Sahi-Bukhari:
Actions while Praying
(Chapter: What kind of actions are permissible during As-Salat)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1209.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب (رات کے وقت) نبی ﷺ نماز پڑھتے تو میں آپ کی طرف پاؤں پھیلا کر لیٹی رہتی۔ جب آپ سجدہ کرتے تو میرا پاؤں دبا دیتے، میں انہیں اٹھا لیتی اور جب آپ کھڑے ہو جاتے تو میں پھر پاؤں دراز کر لیتی۔
تشریح:
1۔ اس عنوان کے تحت امام بخاری نے ان امور کو بیان کیا ہے جو دوران نماز میں کیے جا سکتے ہیں اور ان سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آتی۔ یہ وہ امور ہیں جن کا ذکر پہلے نہیں ہوا۔ ان سے مراد معمولی عمل ہے۔ دوران نماز میں کسی ضرورت کے پیش نظر دوسرے کے پاؤں کو دبانا جائز ہے، البتہ ایسے کام نماز کی خرابی کا باعث ہیں جن میں درج ذیل چار شرطیں پائی جائیں:٭وہ یقینی طور پر عمل کثیر کے دائرے میں شامل ہو۔ ٭انہیں تسلسل کے ساتھ کیا جائے۔٭ وہ کام بھاری بھر کم اور ثقیل ہوں۔ ٭انہیں کسی ضرورتِ لازمہ کے بغیر کیا جائے۔ بھاری بھر کم کام سے شدت خوف کی نماز مستثنیٰ ہے۔ اسی طرح جب سواری پر نفل نماز پڑھی جائے تو اس وقت ہاتھوں کی بعض حرکات بھی غیر مضر ہیں۔ 2۔ الغرض ہم نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ ایسے کاموں کی تحدید انتہائی مشکل ہے، اس لیے بہتر ہے کہ نبیﷺ کے افعال کا تتبع کیا جائے، البتہ دوران نماز ایسے کام نہ کیے جائیں جو نماز کا حصہ نہیں اور انہیں کرتے وقت انسان کو نمازی نہ کہا جا سکے، مثلا: لیٹ کر سو جانا‘ بھاگنا شروع کر دینا‘ کپڑے سینے لگ جانا‘ کسی چیز کی طرف دیر تک دیکھتے رہنا‘ بوجھ اٹھا لینا اور کھانا پینا وغیرہ ایسے کام ہیں جنہیں کرتے وقت نماز پڑھنے کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1179
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1209
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1209
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1209
تمہید کتاب
نماز کا اصل موضوع یہ ہے کہ اللہ کے حضور اس کی عظمت و کبریائی کا اقرار اور اپنی بندگی اور محتاجی کا اعتراف کیا جائے تاکہ اللہ کا قرب حاصل ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہر آسمانی شریعت میں ایمان کے بعد پہلا حکم نماز ہی کا رہا ہے۔ اسی خصوصیت کی بنا پر نماز کو دین کا عظیم ترین شعار اور ایک امتیازی نشان قرار دیا گیا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نماز کے اجزائے عطیہ اصلیہ اور اس کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: نماز کے تین عناصر ہیں:٭ مسلمان کا دل اللہ کی عظمت وہیبت اور رعب و جلال سے لبریز اور سر اس کے حضور جھکا ہو۔٭ اللہ کی عظمت اور اپنی بے چارگی کو بہتر الفاظ کے ساتھ اپنی زبان سے ادا کیا جائے۔٭ دیگر اعضاء کو بھی اللہ کی بڑائی اور اپنی عاجزی کی شہادت کے لیے استعمال کیا جائے۔یقینا اس قسم کی نماز ہی نمازی کے لیے گناہوں کا کفارہ ہو گی جیسا کہ حدیث میں ہے: "جو مسلمان آدمی فرض نماز کا وقت آنے پر اس کے لیے اچھی طرح وضو کرتا ہے، پھر پورے خشوع و خضوع اور اچھے رکوع و سجود کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے تو ایسی نماز اس کے لیے سابقہ گناہوں کا کفارہ بن جائے گی جب تک کہ وہ کسی کبیرہ گناہ کا مرتکب نہ ہو۔ نماز کی یہ برکت اس نمازی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حاصل ہوتی رہے گی۔" (صحیح مسلم،الطھارۃ،حدیث:543(228)) نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو مسلمان اچھی طرح وضو کر کے اللہ کے حضور کھڑے ہو کر پوری قلبی توجہ اور دلی یکسوئی کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھے تو اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے۔" (صحیح مسلم،الطھارۃ،حدیث:553(234))ان احادیث کا تقاضا ہے کہ انسان دوران نماز میں کوئی ایسی حرکت یا بات نہ کرے جو اللہ کی عظمت و کبریائی اور بندے کے خشوع و خضوع کے منافی ہو لیکن بعض اوقات انسان نماز کی مصلحت کے پیش نظر دوران نماز میں کوئی نقل و حرکت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے جو بظاہر نماز کے منافی ہوتی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ دوران نماز میں اس طرح کی حرکات و سکنات کی حدود و شرائط کو بیان کر دیا جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ عنوان اسی قسم کی ضرورت کے پیش نظر قائم کیا ہے۔علامہ عینی رحمہ اللہ نے امام مجاہد کے حوالے سے لکھا ہے کہ دوران نماز میں کسی قسم کے کام میں مصروف ہونے کی تین قسمیں ہیں:(1) بہت ہی کم نقل و حرکت ہو جیسا کہ آنکھ سے اشارہ یا بوقت ضرورت جسم کو کھجلانا۔ ایسی حرکت خواہ دانستہ ہو یا غیر دانستہ اس سے نماز میں کوئی نقص واقع نہیں ہوتا۔(2) اس سے کچھ زیادہ حرکات کا ارتکاب کرنا جیسا کہ نماز سے پھر جانا۔ ایسی حرکات اگر دانستہ ہوں تو نماز باطل ہو جاتی ہے، سہواً ایسا فعل سرزد ہونے سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آتی۔(3) زیادہ چلنا اور نماز چھوڑ کر مسجد سے نکل جانا وغیرہ۔ ایسا کرنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے، خواہ ایسی حرکت غیر شعوری طور پر ہی کیوں نہ ہو۔ (عمدۃالقاری:3/583)صفوں کے درمیان شگاف پر کرنے کے لیے چند قدم چلنا، آگے سے گزرنے والے کو روکنا یا سجدے کی جگہ پر پڑی ہوئی چیز کو دور کرنا وغیرہ ایسے افعال ہیں جنہیں دوران نماز میں کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے نزدیک ان کی تحدید مشکل ہے، اس لیے ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال کو دیکھا جائے، جتنا عمل آپ سے ثابت ہے اسے جائز اور اس سے زیادہ عمل کو نماز کے منافی خیال کیا جائے، ہاں! اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی عمل کے لیے خصوصیت کی دلیل موجود ہو تو اس میں امت کے لیے جواز کا کوئی پہلو نہیں ہو گا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوران نماز افعال کا تتبع کرتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا 32 احادیث بیان کی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) معلق اور چھبیس (26) موصول ہیں۔ پھر ان پر آپ نے اٹھارہ (18) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ ان احادیث میں تئیس (23) مکرر اور نو (9) خالص احادیث ہیں۔ چار (4) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ علیہم کے چھ (6) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ظاہری اعضاء کے افعال کے علاوہ دوران نماز میں کسی دوسرے معاملے میں غوروفکر کرنے کی مشروعیت کو بیان کیا ہے جس کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔بہرحال ہماری پیش کردہ تمہیدی گزارشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے امام بخاری کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی سوچ کے متعلق پتہ چلے کہ وہ کس قدر مستحکم، مثبت اور مبنی بر حقیقت ہے۔ والله يهدي من يشاء إلی صراط مستقيم
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب (رات کے وقت) نبی ﷺ نماز پڑھتے تو میں آپ کی طرف پاؤں پھیلا کر لیٹی رہتی۔ جب آپ سجدہ کرتے تو میرا پاؤں دبا دیتے، میں انہیں اٹھا لیتی اور جب آپ کھڑے ہو جاتے تو میں پھر پاؤں دراز کر لیتی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ اس عنوان کے تحت امام بخاری نے ان امور کو بیان کیا ہے جو دوران نماز میں کیے جا سکتے ہیں اور ان سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آتی۔ یہ وہ امور ہیں جن کا ذکر پہلے نہیں ہوا۔ ان سے مراد معمولی عمل ہے۔ دوران نماز میں کسی ضرورت کے پیش نظر دوسرے کے پاؤں کو دبانا جائز ہے، البتہ ایسے کام نماز کی خرابی کا باعث ہیں جن میں درج ذیل چار شرطیں پائی جائیں:٭وہ یقینی طور پر عمل کثیر کے دائرے میں شامل ہو۔ ٭انہیں تسلسل کے ساتھ کیا جائے۔٭ وہ کام بھاری بھر کم اور ثقیل ہوں۔ ٭انہیں کسی ضرورتِ لازمہ کے بغیر کیا جائے۔ بھاری بھر کم کام سے شدت خوف کی نماز مستثنیٰ ہے۔ اسی طرح جب سواری پر نفل نماز پڑھی جائے تو اس وقت ہاتھوں کی بعض حرکات بھی غیر مضر ہیں۔ 2۔ الغرض ہم نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ ایسے کاموں کی تحدید انتہائی مشکل ہے، اس لیے بہتر ہے کہ نبیﷺ کے افعال کا تتبع کیا جائے، البتہ دوران نماز ایسے کام نہ کیے جائیں جو نماز کا حصہ نہیں اور انہیں کرتے وقت انسان کو نمازی نہ کہا جا سکے، مثلا: لیٹ کر سو جانا‘ بھاگنا شروع کر دینا‘ کپڑے سینے لگ جانا‘ کسی چیز کی طرف دیر تک دیکھتے رہنا‘ بوجھ اٹھا لینا اور کھانا پینا وغیرہ ایسے کام ہیں جنہیں کرتے وقت نماز پڑھنے کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد اللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام مالک ؓ نے بیان کیا، ان سے ابو النضر سالم بن ابی امیہ نے، ان سے ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے اور ان سے عائشہ ؓ نے فرمایا کہ میں اپنا پاؤں نبی کریم ﷺ کے سامنے پھیلا لیتی تھی اور نماز پڑھتے ہوتے جب آپ ﷺ سجدہ کرنے لگتے تو آپ مجھے ہاتھ لگاتے، میں پاؤں سمیٹ لیتی، پھر جب آپ کھڑے ہو جاتے تو میں پھر پھیلا لیتی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aisha (RA): I used to stretch my legs towards the Qibla of the Prophet (ﷺ) while he was praying; whenever he prostrated he touched me, and I would withdraw my legs, and whenever he stood up, I would restretch my legs.