Sahi-Bukhari:
Virtues of Prayer at Masjid Makkah and Madinah
(Chapter: The Masjid Quba (the Mosque of Quba))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1192.
حضرت ابن عمر ؓ ہی کا بیان ہے کہ میں اس طرح کرتا ہوں جیسے میں نے اپنے دوستوں کو کرتے دیکھا ہے۔ اور میں کسی کو منع نہیں کرتا کہ وہ رات یا دن میں جب چاہے نماز پڑھے، ہاں! قصدا سورج نکلتے یا غروب ہوتے وقت نماز پڑھنے سے اجتناب کرو۔
تشریح:
ان احادیث میں امام بخاری ؒ نے مسجد قباء میں نماز پڑھنے کی فضیلت کو بیان کیا ہے۔ واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے یثرب کی بیرونی بستی قباء پہنچے تھے جسے عالیہ بھی کہا جاتا تھا۔ قباء ایک کنویں کا نام ہے جس کی نسبت سے بستی کا نام بھی قباء مشہور ہو گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے قبیلۂ عمرو بن عوف کے سردار کلثوم بن ہدم کے ہاں قیام فرمایا اور حضرت ابوبکر ؓ نے حبیب بن اساف کو شرف میزبانی بخشا۔ رات کو سعد بن خیثمہ کے ہاں مجلس لگتی۔ تین دن بعد حضرت علی ؓ یہیں آپ سے ملے۔ قباء میں آپ کا قیام 14 دن رہا۔ یہ بستی مدینہ منورہ سے تقریبا 3 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ مدینہ کی طرف رسول اللہ ﷺ سے پہلے ہجرت کرنے والوں نے ایک مسجد بنائی جسے مسجد قباء کہا جاتا ہے۔ جب رسول اللہ ﷺ نے اس بستی میں قیام فرمایا تو اس مسجد میں نمازیں ادا کرتے رہے۔ اس میں توسیع کے متعلق تفصیلی معلومات کے لیے اطلس سیرت نبوی (ص: 151، طبع دارالسلام) کا مطالعہ مفید رہے گا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1162.01
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1192
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1192
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1192
تمہید کتاب
صحیح بخاری کا موضوع امکانی حد تک امت مسلمہ کی اعتقادی، اخلاقی اور عملی رہنمائی کرنا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اللہ کی زمین پر مساجد بہترین خطبے اور بازار بدترین ٹکڑے ہیں۔ اللہ کے بندے اس کی عبادت اور خوشنودی کے لیے ان مساجد کا رخ کرتے ہیں۔ اس کے برعکس کچھ لوگ مساجد کو نظر انداز کر کے مشاہدہ و مقابر اور مزارات کا رخ کرتے ہیں تاکہ وہاں مدفون بزرگ خوش ہو کر ان کی حاجت روائی کا وسیلہ بن جائیں، پھر ان کی اس درجہ تعظیم کرتے ہیں جو کھلے شرک تک پہنچ جاتی ہے، مثلاً: کسی درگاہ پر چلہ کشی یا خانقاہ پر اعتکاف یا آستانے پر نذرونیاز یا بغرض ثواب مزارات کا سفر اس اعتقادی خرابی کے برگ و ہار ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے تطوع کے ابواب کے بعد اس مسئلے کی وضاحت بھی ضروری خیال کی۔ اس سلسلے میں انہوں نے مرفوع احادیث پر چھ (6) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں: سب سے پہلے مسجد حرام اور مسجد نبوی میں نماز ادا کرنے کی فضیلت بیان فرمائی۔ اس کے بعد مسجد قباء کا ذکر کیا۔ اس مناسبت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل مبارک کا حوالہ دیا کہ آپ ہفتے کے دن مسجد قباء پیدل یا سوار ہو کر جاتے تھے۔ بعد ازاں مسجد نبوی میں بعض مقامات کی فضیلت بیان فرمائی اور آخر میں مسجد اقصیٰ کی فضیلت کے متعلق حدیث ذکر کی۔دراصل اس عالم رنگ و بو میں کوئی قطعۂ ارضی ایسا نہیں جس کا فضل و شرف اپنا ذاتی ہو تاکہ اس کے فضل و شرف کی وجہ سے اس کی طرف رختِ سفر باندھنا جائز ہو، ہاں تین مساجد ایسی ہیں جن کی زیارت کی خاطر سفر کرنا عبادت اور باعث اجروثواب ہے اور ان کی فضیلت کے متعلق شریعت نے ہمیں آگاہ کیا ہے جیسا کہ آئندہ معلوم ہو گا۔ ان مساجد کے نام یہ ہیں: مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ۔ مسجد قباء کی طرف جانے اور وہاں نماز پڑھنے کی فضیلت بھی احادیث میں وارد ہے، لہذا وہ ممانعت کے اس عمومی حکم سے مستثنیٰ ہے۔ ان کے علاوہ دیگر شہروں کا سفر تبلیغ اسلام، جہاد فی سبیل اللہ، تحصیل علم، زیارت اخوان اور کسب معاش وغیرہ کے لیے تو کیا جا سکتا ہے لیکن کسی ذاتی شرف کی وجہ سے بغرضِ تقرب و عبادت نہیں کیونکہ دیگر مقامات کا سفر بغرض عبادت مشروع نہیں جیسا کہ ابو بصرہ غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ جب کوہ طور سے واپس آئے تو وہ ان سے ملے اور انہوں نے دریافت کیا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں؟ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ میں کوہ طور پر گیا تھا، وہاں نماز پڑھ کر واپس آیا ہوں۔ حضرت ابو بصرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر مجھے آپ کے وہاں جانے کا پہلے علم ہو جاتا تو آپ کو وہاں نہ جانے دیتا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے: "تین مساجد کے علاوہ کسی دوسری جگہ جانے کے لیے رخت سفر نہیں باندھنا چاہیے۔ وہ مسجدیں یہ ہیں: مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ۔" (مسنداحمد:6/7)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تین مساجد کے علاوہ کسی اور جگہ عبادت و تقرب کی نیت سے جانا منع ہے۔ یہ ممانعت مسجد قباء کی طرف سفر کرنے میں رکاوٹ نہیں کیونکہ اس کی طرف سفر اختیار کرنے اور وہاں نماز پڑھنے کی فضیلت دیگر احادیث سے ثابت ہے۔ اس کی تفصیل باب: 34 کے تحت آ رہی ہے۔ اس حکم امتناعی کو صرف مساجد سے خاص کرنا صحیح نہیں کیونکہ صحابئ رسول نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کوہ طور پر قصداً عبادت کی نیت سے سفر کرنے کو منع فرمایا ہے، حالانکہ جبل طور پر مسجد نہیں بلکہ وہ ایک مقدس مقام ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام رب کائبات سے ہم کلام ہوئے تھے۔ جب ایسے مقام پر بغرضِ عبادت جانے کی اجازت نہیں تو ملک عزیز میں پھیلے ہوئے مزارات و مشاہد پر بغرض عبادت و زیارت جانا کیونکر جائز ہو سکتا ہے؟ چونکہ شرعی طور پر ایسا کرنا بے شمار مفاسد کا پیش خیمہ تھا، اس لیے اس کا سدباب ضروری تھا، البتہ قبرستان میں اہل قبور کے لیے دعائے مغفرت کی خاطر جانا متعدد احادیث سے ثابت ہے، نیز وہاں جانے سے آخرت کی یاددہانی بھی ہوتی ہے۔ مسجد نبوی میں ادائے نماز کی نیت سے مدینہ منورہ کا سفر کرنا، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر حاضری دینا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام پڑھنا، پھر حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما پر سلام پڑھنا، اس کے بعد بقیع کے قبرستان میں جا کر وہاں مدفون جملہ اموات کے لیے دعائے مغفرت کرنا احادیث سے ثابت ہے جن کی وضاحت ہم آئندہ کریں گے۔ہماری ان گزارشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے آئندہ احادیث کا مطالعہ کریں تاکہ قلب و ذہن کے لیے جلا کا باعث ہوں۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
حضرت ابن عمر ؓ ہی کا بیان ہے کہ میں اس طرح کرتا ہوں جیسے میں نے اپنے دوستوں کو کرتے دیکھا ہے۔ اور میں کسی کو منع نہیں کرتا کہ وہ رات یا دن میں جب چاہے نماز پڑھے، ہاں! قصدا سورج نکلتے یا غروب ہوتے وقت نماز پڑھنے سے اجتناب کرو۔
حدیث حاشیہ:
ان احادیث میں امام بخاری ؒ نے مسجد قباء میں نماز پڑھنے کی فضیلت کو بیان کیا ہے۔ واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے یثرب کی بیرونی بستی قباء پہنچے تھے جسے عالیہ بھی کہا جاتا تھا۔ قباء ایک کنویں کا نام ہے جس کی نسبت سے بستی کا نام بھی قباء مشہور ہو گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے قبیلۂ عمرو بن عوف کے سردار کلثوم بن ہدم کے ہاں قیام فرمایا اور حضرت ابوبکر ؓ نے حبیب بن اساف کو شرف میزبانی بخشا۔ رات کو سعد بن خیثمہ کے ہاں مجلس لگتی۔ تین دن بعد حضرت علی ؓ یہیں آپ سے ملے۔ قباء میں آپ کا قیام 14 دن رہا۔ یہ بستی مدینہ منورہ سے تقریبا 3 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ مدینہ کی طرف رسول اللہ ﷺ سے پہلے ہجرت کرنے والوں نے ایک مسجد بنائی جسے مسجد قباء کہا جاتا ہے۔ جب رسول اللہ ﷺ نے اس بستی میں قیام فرمایا تو اس مسجد میں نمازیں ادا کرتے رہے۔ اس میں توسیع کے متعلق تفصیلی معلومات کے لیے اطلس سیرت نبوی (ص: 151، طبع دارالسلام) کا مطالعہ مفید رہے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
نافع نے بیان کیا کہ ا بن عمر ؓ فرمایا کرتے تھے کہ میں اسی طرح کرتا ہوں جیسے میں نے اپنے ساتھیوں ( صحابہ ؓ ) کو کرتے دیکھا ہے۔ لیکن تمہیں رات یا دن کے کسی حصے میں نماز پڑھنے سے نہیں روکتا۔ صرف اتنی بات ہے کہ قصد کر کے تم سورج نکلتے یا ڈوبتے وقت نہ پڑھو۔
حدیث حاشیہ:
قبا شہر مدینہ سے تین میل کے فاصلہ پر ایک مشہورگاؤں ہے۔ جہاں ہجرت کے وقت آنحضرت ﷺ نے چند روز قیام فرمایا تھا اور یہاں آپ نے اولین مسجد کی بنیاد رکھی جس کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے۔ آپ ﷺ کو اپنی اس اولین مسجد سے اس قدر محبت تھی کہ آپ ہفتہ میں ایک دفعہ یہاں ضرور تشریف لاتے اور اس مسجد میں دو رکعت تحیۃ المسجد ادا فرمایاکرتے تھے۔ ان دو رکعتوں کا بہت بڑا ثواب ہے۔ آج کل حرم نبوی کے متصل بس اڈہ سے قبا کو بسیں دوڑتی رہتی ہیں۔ الحمد للہ کہ 1951ء پھر1962ء کے ہر دو سفروں میں مدینہ منورہ کی حاضر ی کی سعادت پر بارہا مسجد قباء بھی جانے کا اتفاق ہوا تھا۔62 کا سفر حج میرے خاص الخاص مہربان قدردان حضرت الحاج محمد پارہ آف رنگون وارد حال کراچی أدام اللہ إقبالھم وبارك لهم بارك علیھم کے محترم والد ماجد حضرت الحاج اسماعیل پارہ ؒ کے حج بدل کے لیے گیا تھا۔ اللہ پاک قبول فرما کر مرحوم اسماعیل پارہ کے لیے وسیلہ آخرت بنائے اور گرامی قدر حاجی محمد پارہ اور ان کے بچوں اور جملہ متعلقین کو دارین کی نعمتوں سے نوازے اور ترقیات نصیب کرے اور میری عاجزانہ دعائیں ان سب کے حق میں قبول فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
And he (i.e. Ibn 'Umar (RA)) used to say, "I do only what my companions used to do and I don't forbid anybody to pray at any time during the day or night except that one should not intend to pray at sunrise or sunset."