باب: عورت کے بالوں کی تین لٹیں بنا کر اس کے پیچھے ڈالدی جائیں
)
Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: To make the hair of a (dead) woman fall at her back)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1263.
حضرت ام عطیہ ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا:نبی کریم ﷺ کی صاحبزادیوں میں سے ایک صاحبزادی کا انتقال ہوگیا تو نبی کریم ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ’’(پانی میں) بیری کے پتے ڈال کر اسے تین بار یا پانچ بار اوراگرضرورت محسوس کروتواس سے بھی زیادہ بار غسل دو اور آخری بار (پانی میں) میں کچھ کافور کی آمیزش کردو۔ اور جب فارغ ہوجاؤ تو مجھے اطلاع دو۔‘‘ چنانچہ جب ہم فارغ ہوگئیں تو آپ کو اطلاع دی۔ آپ ﷺ نے ہماری طرف اپنا تہبند پھینکا، ہم نے ان کے بال گوندھ کر تین چوٹیاں بنائیں اور انھیں پیٹھ کے پیچھے ڈال دیا۔
تشریح:
(1) سنن نسائی میں ہے کہ ہم نے ان کے بالوں میں کنگھی کی۔ (سنن النسائي، الجنائز، حدیث: 1886) پیچھے ایک روایت گزر چکی ہے جس میں ذکر ہے کہ ہم نے ان کے بالوں میں کنگھی کی اور پھر تین چوٹیاں بنائیں۔ (صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1254) بخاری کی روایت پہلے گزر چکی ہے کہ تین چوٹیاں اس طرح بنائی گئیں کہ ایک پیشانی کی طرف بالوں کی چوٹی دائیں، بائیں طرف کے بالوں کی دو چوٹیاں بنائی گئیں۔ (صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1262) مذکورہ روایت میں صراحت ہے کہ بالوں کی تین لٹوں کو پیچھے ڈال دیا گیا۔ اس قدر صراحت کے باوجود یہ کہنا کہ ’’بالوں کو کنگھی کر کے پیچھے ڈال دینے میں زینت ہے اور میت اس سے مستثنیٰ ہے۔‘‘ اسے سخن سازی ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ امام شافعی اور امام احمد بن حنبل ؒ کا یہی موقف ہے کہ فوت شدہ عورت کے بالوں میں کنگھی کر کے اس کی تین چوٹیاں بنا دی جائیں، پھر انہیں پیچھے ڈال دیا جائے۔ (فتح الباري: 172/3) (2) واضح رہے کہ امام بخاری ؒ نے حضرت ام عطیہ ؓ کی اس حدیث پر دس عنوان قائم کیے ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1231
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1263
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1263
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1263
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
حضرت ام عطیہ ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا:نبی کریم ﷺ کی صاحبزادیوں میں سے ایک صاحبزادی کا انتقال ہوگیا تو نبی کریم ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ’’(پانی میں) بیری کے پتے ڈال کر اسے تین بار یا پانچ بار اوراگرضرورت محسوس کروتواس سے بھی زیادہ بار غسل دو اور آخری بار (پانی میں) میں کچھ کافور کی آمیزش کردو۔ اور جب فارغ ہوجاؤ تو مجھے اطلاع دو۔‘‘ چنانچہ جب ہم فارغ ہوگئیں تو آپ کو اطلاع دی۔ آپ ﷺ نے ہماری طرف اپنا تہبند پھینکا، ہم نے ان کے بال گوندھ کر تین چوٹیاں بنائیں اور انھیں پیٹھ کے پیچھے ڈال دیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) سنن نسائی میں ہے کہ ہم نے ان کے بالوں میں کنگھی کی۔ (سنن النسائي، الجنائز، حدیث: 1886) پیچھے ایک روایت گزر چکی ہے جس میں ذکر ہے کہ ہم نے ان کے بالوں میں کنگھی کی اور پھر تین چوٹیاں بنائیں۔ (صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1254) بخاری کی روایت پہلے گزر چکی ہے کہ تین چوٹیاں اس طرح بنائی گئیں کہ ایک پیشانی کی طرف بالوں کی چوٹی دائیں، بائیں طرف کے بالوں کی دو چوٹیاں بنائی گئیں۔ (صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1262) مذکورہ روایت میں صراحت ہے کہ بالوں کی تین لٹوں کو پیچھے ڈال دیا گیا۔ اس قدر صراحت کے باوجود یہ کہنا کہ ’’بالوں کو کنگھی کر کے پیچھے ڈال دینے میں زینت ہے اور میت اس سے مستثنیٰ ہے۔‘‘ اسے سخن سازی ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ امام شافعی اور امام احمد بن حنبل ؒ کا یہی موقف ہے کہ فوت شدہ عورت کے بالوں میں کنگھی کر کے اس کی تین چوٹیاں بنا دی جائیں، پھر انہیں پیچھے ڈال دیا جائے۔ (فتح الباري: 172/3) (2) واضح رہے کہ امام بخاری ؒ نے حضرت ام عطیہ ؓ کی اس حدیث پر دس عنوان قائم کیے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے ہشام بن حسان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حفصہ نے بیان کیا، ان سے ام عطیہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ کی ایک صاحبزادی کا انتقال ہوگیا تو نبی کریم ﷺ تشریف لائے اور فرمایا کہ ان کو پانی اور بیری کے پتوں سے تین یا پانچ مرتبہ غسل دے لو۔ اگر تم مناسب سمجھو تو اس سے زیادہ بھی دے سکتی ہو اور آخر میں کافور یا (آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ) تھوڑی سی کافور استعمال کرو پھر جب غسل دے چکو تو مجھے خبر دو۔ چنانچہ فارغ ہو کر ہم نے آپ کو خبر دی تو آپ نے (ان کے کفن کے لیے) اپنا ازار عنایت کیا۔ ہم نے اس کے سر کے بالوں کی تین چوٹیاں کر کے انہیں پیچھے کی طرف ڈال دیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
صحیح ابن حبان میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ایسا حکم دیا تھا کہ بالوں کی تین چوٹیاں کردو۔ اس حدیث سے میت کے بالوں کا گوندھنا بھی ثابت ہوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Um 'Atiyya (RA): One of the daughters of the Prophet (ﷺ) expired and he came to us and said, "Wash her with Sidr (water) for odd number of times, i.e. three, five or more, if you think it necessary, and in the last, put camphor or (some camphor on her), and when you finish, notify me." So when we finished we informed him. He gave his waist-sheet to us (to shroud her). We entwined the hair (of the deceased girl) in three braids and made them fall at her back. ________