باب: مکہ اور مدینہ کی مساجد میں نماز کی فضیلت کا بیان۔
)
Sahi-Bukhari:
Virtues of Prayer at Masjid Makkah and Madinah
(Chapter: The superiority of offering As-Salat in the Mosque of Makkah and Al-Madina)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1190.
حضرت ابوہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میری اس مسجد میں ایک نماز پڑھنا مسجد حرام کے سوا دیگر مساجد میں ایک ہزار نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔‘‘
تشریح:
(1) میری اس مسجد سے مراد مسجد نبوی ہے۔ حضرت امام بخاری ؒ کا اشارہ یہی ہے کہ مسجد نبوی کی زیارت کے لیے سفر اختیار کیا جائے۔ پھر جس شخص کو یہ سعادت نصیب ہو گی وہ رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک کی زیارت کرے گا، نیز آپ پر درود و سلام پھر شیخین کی قبروں پر سلام پڑھنے کی سعادتیں اسے حاصل ہوں گی۔ پہلی امتوں کے کچھ لوگ کوہ طور اور حضرت یحییٰ ؑ کی قبر مبارک کی زیارت کے لیے دور دراز کا سفر کر کے آتے تھے، رسول اللہ ﷺ نے صرف تین زیارت گاہیں مقرر فرمائی ہیں۔ ان کے علاوہ اجمیر، سہون، بغداد یا کربلا کا سفر کرنا شرعاً صحیح نہیں۔ واللہ أعلم۔ (2) ابن حجر ؒ لکھتے ہیں: شارح بخاری ابن بطال نے لکھا ہے کہ حدیث میں ’’مسجد حرام کے علاوہ‘‘ کے الفاظ میں تین امور کا احتمال ہے: وہ یہ کہ مسجد حرام مسجد نبوی کے مساوی ہے یا اس سے افضل یا اس سے کمتر، پہلا درجہ کہ اسے مساوی قرار دیا جائے یہی راجح معلوم ہوتا ہے، کیونکہ اس کا افضل یا کم تر ہونا دلیل کا محتاج ہے۔ شاید انہیں وہ حدیث نہیں پہنچی جس میں وضاحت ہے کہ مسجد حرام میں نماز پڑھنا ایک لاکھ، مسجد نبوی میں نماز ادا کرنا ایک ہزار اور مسجد اقصیٰ میں نماز کی ادائیگی پانچ سو نماز کے برابر ہے۔ اس روایت کو امام بزار نے اپنی مسند اور امام طبرانی نے اپنی معجم میں بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:87/3) اس لیے ابن بطال کا موقف مرجوح ہے۔ امام نووی ؒ نے لکھا ہے کہ نمازی کو کوشش کے ساتھ مسجد نبوی کے اس حصے میں نماز پڑھنی چاہیے جسے خود رسول اللہ ﷺ نے تعمیر کیا تھا، کیونکہ حدیث میں مسجدي هذا کے الفاظ سے اسی طرف اشارہ مقصود ہے۔ لیکن علمائے امت کا اتفاق ہے کہ مذکورہ فضیلت موجودہ تمام توسیع شدہ مسجد کو شامل ہے۔ واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ کے دور مبارک میں مسجد نبوی کچی اینٹوں سے بنائی گئی تھی، اس کی چھت کھجور کی شاخوں سے تیار کی گئی تھی اور اس کے ستون کھجور کے تنے تھے۔ (صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حدیث:3906) جب رسول اللہ ﷺ غزوۂ خیبر سے واپس آئے تو مسجد نبوی میں پہلی دفعہ توسیع کی گئی کیونکہ مسلمانوں کی تعداد بڑھ چکی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے عرض میں چالیس ہاتھ اور طول میں تیس ہاتھ کا اضافہ فرمایا، البتہ دیوار قبلہ پہلی حد تک ہی رہی۔ کھجور کے تنوں سے بنائے ہوئے دور نبوی کے ستون جب کھوکھلے ہو گئے تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے انہیں تبدیل کر دیا۔ مسجد نبوی میں توسیع کے متعلق مکمل معلومات کے لیے اطلس سیرت نبوی (ص: 160 تا 165 طبع دارالسلام) کا مطالعہ مفید رہے گا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1161
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1190
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1190
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1190
تمہید کتاب
صحیح بخاری کا موضوع امکانی حد تک امت مسلمہ کی اعتقادی، اخلاقی اور عملی رہنمائی کرنا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اللہ کی زمین پر مساجد بہترین خطبے اور بازار بدترین ٹکڑے ہیں۔ اللہ کے بندے اس کی عبادت اور خوشنودی کے لیے ان مساجد کا رخ کرتے ہیں۔ اس کے برعکس کچھ لوگ مساجد کو نظر انداز کر کے مشاہدہ و مقابر اور مزارات کا رخ کرتے ہیں تاکہ وہاں مدفون بزرگ خوش ہو کر ان کی حاجت روائی کا وسیلہ بن جائیں، پھر ان کی اس درجہ تعظیم کرتے ہیں جو کھلے شرک تک پہنچ جاتی ہے، مثلاً: کسی درگاہ پر چلہ کشی یا خانقاہ پر اعتکاف یا آستانے پر نذرونیاز یا بغرض ثواب مزارات کا سفر اس اعتقادی خرابی کے برگ و ہار ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے تطوع کے ابواب کے بعد اس مسئلے کی وضاحت بھی ضروری خیال کی۔ اس سلسلے میں انہوں نے مرفوع احادیث پر چھ (6) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں: سب سے پہلے مسجد حرام اور مسجد نبوی میں نماز ادا کرنے کی فضیلت بیان فرمائی۔ اس کے بعد مسجد قباء کا ذکر کیا۔ اس مناسبت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل مبارک کا حوالہ دیا کہ آپ ہفتے کے دن مسجد قباء پیدل یا سوار ہو کر جاتے تھے۔ بعد ازاں مسجد نبوی میں بعض مقامات کی فضیلت بیان فرمائی اور آخر میں مسجد اقصیٰ کی فضیلت کے متعلق حدیث ذکر کی۔دراصل اس عالم رنگ و بو میں کوئی قطعۂ ارضی ایسا نہیں جس کا فضل و شرف اپنا ذاتی ہو تاکہ اس کے فضل و شرف کی وجہ سے اس کی طرف رختِ سفر باندھنا جائز ہو، ہاں تین مساجد ایسی ہیں جن کی زیارت کی خاطر سفر کرنا عبادت اور باعث اجروثواب ہے اور ان کی فضیلت کے متعلق شریعت نے ہمیں آگاہ کیا ہے جیسا کہ آئندہ معلوم ہو گا۔ ان مساجد کے نام یہ ہیں: مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ۔ مسجد قباء کی طرف جانے اور وہاں نماز پڑھنے کی فضیلت بھی احادیث میں وارد ہے، لہذا وہ ممانعت کے اس عمومی حکم سے مستثنیٰ ہے۔ ان کے علاوہ دیگر شہروں کا سفر تبلیغ اسلام، جہاد فی سبیل اللہ، تحصیل علم، زیارت اخوان اور کسب معاش وغیرہ کے لیے تو کیا جا سکتا ہے لیکن کسی ذاتی شرف کی وجہ سے بغرضِ تقرب و عبادت نہیں کیونکہ دیگر مقامات کا سفر بغرض عبادت مشروع نہیں جیسا کہ ابو بصرہ غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ جب کوہ طور سے واپس آئے تو وہ ان سے ملے اور انہوں نے دریافت کیا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں؟ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ میں کوہ طور پر گیا تھا، وہاں نماز پڑھ کر واپس آیا ہوں۔ حضرت ابو بصرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر مجھے آپ کے وہاں جانے کا پہلے علم ہو جاتا تو آپ کو وہاں نہ جانے دیتا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے: "تین مساجد کے علاوہ کسی دوسری جگہ جانے کے لیے رخت سفر نہیں باندھنا چاہیے۔ وہ مسجدیں یہ ہیں: مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ۔" (مسنداحمد:6/7)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تین مساجد کے علاوہ کسی اور جگہ عبادت و تقرب کی نیت سے جانا منع ہے۔ یہ ممانعت مسجد قباء کی طرف سفر کرنے میں رکاوٹ نہیں کیونکہ اس کی طرف سفر اختیار کرنے اور وہاں نماز پڑھنے کی فضیلت دیگر احادیث سے ثابت ہے۔ اس کی تفصیل باب: 34 کے تحت آ رہی ہے۔ اس حکم امتناعی کو صرف مساجد سے خاص کرنا صحیح نہیں کیونکہ صحابئ رسول نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کوہ طور پر قصداً عبادت کی نیت سے سفر کرنے کو منع فرمایا ہے، حالانکہ جبل طور پر مسجد نہیں بلکہ وہ ایک مقدس مقام ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام رب کائبات سے ہم کلام ہوئے تھے۔ جب ایسے مقام پر بغرضِ عبادت جانے کی اجازت نہیں تو ملک عزیز میں پھیلے ہوئے مزارات و مشاہد پر بغرض عبادت و زیارت جانا کیونکر جائز ہو سکتا ہے؟ چونکہ شرعی طور پر ایسا کرنا بے شمار مفاسد کا پیش خیمہ تھا، اس لیے اس کا سدباب ضروری تھا، البتہ قبرستان میں اہل قبور کے لیے دعائے مغفرت کی خاطر جانا متعدد احادیث سے ثابت ہے، نیز وہاں جانے سے آخرت کی یاددہانی بھی ہوتی ہے۔ مسجد نبوی میں ادائے نماز کی نیت سے مدینہ منورہ کا سفر کرنا، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر حاضری دینا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام پڑھنا، پھر حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما پر سلام پڑھنا، اس کے بعد بقیع کے قبرستان میں جا کر وہاں مدفون جملہ اموات کے لیے دعائے مغفرت کرنا احادیث سے ثابت ہے جن کی وضاحت ہم آئندہ کریں گے۔ہماری ان گزارشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے آئندہ احادیث کا مطالعہ کریں تاکہ قلب و ذہن کے لیے جلا کا باعث ہوں۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
حضرت ابوہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میری اس مسجد میں ایک نماز پڑھنا مسجد حرام کے سوا دیگر مساجد میں ایک ہزار نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) میری اس مسجد سے مراد مسجد نبوی ہے۔ حضرت امام بخاری ؒ کا اشارہ یہی ہے کہ مسجد نبوی کی زیارت کے لیے سفر اختیار کیا جائے۔ پھر جس شخص کو یہ سعادت نصیب ہو گی وہ رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک کی زیارت کرے گا، نیز آپ پر درود و سلام پھر شیخین کی قبروں پر سلام پڑھنے کی سعادتیں اسے حاصل ہوں گی۔ پہلی امتوں کے کچھ لوگ کوہ طور اور حضرت یحییٰ ؑ کی قبر مبارک کی زیارت کے لیے دور دراز کا سفر کر کے آتے تھے، رسول اللہ ﷺ نے صرف تین زیارت گاہیں مقرر فرمائی ہیں۔ ان کے علاوہ اجمیر، سہون، بغداد یا کربلا کا سفر کرنا شرعاً صحیح نہیں۔ واللہ أعلم۔ (2) ابن حجر ؒ لکھتے ہیں: شارح بخاری ابن بطال نے لکھا ہے کہ حدیث میں ’’مسجد حرام کے علاوہ‘‘ کے الفاظ میں تین امور کا احتمال ہے: وہ یہ کہ مسجد حرام مسجد نبوی کے مساوی ہے یا اس سے افضل یا اس سے کمتر، پہلا درجہ کہ اسے مساوی قرار دیا جائے یہی راجح معلوم ہوتا ہے، کیونکہ اس کا افضل یا کم تر ہونا دلیل کا محتاج ہے۔ شاید انہیں وہ حدیث نہیں پہنچی جس میں وضاحت ہے کہ مسجد حرام میں نماز پڑھنا ایک لاکھ، مسجد نبوی میں نماز ادا کرنا ایک ہزار اور مسجد اقصیٰ میں نماز کی ادائیگی پانچ سو نماز کے برابر ہے۔ اس روایت کو امام بزار نے اپنی مسند اور امام طبرانی نے اپنی معجم میں بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:87/3) اس لیے ابن بطال کا موقف مرجوح ہے۔ امام نووی ؒ نے لکھا ہے کہ نمازی کو کوشش کے ساتھ مسجد نبوی کے اس حصے میں نماز پڑھنی چاہیے جسے خود رسول اللہ ﷺ نے تعمیر کیا تھا، کیونکہ حدیث میں مسجدي هذا کے الفاظ سے اسی طرف اشارہ مقصود ہے۔ لیکن علمائے امت کا اتفاق ہے کہ مذکورہ فضیلت موجودہ تمام توسیع شدہ مسجد کو شامل ہے۔ واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ کے دور مبارک میں مسجد نبوی کچی اینٹوں سے بنائی گئی تھی، اس کی چھت کھجور کی شاخوں سے تیار کی گئی تھی اور اس کے ستون کھجور کے تنے تھے۔ (صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حدیث:3906) جب رسول اللہ ﷺ غزوۂ خیبر سے واپس آئے تو مسجد نبوی میں پہلی دفعہ توسیع کی گئی کیونکہ مسلمانوں کی تعداد بڑھ چکی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے عرض میں چالیس ہاتھ اور طول میں تیس ہاتھ کا اضافہ فرمایا، البتہ دیوار قبلہ پہلی حد تک ہی رہی۔ کھجور کے تنوں سے بنائے ہوئے دور نبوی کے ستون جب کھوکھلے ہو گئے تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے انہیں تبدیل کر دیا۔ مسجد نبوی میں توسیع کے متعلق مکمل معلومات کے لیے اطلس سیرت نبوی (ص: 160 تا 165 طبع دارالسلام) کا مطالعہ مفید رہے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے زید بن رباح اور عبید اللہ بن ابی عبد اللہ اغرسے خبر دی، انہیں ابو عبد للہ اغر نے اور انہیں ابو ہریرہ ؓ کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میری اس مسجد میں نماز مسجد حرام کے سوا تمام مسجدوں میں نماز سے ایک ہزار درجہ زیادہ افضل ہے۔
حدیث حاشیہ:
میری مسجد سے مسجد نبوی مراد ہے۔ حضرت امام ؒ کا اشارہ یہی ہے کہ مسجد نبوی کی زیارت کے لیے شد رحال کیا جائے اور جو وہاں جائے گا لازماً رسول کریم ﷺ وحضرات شیخین پر بھی درود وسلام کی سعادتیں اس کو حاصل ہوں گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) Allah's Apostle (ﷺ) said, "One prayer in my Mosque is better than one thousand prayers in any other mosque excepting Al-Masjid-AI-Haram."