Sahi-Bukhari:
Prayer at Night (Tahajjud)
(Chapter: Whoever talks after offering two Rak'a (Sunna) (of the Fajr prayer))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1167.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب نماز فجر کی سنتیں پڑھ لیتے اگر میں بیدار ہوتی تو میرے ساتھ گفتگو فرماتے، بصورت دیگر آپ لیٹ جاتے حتی کہ نماز فجر کے لیے اقامت کہی جاتی۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نماز فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنا ضروری نہیں، سنتوں اور فرضوں کے درمیان گفتگو سے بھی فصل کیا جا سکتا ہے۔ امام شافعی ؒ نے اس موقف کو اختیار کیا ہے کہ سنتوں کے بعد لیٹنے کا مقصد صرف فرض اور سنت میں فصل کرنا ہے، وہ لیٹنے کے علاوہ کسی چیز سے بھی ہو سکتا ہے، لیکن امام نووی ؒ نے حدیث ابو ہریرہ کے پیش نظر اسے سنت قرار دیا ہے کیونکہ راوئ حدیث حضرت ابو ہریرہ ؓ نے سنتوں کی ادائیگی کے بعد مسجد کی طرف چل کر آنے کو کافی نہیں سمجھا جیسا کہ مروان نے کہا تھا بلکہ لیٹنے کی تلقین کی ہے۔ (سنن أبي داود، التطوع، حدیث:1281) (2) بعض حضرات کا خیال ہے کہ اگر گھر میں سنت پڑھی جائیں تو لیٹنا چاہیے، مسجد میں لیٹنا درست نہیں۔ حضرت ابن عمر ؓ مسجد میں لیٹنے والے کو کنکریاں مارتے تھے۔ (مصنف ابن أبي شیبة) امام بخاری ؒ کے عنوان سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اگر سنت سے فراغت کے بعد لیٹتے تو گفتگو نہ فرماتے اور اگر گفتگو کرتے تو لیٹتے نہیں تھے اور امام ابن خزیمہ ؒ نے بھی اپنی صحیح میں اسی قسم کا عنوان قائم کیا ہے، لیکن امام احمد ؒ نے ایک حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز تہجد پڑھتے، فراغت کے بعد لیٹ جاتے، اگر میں بیدار ہوتی تو میرے ساتھ گفتگو فرماتے اور اگر میں نیند میں ہوتی تو آپ بھی سو جاتے حتی کہ آپ کے پاس صبح کی نماز کے لیے مؤذن آتا۔ (مسند أحمد:35/6) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ لیٹنے کے دوران میں گفتگو کرتے تھے۔ بہرحال صبح کی دو سنت پڑھنے کے بعد لیٹنا مشروع ہے، اسے خلاف سنت قرار دینا درست نہیں۔ (فتح الباري:58/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1135
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1161
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1161
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1161
تمہید کتاب
تہجد، ہجود سے ہے جس کے لغوی معنی سونا اور سو کر بیدار ہونا دونوں ہیں۔ چونکہ نماز تہجد سو کر اٹھنے کے بعد رات کے آخری حصے میں پڑھی جاتی ہے، اس لیے اسے تہجد کہتے ہیں۔ اس اعتبار سے بعض لوگ قبل از نیند رات کے نوافل کو تہجد قرار نہیں دیتے۔ ان کے نزدیک تہجد وہی ہے جو سو کر اٹھنے کے بعد پڑھی جائے۔ لیکن اس کی کوئی دلیل نہیں۔ تاہم عام لوگوں کے لیے بھی، جن کے لیے رات کو بیدار ہونا باعث مشقت اور طبیعت پر گراں ہوتا ہے، یہ خوش خبری ہے کہ اگر کوئی شخص نماز عشاء کے متصل وتر کے بعد دو رکعت پڑھ کر سو جائے اور رات کو وہ بیدار نہ بھی ہو سکے تو وہی دو رکعت اس کے لیے قیام اللیل اور تہجد کی جگہ کافی ہوں گی۔(سنن الدارمی،الصلاۃ،حدیث:1801)فرائض پنجگانہ کے بعد اس نماز کی بہت اہمیت و فضیلت ہے۔ دراصل نماز عشاء اور نماز فجر کے درمیان کے طویل وقفے میں کوئی نماز فرض نہیں کی گئی، حالانکہ یہ وقت اس اعتبار سے نہایت قیمتی ہوتا ہے کہ اس میں پرسکون لمحات میسر آتے ہیں۔ اگر آدمی نماز عشاء ادا کرنے کے بعد کچھ دیر کے لیے سو جائے، پھر نصف شب گزر جانے کے بعد کسی وقت بیدار ہو جائے تو ان لمحات میں بڑی یکسوئی اور دل جمعی نصیب ہوتی ہے۔ اس دوران میں نماز پڑھتے وقت دل کی سکون اور اطمینان نصیب ہوتا ہے جو دوسرے کسی وقت میں میسر نہیں آتا۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق ایسے وقت میں بستر چھوڑ کر نماز پڑھنا نفس کی ریاضت اور اس کی تربیت کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا ﴿٦﴾) "رات کا اٹھنا یقینا نفس کو زیر کرنے (کچلنے) کا ذریعہ ہے اور قرآن پڑھنے کے لیے یہی زیادہ موزوں وقت ہے۔" (المزمل6:73)ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے تہجد گزار بندوں کی بایں الفاظ تعریف فرمائی ہے: (تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿١٦﴾ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١٧﴾) "ان کے پہلو بستروں سے جدا رہتے ہیں۔ (اور) وہ اپنے رب کو ڈرتے ہوئے اور امید سے پکارتے ہیں۔ اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کی کیا کیا چیزیں چھپا کر رکھی گئی ہیں۔ یہ ان کاموں کا بدلہ ہے جو وہ دنیا میں کیا کرتے تھے۔" (السجدۃ18:32۔17)قرآن کریم میں ایک مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تہجد کا حکم دینے کے ساتھ آپ کو مقام محمود کی امید دلائی گئی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا ﴿٧٩﴾) (بنی اسرائیل79:17) "آپ رات کے کچھ حصے میں تہجد ادا کیجیے۔ یہ آپ کے لیے زائد (اور مخصوص) ہے۔ امید ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز کرے گا۔"واضح رہے کہ مقام محمود جنت میں ایک بلند ترین مقام ہے جو قیامت کے دن صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نصیب ہو گا۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ مقام محمود اور نماز تہجد میں کوئی خاص مناسبت ہے، اس لیے جو امتی نماز تہجد سے شغف رکھیں گے انہیں مقام محمود کے کسی درجے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت ضرور نصیب ہو گی۔احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رات کے آخری حصے میں اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم اور اپنی خاص شان رحمت کے ساتھ آسمان اول پر نزول فرماتا اور اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان مبارک ساعات اور پرکیف لمحات کا احساس دلانے کے لیے تہجد کا عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں تقریبا اڑسٹھ (68) احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر موقع و محل کی مناسبت سے سینتیس (37) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ تہجد رات کی نفل نماز ہے، اس مناسبت سے دن میں جو نفل نمازیں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں، ان کے متعلق بھی احادیث پیش کی ہیں، مثلاً: نماز فجر سے پہلے دو سنتوں کی اہمیت و فضیلت، ان میں قراءت اور سلام پھیرنے کے بعد دائیں پہلو پر لیٹنے کی حیثیت، پھر نماز چاشت کا بیان، اسی طرح گھروں میں نوافل ادا کرنے کا اہتمام اور ان کی جماعت کو بطور خاص بیان کیا ہے۔ نماز تہجد کے متعلق اس کی اہمیت و فضیلت، رمضان المبارک میں اس کا خصوصی اہتمام اس کی رکعات کی تعداد، نیز اس کے متعلق عدم تشدد اور اس کے کلیتاً ترک کرنے کی نحوست، بیماری یا کسی اور وجہ سے اس کا ترک کرنا، نیز اس میں قیام اور سجود کا لمبا کرنا، خاص طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد کا نمونہ اور امت کو اس کے متعلق شوق دلانا، علاوہ ازیں وقت سحر اور اس کی فضیلت وغیرہ کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خصوصیت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے آثار بھی بیان فرمائے ہیں۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اپنے قلوب و اذہان کو جلا بخشنے کے لیے اس کا مطالعہ کریں اور شب بیداری کے جذبے سے ان احادیث کو پڑھیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان مبارک لمحات میں نیاز و مناجات کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب نماز فجر کی سنتیں پڑھ لیتے اگر میں بیدار ہوتی تو میرے ساتھ گفتگو فرماتے، بصورت دیگر آپ لیٹ جاتے حتی کہ نماز فجر کے لیے اقامت کہی جاتی۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نماز فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنا ضروری نہیں، سنتوں اور فرضوں کے درمیان گفتگو سے بھی فصل کیا جا سکتا ہے۔ امام شافعی ؒ نے اس موقف کو اختیار کیا ہے کہ سنتوں کے بعد لیٹنے کا مقصد صرف فرض اور سنت میں فصل کرنا ہے، وہ لیٹنے کے علاوہ کسی چیز سے بھی ہو سکتا ہے، لیکن امام نووی ؒ نے حدیث ابو ہریرہ کے پیش نظر اسے سنت قرار دیا ہے کیونکہ راوئ حدیث حضرت ابو ہریرہ ؓ نے سنتوں کی ادائیگی کے بعد مسجد کی طرف چل کر آنے کو کافی نہیں سمجھا جیسا کہ مروان نے کہا تھا بلکہ لیٹنے کی تلقین کی ہے۔ (سنن أبي داود، التطوع، حدیث:1281) (2) بعض حضرات کا خیال ہے کہ اگر گھر میں سنت پڑھی جائیں تو لیٹنا چاہیے، مسجد میں لیٹنا درست نہیں۔ حضرت ابن عمر ؓ مسجد میں لیٹنے والے کو کنکریاں مارتے تھے۔ (مصنف ابن أبي شیبة) امام بخاری ؒ کے عنوان سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اگر سنت سے فراغت کے بعد لیٹتے تو گفتگو نہ فرماتے اور اگر گفتگو کرتے تو لیٹتے نہیں تھے اور امام ابن خزیمہ ؒ نے بھی اپنی صحیح میں اسی قسم کا عنوان قائم کیا ہے، لیکن امام احمد ؒ نے ایک حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز تہجد پڑھتے، فراغت کے بعد لیٹ جاتے، اگر میں بیدار ہوتی تو میرے ساتھ گفتگو فرماتے اور اگر میں نیند میں ہوتی تو آپ بھی سو جاتے حتی کہ آپ کے پاس صبح کی نماز کے لیے مؤذن آتا۔ (مسند أحمد:35/6) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ لیٹنے کے دوران میں گفتگو کرتے تھے۔ بہرحال صبح کی دو سنت پڑھنے کے بعد لیٹنا مشروع ہے، اسے خلاف سنت قرار دینا درست نہیں۔ (فتح الباري:58/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے بشر بن حکم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے سالم ابو النضرنے ابو سلمہ بن عبد الرحمن سے بیان کیا اور ان سے حضرت عائشہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ جب فجر کی سنتیں پڑھ چکتے تو اگر میں جاگتی ہوتی تو آپ مجھ سے باتیں کرتے ورنہ لیٹ جاتے جب تک نماز کی اذان ہوتی۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ اگر لیٹنے کا موقع نہ ملے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ مگر اس لیٹنے کو برا جاننا فعل رسول کی تنقیص کرناہے
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Aisha (RA): After offering the Sunna of the Fajr prayer, the Prophet (ﷺ) used to talk to me, if I happen to be awake; otherwise he would lie down till the Iqama call was proclaimed (for the Fajr prayer). ________