Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: The perfuming of a dead body with Hanut)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1266.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے ،انھوں نے فرمایا:ایک شخص ر سول اللہ ﷺ کے ہمراہ مقام عرفہ میں ٹھہرا ہوا تھا کہ اچانک اپنی سواری سے گر پڑا جس سے اس کی گردن ٹوٹ گئی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اسے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دے کر دو کپڑوں میں کفن دو۔ اسے خوشبو نہ لگاؤ اور نہ اس کے سر ہی کو ڈھانپو، کیونکہ اسے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس حال میں اٹھائے گا کہ یہ تلبیہ کہہ رہا ہوگا۔‘‘
تشریح:
صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے: ’’اسے خوشبو کے قریب تک نہ کرو کیونکہ یہ قیامت کے دن احرام کی حالت میں تلبیہ کہتا ہوا اٹھایا جائے گا۔‘‘(صحیح البخاري، جزاء الصید، حدیث: 1839) ان روایات میں خوشبو سے ممانعت کا سبب یہ بتایا گیا ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اٹھائے گا تو یہ تلبیہ کہہ رہا ہو گا۔ چونکہ وہ شخص حالتِ احرام میں اٹھایا جائے گا اور احرام کی حالت میں خوشبو لگانا منع ہے، اس لیے اس کی میت کو بھی خوشبو لگانے سے روک دیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ممانعت کا سبب احرام ہے۔ اگر احرام نہیں ہو گا تو ممانعت بھی نہیں ہو گی، اس لیے میت کو خوشبو لگانے میں کوئی حرج نہیں، بلکہ حضرت جابر ؓ کی روایت میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میت کو خوشبو کی دھونی دو تو تین مرتبہ دو۔‘‘ (مسند أحمد: 331/3) حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی فوت ہو گیا تو ہم نے اسے غسل دیا، کفن پہنایا اور اسے خوشبو کی دھونی دی، پھر ہم نے اسے جنازے کے لیے رکھ دیا۔ اس کے بعد ہم نے رسول اللہ ﷺ کو جنازے کی اطلاع دی تو آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: ’’اس کے ذمہ قرض تو نہیں؟‘‘(المستدرك للحاکم: 58/2) ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ میت کو خوشبو لگانا مستحب امر ہے، کیونکہ فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور اس نے بھی اللہ کے حضور پیش ہونا ہے، لہذا اچھی حالت میں پیش ہونا چاہیے۔ والله أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1234
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1266
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1266
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1266
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے ،انھوں نے فرمایا:ایک شخص ر سول اللہ ﷺ کے ہمراہ مقام عرفہ میں ٹھہرا ہوا تھا کہ اچانک اپنی سواری سے گر پڑا جس سے اس کی گردن ٹوٹ گئی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اسے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دے کر دو کپڑوں میں کفن دو۔ اسے خوشبو نہ لگاؤ اور نہ اس کے سر ہی کو ڈھانپو، کیونکہ اسے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس حال میں اٹھائے گا کہ یہ تلبیہ کہہ رہا ہوگا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے: ’’اسے خوشبو کے قریب تک نہ کرو کیونکہ یہ قیامت کے دن احرام کی حالت میں تلبیہ کہتا ہوا اٹھایا جائے گا۔‘‘(صحیح البخاري، جزاء الصید، حدیث: 1839) ان روایات میں خوشبو سے ممانعت کا سبب یہ بتایا گیا ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اٹھائے گا تو یہ تلبیہ کہہ رہا ہو گا۔ چونکہ وہ شخص حالتِ احرام میں اٹھایا جائے گا اور احرام کی حالت میں خوشبو لگانا منع ہے، اس لیے اس کی میت کو بھی خوشبو لگانے سے روک دیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ممانعت کا سبب احرام ہے۔ اگر احرام نہیں ہو گا تو ممانعت بھی نہیں ہو گی، اس لیے میت کو خوشبو لگانے میں کوئی حرج نہیں، بلکہ حضرت جابر ؓ کی روایت میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میت کو خوشبو کی دھونی دو تو تین مرتبہ دو۔‘‘ (مسند أحمد: 331/3) حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی فوت ہو گیا تو ہم نے اسے غسل دیا، کفن پہنایا اور اسے خوشبو کی دھونی دی، پھر ہم نے اسے جنازے کے لیے رکھ دیا۔ اس کے بعد ہم نے رسول اللہ ﷺ کو جنازے کی اطلاع دی تو آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: ’’اس کے ذمہ قرض تو نہیں؟‘‘(المستدرك للحاکم: 58/2) ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ میت کو خوشبو لگانا مستحب امر ہے، کیونکہ فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور اس نے بھی اللہ کے حضور پیش ہونا ہے، لہذا اچھی حالت میں پیش ہونا چاہیے۔ والله أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ایوب نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے عبد اللہ بن عباس ؓ نے بیان کیا کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کے ساتھ میدان عرفہ میں وقوف کئے ہوئے تھا کہ وہ اپنے اونٹ سے گر پڑا اور اونٹ نے انہیں کچل دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ انہیں پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دے کر دو کپڑوں کا کفن دو، خوشبو نہ لگاؤ اور نہ سر ڈھکو، کیونکہ اللہ تعالی قیامت کے دن انہیں لبیك کہتے ہوئے اٹھائے گا۔
حدیث حاشیہ:
محرم کو خوشبو نہ لگائی جائے۔ اس سے ثابت ہوا کہ غیر محرم میت کو خوشبو لگانی چاہیے۔ باب کامقصد یہی ہے۔ محرم کو خوشبو کے لیے اس واسطے منع فرمایا کہ وہ حالت احرام ہی میں ہے اور قیامت میں اس طرح لبیك پکارتا ہوا اٹھے گا اور ظاہر ہے کہ محرم کو حالت احرام میں خوشبو کا استعمال منع ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA): While a man was at 'Arafat (for Hajj) with Allah's Apostle (ﷺ) the fell down from his Mount and broke his neck (and died). So Allah's Apostle (ﷺ) said, "Wash him with water and Sidr and shroud him in two pieces of cloth and neither perfume him nor cover his head, for Allah will resurrect him on the Day of Resurrection and he will be saying 'Labbaik." ________