باب: اس بارے میں کہ اگر نمازی سے کوئی کہے کہ آگے بڑھ جا یا ٹھہر جا اور وہ آگے بڑھ جاِئے یا ٹھہر جائے تو کوئی قباحت نہیں ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Actions while Praying
(Chapter: If a person in Salat is asked to step forward, or to wait, there will be no harm therein)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1215.
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: لوگ نبی ﷺ کے ہمراہ نماز پڑھتے تھے جبکہ وہ اپنی چادروں کو ان کے چھوٹا ہونے کی وجہ سے اپنی گردن پر باندھے ہوتے۔ ان حالات میں عورتوں سے کہا جاتا: ’’تم اپنے سر (سجدے سے) مت اٹھاؤ حتی کہ مرد سیدھے ہو کر بیٹھ جائیں۔‘‘
تشریح:
(1) بعض حضرات کا موقف ہے کہ اگر نمازی باہر سے کسی کی اصلاح قبول کرتا ہے تو اس کی نماز باطل ہو جاتی ہے کیونکہ تعلیم و تعلم کا سلسلہ دوران نماز میں صحیح نہیں بلکہ صحت نماز کے منافی ہے۔ امام بخاری ؒ اس کی تردید فرماتے ہیں کہ اگر نمازی مصلحت نماز کے لیے باہر سے اصلاح قبول کرتا ہے تو جائز ہے، چنانچہ حدیث مذکور میں عورتوں سے خطاب ہے کہ مردوں کے سیدھا ہو کر بیٹھنے سے پہلے پہلے تم نے سجدے سے اپنے سروں کو نہیں اٹھانا۔ (2) امام بخاری ؒ اپنی صحیح بخاری میں احادیث کے اطلاق و عموم سے مسائل کا استنباط فرماتے ہیں۔ اس مقام پر بھی انہوں نے حدیث کے عموم و اطلاق سے مسئلہ ثابت کیا ہے کیونکہ حدیث میں یہ وضاحت نہیں کہ مذکورہ خطاب دوران نماز میں تھا یا نماز شروع کرنے سے پہلے۔ علامہ عینی ؒ نے لکھا ہے: اگرچہ حدیث میں اس کی صراحت نہیں تاہم کلام کے سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کو دوران نماز میں یہ حکم دیا گیا تھا جبکہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نماز ادا کر رہی تھیں، کیونکہ اس میں حرف "فا" استعمال ہوا ہے جو تعقیب کے لیے ہے۔ اس کا تقاضا یہی ہے کہ عورتوں کو دوران نماز یہ حکم دیا گیا تھا۔ (عمدةالقاري:621/5) اگر یہ خطاب نماز سے پہلے بھی ہو تو کم از کم اس حکم کی تعمیل میں عورتوں کے لیے دوران نماز انتظار کرنا تو ثابت ہو گا۔ اگر دورانِ نماز میں ہے تو وہ انتظار کریں گی۔ اور مردوں کے بعد سر اٹھائیں گی۔ اس سے مردوں کے لیے تقدم اور عورتوں کے لیے انتظار، یعنی تاخر ثابت ہوا۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1185
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1215
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1215
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1215
تمہید کتاب
نماز کا اصل موضوع یہ ہے کہ اللہ کے حضور اس کی عظمت و کبریائی کا اقرار اور اپنی بندگی اور محتاجی کا اعتراف کیا جائے تاکہ اللہ کا قرب حاصل ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہر آسمانی شریعت میں ایمان کے بعد پہلا حکم نماز ہی کا رہا ہے۔ اسی خصوصیت کی بنا پر نماز کو دین کا عظیم ترین شعار اور ایک امتیازی نشان قرار دیا گیا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نماز کے اجزائے عطیہ اصلیہ اور اس کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: نماز کے تین عناصر ہیں:٭ مسلمان کا دل اللہ کی عظمت وہیبت اور رعب و جلال سے لبریز اور سر اس کے حضور جھکا ہو۔٭ اللہ کی عظمت اور اپنی بے چارگی کو بہتر الفاظ کے ساتھ اپنی زبان سے ادا کیا جائے۔٭ دیگر اعضاء کو بھی اللہ کی بڑائی اور اپنی عاجزی کی شہادت کے لیے استعمال کیا جائے۔یقینا اس قسم کی نماز ہی نمازی کے لیے گناہوں کا کفارہ ہو گی جیسا کہ حدیث میں ہے: "جو مسلمان آدمی فرض نماز کا وقت آنے پر اس کے لیے اچھی طرح وضو کرتا ہے، پھر پورے خشوع و خضوع اور اچھے رکوع و سجود کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے تو ایسی نماز اس کے لیے سابقہ گناہوں کا کفارہ بن جائے گی جب تک کہ وہ کسی کبیرہ گناہ کا مرتکب نہ ہو۔ نماز کی یہ برکت اس نمازی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حاصل ہوتی رہے گی۔" (صحیح مسلم،الطھارۃ،حدیث:543(228)) نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو مسلمان اچھی طرح وضو کر کے اللہ کے حضور کھڑے ہو کر پوری قلبی توجہ اور دلی یکسوئی کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھے تو اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے۔" (صحیح مسلم،الطھارۃ،حدیث:553(234))ان احادیث کا تقاضا ہے کہ انسان دوران نماز میں کوئی ایسی حرکت یا بات نہ کرے جو اللہ کی عظمت و کبریائی اور بندے کے خشوع و خضوع کے منافی ہو لیکن بعض اوقات انسان نماز کی مصلحت کے پیش نظر دوران نماز میں کوئی نقل و حرکت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے جو بظاہر نماز کے منافی ہوتی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ دوران نماز میں اس طرح کی حرکات و سکنات کی حدود و شرائط کو بیان کر دیا جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ عنوان اسی قسم کی ضرورت کے پیش نظر قائم کیا ہے۔علامہ عینی رحمہ اللہ نے امام مجاہد کے حوالے سے لکھا ہے کہ دوران نماز میں کسی قسم کے کام میں مصروف ہونے کی تین قسمیں ہیں:(1) بہت ہی کم نقل و حرکت ہو جیسا کہ آنکھ سے اشارہ یا بوقت ضرورت جسم کو کھجلانا۔ ایسی حرکت خواہ دانستہ ہو یا غیر دانستہ اس سے نماز میں کوئی نقص واقع نہیں ہوتا۔(2) اس سے کچھ زیادہ حرکات کا ارتکاب کرنا جیسا کہ نماز سے پھر جانا۔ ایسی حرکات اگر دانستہ ہوں تو نماز باطل ہو جاتی ہے، سہواً ایسا فعل سرزد ہونے سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آتی۔(3) زیادہ چلنا اور نماز چھوڑ کر مسجد سے نکل جانا وغیرہ۔ ایسا کرنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے، خواہ ایسی حرکت غیر شعوری طور پر ہی کیوں نہ ہو۔ (عمدۃالقاری:3/583)صفوں کے درمیان شگاف پر کرنے کے لیے چند قدم چلنا، آگے سے گزرنے والے کو روکنا یا سجدے کی جگہ پر پڑی ہوئی چیز کو دور کرنا وغیرہ ایسے افعال ہیں جنہیں دوران نماز میں کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے نزدیک ان کی تحدید مشکل ہے، اس لیے ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال کو دیکھا جائے، جتنا عمل آپ سے ثابت ہے اسے جائز اور اس سے زیادہ عمل کو نماز کے منافی خیال کیا جائے، ہاں! اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی عمل کے لیے خصوصیت کی دلیل موجود ہو تو اس میں امت کے لیے جواز کا کوئی پہلو نہیں ہو گا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوران نماز افعال کا تتبع کرتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا 32 احادیث بیان کی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) معلق اور چھبیس (26) موصول ہیں۔ پھر ان پر آپ نے اٹھارہ (18) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ ان احادیث میں تئیس (23) مکرر اور نو (9) خالص احادیث ہیں۔ چار (4) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ علیہم کے چھ (6) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ظاہری اعضاء کے افعال کے علاوہ دوران نماز میں کسی دوسرے معاملے میں غوروفکر کرنے کی مشروعیت کو بیان کیا ہے جس کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔بہرحال ہماری پیش کردہ تمہیدی گزارشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے امام بخاری کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی سوچ کے متعلق پتہ چلے کہ وہ کس قدر مستحکم، مثبت اور مبنی بر حقیقت ہے۔ والله يهدي من يشاء إلی صراط مستقيم
تمہید باب
اس کا مطلب یہ ہے کہ نمازی کو دوران نماز خطاب کر کے کہنا کہ آگے بڑھو یا انتظار کرو تو وہ اس کی تعمیل کرتے ہوئے آگے بڑھتا ہے یا انتظار کرتا ہے تو اس سے نماز میں کوئی خلل نہیں آتا۔
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: لوگ نبی ﷺ کے ہمراہ نماز پڑھتے تھے جبکہ وہ اپنی چادروں کو ان کے چھوٹا ہونے کی وجہ سے اپنی گردن پر باندھے ہوتے۔ ان حالات میں عورتوں سے کہا جاتا: ’’تم اپنے سر (سجدے سے) مت اٹھاؤ حتی کہ مرد سیدھے ہو کر بیٹھ جائیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) بعض حضرات کا موقف ہے کہ اگر نمازی باہر سے کسی کی اصلاح قبول کرتا ہے تو اس کی نماز باطل ہو جاتی ہے کیونکہ تعلیم و تعلم کا سلسلہ دوران نماز میں صحیح نہیں بلکہ صحت نماز کے منافی ہے۔ امام بخاری ؒ اس کی تردید فرماتے ہیں کہ اگر نمازی مصلحت نماز کے لیے باہر سے اصلاح قبول کرتا ہے تو جائز ہے، چنانچہ حدیث مذکور میں عورتوں سے خطاب ہے کہ مردوں کے سیدھا ہو کر بیٹھنے سے پہلے پہلے تم نے سجدے سے اپنے سروں کو نہیں اٹھانا۔ (2) امام بخاری ؒ اپنی صحیح بخاری میں احادیث کے اطلاق و عموم سے مسائل کا استنباط فرماتے ہیں۔ اس مقام پر بھی انہوں نے حدیث کے عموم و اطلاق سے مسئلہ ثابت کیا ہے کیونکہ حدیث میں یہ وضاحت نہیں کہ مذکورہ خطاب دوران نماز میں تھا یا نماز شروع کرنے سے پہلے۔ علامہ عینی ؒ نے لکھا ہے: اگرچہ حدیث میں اس کی صراحت نہیں تاہم کلام کے سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کو دوران نماز میں یہ حکم دیا گیا تھا جبکہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نماز ادا کر رہی تھیں، کیونکہ اس میں حرف "فا" استعمال ہوا ہے جو تعقیب کے لیے ہے۔ اس کا تقاضا یہی ہے کہ عورتوں کو دوران نماز یہ حکم دیا گیا تھا۔ (عمدةالقاري:621/5) اگر یہ خطاب نماز سے پہلے بھی ہو تو کم از کم اس حکم کی تعمیل میں عورتوں کے لیے دوران نماز انتظار کرنا تو ثابت ہو گا۔ اگر دورانِ نماز میں ہے تو وہ انتظار کریں گی۔ اور مردوں کے بعد سر اٹھائیں گی۔ اس سے مردوں کے لیے تقدم اور عورتوں کے لیے انتظار، یعنی تاخر ثابت ہوا۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، انہیں ابو حازم نے، ان کو سہل بن سعد ؓ نے بتلایا کہ لوگ نبی کریم ﷺ کے ساتھ نماز اس طرح پڑھتے کہ تہبند چھوٹے ہونے کی وجہ سے انہیں اپنی گردنوں سے باندھے رکھتے اور عورتوں کو (جو مردوں کے پیچھے جماعت میں شریک رہتی تھیں) کہہ دیا جاتا کہ جب تک مرد پوری طرح سمٹ کرنہ بیٹھ جائیں تم اپنے سر (سجدے سے) نہ اٹھانا۔
حدیث حاشیہ:
امام نماز میں بھول جائے یا کسی دیگرضروری امر پر امام کو آگاہ کرنا ہوتو مرد سبحان اللہ کہیں اور عورت تالیاں بجائیں اگر کسی مرد نے نادانی کی وجہ سے تالیاں بجائیں تو اس کی نماز نہیں ٹوٹے گی۔ چنانچہ سہل ؓ کی حدیث میں جو دو بابوں کے بعد آ رہی ہے کہ صحابہ ؓ نے نادانی کی وجہ سے ایسا کیا اور آپ ﷺ نے ان کو نماز لوٹانے کا حکم نہیں فرمایا۔ حدیث اور باب میں یوں مطابقت ہوئی کہ یہ بات عورتوں کو حالت نماز میں کہی گئی یا نماز سے پہلے۔ شق اول میں معلوم ہوا کہ نمازی کو مخاطب کرنا اور نمازی کے لیے کسی کا انتظار کرنا جائز ہے اور شق ثانی میں معلوم ہوا کہ نماز میں انتظار کرنا جائز ہے۔ حضرت امام بخاری ؒ کے کلام کا حاصل یہ ہے کہ کسی کا انتظار اگر شرعی ہے تو جائزہے ورنہ نہیں۔ (فتح الباري)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sahl bin Sad (RA): The people used to offer the prayer with the Prophet (ﷺ) with their waist-sheets tied round their necks because of the shortness of the sheets and the women were ordered not to lift their heads till the men had sat straight. ________