے رہنے والے تھے۔ ابن ابی عشرین یہ امام اوزاعی کا منشی تھا، اس میں محدثین نے کلام کیا ہے، مگر امام بخاری ؒ اس کی روایت متابعتاً لائے۔ ابو سلمہ بن عبد الرحمن کی سند کو امام بخاری اس لیے لائے کہ اس میں یحیٰ بن ابی کثیر اور ابو سلمہ میں ایک شخص کا واسطہ ہے، یعنی عمرو بن حکم کا اور اگلی سند میں یحیٰ کہتے ہیں کہ مجھ سے خود ابو سلمہ نے بیان کیا تو شاید یحیٰ نے یہ حدیث عمرو کے واسطے سے اور بلا واسطہ دونوں طرح ابو سلمہ سے سنی۔ ( وحیدی )
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Amr bin Al-'As (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said to me, "O 'Abdullah! Do not be like so and so who used to pray at night and then stopped the night prayer."